تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     29-12-2013

جو بات بلاول کو سمجھ آگئی!

حیران ہوں جو بات بلاول بھٹو کو پچیس برس کی عمر میں سمجھ میںآگئی ہے وہ اس کے نانا ذوالفقار علی بھٹو کو 41 برس کی عمر میں ملک کا صدر اور 43 برس کی عمر میں وزیراعظم بن کر کیوں سمجھ نہ آ سکی۔
بلاول سمجھ گیا ہے کہ ہزاروں برس پرانی انسانی تاریخ کا سبق ہے کہ کوئی ریاست مذہب کی بنیاد پر ترقی نہیں کر سکتی اور جدید دنیا میں پاکستان کا وزیراعظم بننے کے لیے مسلمان ہونے کی شرط نہیں ہونی چاہیے۔
آج کل بھٹو کی قومی اسمبلی میں کی گئی تقریریں پڑھ رہاہوں اور بھٹو صاحب سے کچھ اہم ایشوز پر اختلافات کے باوجود میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ بھٹو سے زیادہ پڑھا لکھا اور دنیا کی تاریخ کو سمجھنے والا لیڈر پاکستان میں پیدا نہیں ہوا ۔
اگرچہ میرے پچھلے کالم کے جواب میں کچھ دوستوں نے اعتراض کیا ہے کہ بھٹو جیسے لیڈر نے پھر بھی وہی غلطیاں دہرائیں جن کو وہ قومی اسمبلی میں کی گئی اپنی پہلی تقریر میں گنوا رہے تھے۔ جس سول ملٹری بیوروکریسی، جاگیرداروں اور سرمایہ کاروں کو پاکستان کے زوال کا سبب قرار دے رہے تھے آخرکار ان سب کو انہوں نے اپنی پارٹی میں ہی اکٹھا کر لیا تھا ۔
سوال یہ ہے کہ کیوں بلاول آج اپنے نانا کی روایت سے باغی ہورہا ہے۔ کیا بلاول کو اس بات پر طعنے ملنے چاہئیں یا پھر بلاول کو سراہا جانا چاہیے کہ جو غلطیاں اس کے نانا سے ہوئی تھیں وہ ان کو درست کرنے کی کوشش کرے اور اپنے سیاسی سفر میں کوئی نئی غلطیاں کرے جو بھٹو کی طرح کسی دن اس کے زوال کا سبب بنیں اور پھر برسوں بعد کوئی اور بلاول کی غلطیاں درست کرنے کی کوشش کررہا ہو۔ انسان اور معاشرے ایسے ہی ترقی کرتے ہیں۔ 
میری کوشش ہوگی کہ بھٹو کی اہم تقریریں، ان کی خوبیاں اور ان کے اندر موجود تضادات کو کالموں کا موضوع بنائوں۔ سوچ رہا ہوں کہ کالموں کی ایک سیریز اس پر بھی لکھی جائے کہ پاکستان کس نے توڑا یا کیسے ٹوٹا کیونکہ میرے پاس اس وقت تاریخ کے چار اہم لوگوں کا اس پر اپنا اپنا نکتہ نظر موجود ہے۔ ان میں پاکستانیوں کے لیے اہم انکشافات ہوں گے۔
مثلاً بھٹو نے اپنی پہلی تقریر میں یہ وجوہ بیان کی تھیں کہ پاکستان کیسے ٹوٹا تھا۔ پانچ امریکی صدور کے ساتھ کام کرنے والے اہم اہلکار بروس ریڈل نے اپنی نئی کتاب میں کچھ نئے انکشافات کیے ہیں کہ پاکستان کیسے ٹوٹا تھا۔کلدیپ نائر نے اپنی نئی شاندار کتاب میں لکھا کہ پاکستان کیسے ٹوٹا اور ابھی حال ہی میں بھارت کے سابق وزیرخارجہ جسونت سنگھ نے بھی اپنی نئی کتاب میں اسی موضوع کو چھیڑا ہے۔
بھٹو کے علاوہ باقی تین غیرملکی ہیں اور میرے خیال میں ان تینوں نے بڑی حد تک غیرجانبداری سے اپنے قلم کو استعمال کیا ہے۔ اگرچہ کئی لوگ کہیں گے کہ بھٹو نے اپنی پہلی تقریر میں جو وجوہ بیان کی تھیں وہ دراصل اپنے اوپر لگنے والے الزامات سے بچنے کی کوشش تھی۔ ہو سکتا ہے یہ سچ ہولیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ بھٹو نے جو وجوہ بتائی تھیں، انہیں آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم بھٹو کی ان تقریروں کو پڑھتے ہوئے مجھے بلاول کے اس ٹویٹ نے مجبور کر دیا ہے کہ میں اس کی بات بھی سمجھنے کی کوشش کروں۔ بلاول نے کرسمس ڈے پر ٹویٹ کیا کہ اس کی خواہش ہے وہ اپنی زندگی میں کسی عیسائی کو پاکستان کا وزیراعظم بنتا دیکھے۔
میرا بلاول پر اتنا اعتراض ہے کہ اسے صرف عیسائیوں کی بات نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اس ملک میں دیگر اہم اقلیتیں بھی رہتی ہیں جن میں ہندو اور سکھ شامل ہیں۔ جب آپ صرف عیسائی بھائیوں کی بات کریں گے تو پھر آپ ہندوئوں اور سکھوں اور دیگر کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ وہ اس ملک سے اتنے وفادار نہیں جتنا ہم عیسائیوں کو سمجھتے ہیں۔ یہ ہندوئوں اور سکھوں کے لیے کوئی اچھا احساس نہیں ہو گا۔ اس کا اگر یہ جواز دیا جائے کہ پاکستان بننے پر ہمارے ہندوئوں اور سکھوں کے ساتھ فسادات ہوئے تھے تو پھر تاریخی طور پر عیسائی دنیا سے بھی ہم نے جنگیں لڑی ہیں اور جارج بش کے ان الفاظ پر بہت شور مچا تھا کہ صلیبی جنگوں کا دور لوٹ رہا ہے۔ جس طرح ہم اپنے پاکستانی عیسائیوں کو دنیا بھر کے دیگر ممالک کی پالیسیوں یا مسلمانوں سے دشمنی کا ذمہ دار قرار نہیں دے سکتے اسی طرح ہم ہندوئوں اور سکھوں کو بھی بھارت کی پالیسی کا ذمہ دار نہیں سمجھ سکتے۔ وہ سب پاکستانی ہیں اور سب کا حق بنتا ہے کہ اگر عوام چاہیں تو وہ وزیراعظم ، صدر بن سکتے ہیں۔
سوال یہ ہے بھٹو صاحب جانتے تھے کہ انسانی تاریخ میں کوئی ریاست مذہب کی بنیاد پر ترقی نہیں کر سکتی اس لیے بیسویں صدی میں جمہوریت، لبرل، سیکولرازم اور برداشت کا نعرہ لگانے والی حکومتیں اور معاشرے وجود میں آئے۔ یورپ نے پہلے سبق سیکھ لیا تھا جب پادریوں نے ریاست پر قبضہ جمالیا تھا اور بادشاہ تک ان کے سامنے بے بس تھے۔ یورپ آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے گیا۔ آج بھی یورپ اپنے اس دور کو Dark Agesکے نام سے یاد کرتا ہے۔ یورپ نے کلیسا کے کنٹرول سے نکلنے کے لیے بے شمار قربانیاں دیں، ظلم و ستم سہے، آخر اٹلی کے میدانوں سے شروع ہونے والی علم کی نشاۃ ثانیہ کی تحریک نے یورپ میں علم کی کرنیں بکھیرنا شروع کیں تو دھیرے دھیرے چرچ کا کنٹرول کم ہوا۔ سیکولرازم اور لبرل ازم کا مطلب ہرگز یہ نہیں تھا کوئی مسجد، چرچ یا مندر نہیں جا سکتا یاپھر ایمان رکھنے والوں کو وہاں سے نکال دیا گیا یا مسجدوں پر تالے ڈالے دیے گئے۔ انہوں نے اتنا کہا تھا کہ کسی بھی معاشرے میں ہر قسم کی سوچ کے لوگ ہوتے ہیں۔ ان سب کو ایک دوسرے کے عقائد اور خدائوں کا احترام کرنا چاہیے۔ ریاست کو اپنے شہریوں کے مذہب سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ یہ بات بہت عرصے بعد قائداعظم نے کہی تھی کہ ریاست کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوگی کہ کون مسجد جاتا ہے اور کون مندر۔ قائداعظم یورپ میں پڑھے تھے لہٰذا وہ یہ بات سمجھتے تھے کہ کوئی بھی ریاست صرف ایک مذہب کی بنیاد اور اس کو وجہ بناتے ہوئے امتیازی قوانین پر نہیں چل سکے گی۔ 
بھٹو جیسا پڑھا لکھا لیڈر جانتے بوجھتے اس ٹریپ میں آگیا۔ بھٹو نے ریاست کو یہ حق دے دیا کہ وہ فیصلہ کرے کہ کون مسلمان ہے اور کون نہیں اور ایک اچھے مسلمان کی کیا خوبیاں ہونی چاہئیں۔ آئین میں کچھ ایسی شرائط ڈال دی گئی کہ اس کے کچھ عرصے بعد شہریوں میں اس بات پر بحث شروع ہوئی کہ کون مسلمان ہے اور کون کافر ۔ پہلے یہ محض بحث رہی اور اگلے مرحلے میں فرقہ وارانہ فسادات میں تبدیل ہو گئی جس کے نتیجے میں ریاست کمزور سے کمزور تر ہوتی گئی۔ آج تک کوئی نہیں سمجھ سکا کہ مسلمان اکثریت والے ملک میں مسلمانوں کو کیوں ضرورت پڑگئی تھی کہ انہیں ایک سپاہی ڈنڈا لے کر روزانہ نماز پڑھائے یا پھر انہیں اسلام کے بارے میں وہ بات بتائے جو وہ نہیں جانتے۔ اس کے نتیجے میں پورا پاکستان اس کام پر لگ گیا ہے کہ دوسرے کو اچھا مسلمان کیسے بنایا جائے۔ مسلمان کے علاوہ کوئی صدر یا وزیراعظم نہیں ہوسکتا تھا۔ ایک طرف آئین میں لکھ دیاگیا کہ پاکستان کے کسی شہری کے ساتھ ( اس میں کسی ہندو، سکھ یاعیسائی کا ذکر نہیں ہے) کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا اور ساتھ ہی دوسرے سیکشن میں اپنے انہی شہریوں کے خلاف امتیازی قوانین کی شقیں ڈالی گئیں۔ جب ہمارا آئین ہی منافقت کی بنیاد پر بنایا گیا تھا تو پھر اس ملک کا وہی حشر ہونا تھا جو آج ہورہا ہے اور جس کا رونا بلاول بھٹو رو رہا ہے۔ طالبان کو الزام دینے سے پہلے ہمیں 1973ء کا آئین بنانے والوں کو بھی دیکھنا ہو گا جنہوں نے اس آئین میں قانونی طور پر سب کو پابند کر دیا تھا کہ اس ملک میں اسلامی قوانین کے مطابق زندگیاں بسر کرنے کے لیے قوانین بنیں گے اور ان کے منافی کچھ نہیں ہوگا۔ طالبان بھی تو وہی کر رہے ہیں کہ پورا اسلام نافذ کرو چاہے اس کے لیے چالیس ہزار لوگوں کو کیوں نہ مارنا پڑے۔ اس آئین کی وجہ سے پاکستان میں شدت پسندی پھیلی، ایک دوسرے کو کافر قرار دینے کا رواج زور پکڑ گیا، اقلیتوں کے ساتھ زیادتی کو قانونی شکل دی گئی اور ہم روتے ہیں کہ پاکستان دہشت گردوں کے ہاتھ چڑھ گیا۔ 
بھٹو صاحب کی اس پارلیمنٹ میں موجود چند مذہبی پارٹیوں کو خوش کرنے کی سزا یہ معاشرہ بھگت رہا ہے اور جب تک وہ غلطیاں دور نہیں ہوں گی، یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے گا۔
چلیں اچھا ہوا بلاول کو اپنے نانا کی کرسی پر بیٹھتے ہوئے یہ اہم بات سمجھ آگئی ہے جو بات بھٹو کو اچھی طرح پتہ تھی کہ وہ غلط کر رہے تھے لیکن پھر بھی دوسرے سیاستدانوں کی طرح مصلحتوں کے سامنے جھک گئے تھے !! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved