بھارت سمیت تمام ممالک سے برابری کی
سطح پر تعلقات چاہتے ہیں... نوازشریف
وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے کہا ہے کہ ''بھارت سمیت تمام ممالک سے برابری کی سطح پر خوشگوار تعلقات چاہتے ہیں‘‘ البتہ ہم جن ممالک سے برابری کی سطح سے بلند ہیں‘ انہیں ہمارے ساتھ خود اسی سطح پر تعلقات قائم کرنا چاہئیں جنہیں ہم قبول کر لیں گے کہ ہم دوسروں کو رعایت دینے میں یقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''دہشت گردی کا خاتمہ‘ معیشت کی بحالی‘ توانائی بحران پر قابو‘ امداد کی بجائے تجارت کا ایجنڈا ہے‘‘ اب یہ ایجنڈے کی مرضی پر منحصر ہے کہ یہ پورا ہوتا ہے یا نہیں کیونکہ ہمارا کام صرف ایجنڈا بنانا تھا جو ہم نے بنا کر دکھا دیا ہے؛ حالانکہ سب لوگ یہی اعتراض کر رہے تھے کہ ہم نے چھ ماہ میں کچھ بھی کر کے نہیں دیا اور یہ ایجنڈا دیکھ کر ان کی آنکھیں کھل گئی ہوں گی جبکہ ان مسائل کو دیکھ کر ہماری بھی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی تھیں کہ یہ عام انتخابات سے پہلے ہمیں کیوں نظر نہیں آئے جنہیں حل کرنے کے بلند بانگ دعوے کیے گئے تھے لیکن ہم نے بھی شکست قبول نہیں کی اور ایجنڈا بنا کر دکھا دیا ہے‘ ہیں جی؟ آپ اگلے روز اسلام آباد میں دفتر خارجہ میں خطاب کر رہے تھے۔
جمہوریت کو خطرہ ہوا تو انکل نوازشریف
کا ساتھ دیں گے... بلاول بھٹو زرداری
پاکستان پیپلز پارٹی کے سرپرست اعلیٰ بلاول بھٹو زرداری نے
کہا ہے کہ ''جمہوریت کو خطرہ ہوا تو انکل نوازشریف کا ساتھ دیں گے‘‘ جس طرح آج کل وہ ہمارا ساتھ دے رہے ہیں جو اگرچہ درپردہ ہے اور اس ڈیل کا نتیجہ ہے جو پاپا اور ان کے درمیان ہو چکی ہے اور رفتہ رفتہ جس پر عملدرآمد بھی ہو رہا ہے لیکن پھر بھی خطرات ضرور سر پر منڈلا رہے ہیں کیونکہ مقدمات بھی آہستہ آہستہ کھولے جا رہے ہیں؛ حالانکہ انہیں اچھی طرح سے معلوم ہے کہ انتخابات پر کتنا زیادہ خرچ آتا ہے اور یہ خرچہ کسی طرح پورا بھی کرنا ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں ملکی مفاد کے لیے بیرون ملک اثاثے بھی بنانا ہوتے ہیں اور مجبوراً وہاں بینک اکائونٹ بھی رکھنا ہوتے ہیں اور اخلاقاً ان سے مُکرنا بھی ہوتا ہے اور عدالتوں میں ذلیل و خوار بھی ہونا پڑتا ہے کیونکہ جمہوریت کی خاطر اس طرح کی قربانیاں دینا ہی پڑتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''دہشت گردی کا مسئلہ حل کرتے نسلیں گزر جائیں گی‘‘ چنانچہ ہم نے اس کے لیے آئندہ کی جملہ نسلیں وقف کردی ہیں اور ہمشیرگان بھی سیاست میں لا رہے ہیں۔ آپ اگلے روز گڑھی خدا بخش میں خطاب کر رہے تھے۔
عُذرِ لنگ
گیس کی بندش کی وجہ سے یہ شکایت عام ہے کہ گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہو گئے ہیں اور کھانا پکانے کے لیے گیس دستیاب نہیں ہے؛ حالانکہ اس سے بڑی غلط بیانی اور کوئی نہیں ہو سکتی کیونکہ ہم نے خود کئی چولہوں کو ہاتھ لگا کر دیکھا ہے جو ہرگز ٹھنڈے نہیں تھے ا ور جو ٹھنڈے تھے بھی‘ وہ سردی کے موسم کی وجہ سے تھے جو گرمیاں آتے ہی پھر گرم ہو جائیں گے اور جہاں تک کھانا نہ پکنے کا تعلق ہے اور کھانے کو کچھ نہیں ملتا تو آخر ہوٹل اور ریستوران کس مرض کی دوا ہیں؛ تاہم جولوگ ہوٹلوں کا کھانا افورڈ نہیں کر سکتے انہیں روزے رکھنا چاہئیں بلکہ آٹھ پہرے روزے کی تو فضیلت اور ثواب بھی بہت ہے۔ افسوس صد افسوس کہ ان لوگوں کو اپنی عاقبت کی ذرہ بھر بھی فکر نہیں ہے جبکہ ان کے گناہوں میں پہلے ہی کافی اضافہ ہو چکا ہے؛ حالانکہ حکومتی زعماء کی طرح یہ لوگ گناہوں سے بچ بھی سکتے تھے لیکن انہوں نے اس سے بھی کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ نیز جفاکشی اور حب الوطنی کا بھی یہی تقاضا ہے کہ بھوک کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے اور اسے برداشت کیا جائے۔
وقاص بن طارق
ہماری جنم بھومی اور سلیم شہزاد سمیت افضل راجپوت اور عامر سہیل کے شہر بہاول نگر سے نوجوان شاعر وقاص بن طارق کا تازہ کلام موصول ہوا ہے۔ اس کی اپروچ بالکل درست اور بات کہنے کا انداز بھی نیا ہے لیکن اس کے ہاں زبان و بیان کی غلطیاں وافر مقدار میں موجود ہیں کہ متعدد الفاظ کو غلط وزن میں باندھا گیا ہے۔ اسے چاہیے کہ اپنی شاعری چھپوانے سے پہلے کسی صاحب کو دکھا لیا کرے کیونکہ شعر کہتے وقت آپ حُسنِ تخلیق کر رہے ہوتے ہیں جس میں کوئی عیب یا نقص نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے چند اشعار:
گندم کے ہیبت خانوں میں ہم لنگر انداز ہوئے
خون میں شامل حرص کے جنگل والے سب امراض ہوئے
دور فلک وہ رنگ برنگی چہکاروں سے گونج اٹھا
اور زمیں پر پانی حیرت سے محوِ آواز ہوئے
رات عقوبت خانے جاگے زنجیروں کا شور ہوا
دیوار و در وحشت کی اک تھاپ پہ رکھا ساز ہوئے
شہزادے کے تن پر جتنے بھی زخموں کے جگنو تھے
داخل وقتِ عصر میں لے کر سجدہ اور نماز ہوئے
زمان و مکاں سے نمودار ہو
کوئی ساتھ چلنے کو تیار ہو
اٹھائے ہوئے شب کا بارِ گراں
کوئی نیند سے جیسے بیدار ہو
چمکتا ہوا اک گُلِ نغمہ خواں
زبان و بیاں کا مددگار ہو
یہ پنجرہ ذرا کھول کر پوچھنا
کوئی ہے جو اڑنے کو تیار ہو
مرے ساتھ تم ہو‘ مرا کھیت ہو
چمکتا ہوا ایک اوزار ہو
اسیرِ مبتلائے صورتِ احوال کرنا ہے
مقدس ہے‘ اُسے میں نے ابھی پامال کرنا ہے
کھلے زخموں سے آتی باس کی دعوت لیے مجھ کو
ابھی اک جانور کا بڑھ کے استقبال کرنا ہے
وہ خوش ہو کر ترا کل شام جیسے
چراغِ گفتگو آزاد کرنا
زمینوں پر اترنا آدمی کا
طوافِ آب و خاک و باد کرنا
ہماری یاد کی ردّی کو ضائع
ہمارے لوٹنے کے بعد کرنا
آج کا مقطع
ذرے میں صحرا، ظفرؔ، جاگا گہری نیند سے
بادل بن کر چھا گئیں مٹی کی گہرائیاں