تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     29-12-2013

عشائیہ

ماحول کے انسانی افکار، نظریات اور رویوں پرگہرے اثر مرتب ہوتے ہیں ۔اچھی صحبت انسان کے افکارواعمال کی اصلاح میں نمایاں کردار اداکرتی ہے جبکہ بری صحبت میں بیٹھنے والا انسان بتدریج بگڑ جاتا ہے ۔تاریخ عالم میں سب سے بہترین رفاقت اور صحبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی ۔آپ کی صحبت اورتربیت کی وجہ سے بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے والے ان کی جان اور آبرو کے محافظ بن گئے۔شراب کے نشے میں دھت رہنے والے اتنے باشعور ہوئے کے لوگوں کی افکارکی اصلاح کرنے والے بن گئے۔معمولی تنازعات پر باہم دست و گریبان ہونے والے اتنے یکجا ہوئے کہ دنیا کی بڑی طاقتوں پر غالب آگئے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسی صحبت ورفاقت آپ کے صحابہؓ کے بعد کسی کے مقدر میں نہیں آسکتی،لیکن آپؐ کی رحلت کے بعد آپؐ کے علوم کے پاسبان علماء اور اللہ کی یاد میں محو رہنے والے نیکو کار لوگوں کی صحبت اپنی اثر انگیزی اور فوائد کے اعتبار سے دوسری تما م رفاقتوں سے بہتر ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ کہف کی28ویں آیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تلقین فرمائی کہ آپ اپنے نفس کو صبر دیں ان لوگوں کے ساتھ جو صبح و شام اپنے پروردگار کو پکارتے ہیںاور اس کی رضاکے طلب گاررہتے ہیں ۔اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ دین کی شان واضح فرمائی کہ انسانی نفس ان کی رفاقت سے قرار حاصل کرتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے سورہ فاطر کی 28ویں آیت میں واضح فرمایاکہ بے شک اللہ تعالیٰ کے بندوں میں اس سے ڈرنے والے علماء ہیں۔اللہ تعالیٰ کاڈرحکمت اوردانائی کا سر چشمہ ہے جس کے حصول کے لیے ہم سب کی کوشش ہونی چاہیے کہ فرصت کے لمحات کو باعمل علماء کی صحبت میں گزارنے کی کوشش کریں۔مادی کشمکش کے اس دور میں علمی مجالس کی رونق میںبتدریج کمی آتی جا رہی ہے اور فارغ اوقات میں لوگ علماء کی مجالس کی طرف رجوع کرنے کے بجائے سیرو سیاحت کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ان حالات میں اگر کوئی صاحب خیر ایسی مجلس کا اہتمام کرے جس میں دین اور امت کی فلاح کے امور زیر بحث آسکیں تو یقیناً اس کا انعقادواہتمام باعث برکت و سعادت ٹھہرتااوراس مجلس کی حسین یادوں سے تادیر دل کا آنگن جگمگاتا رہتا ہے ۔
دنیا نیوزکے چیف ایڈیٹر میاں عامرمحمود مختلف قسم کے کاروباری اور سماجی معاملات میں مشغول رہنے کے باوجود دینی اور علمی مجالس سے گہرا شغف رکھتے ہیں۔حال ہی میں ساؤتھ افریقہ سے معروف عالم دین ڈاکٹر سلمان ندوی تشریف لائے تو انہوں نے ان کے اعزاز میں ایک پرتکلف عشائیے کا اہتمام کیاجس میں لاہور کے نمایاں اہل علم شریک ہوئے ۔ان میں حافظ سعید،حافظ عاکف سعید، لیاقت بلوچ، مولانا فضل الرحیم اشرفی، مجیب الرحمن شامی،سجاد میر، الطاف قریشی، سلمان غنی صاحب اور راقم الحروف شامل تھے ۔ میاںعامر صاحب نے تقریب میں شریک ہونے والے تما م علماء کا خندہ پیشانی سے استقبال کیا ۔ تقریب کے آغاز میں تمام مہمانوںکا ڈاکٹرسلما ن ندوی صاحب سے تعارف ہوا اور تھوڑی دیر تک موسم اور معاشرے کے عمومی معاملات پرگفتگو کرنے کے بعد حاضرین مجلس نے ڈاکٹر سلمان ندوی صاحب سے استدعاکی کہ وہ اپنے مشاہدات کی روشنی میں اُمت کو درپیش مسائل اور ان کے حل کے بارے میں رہنمائی فرمائیں ۔ڈاکٹر سلمان ندوی نے اس موقع پر بعض انتہائی اہم امور کی طرف توجہ مبذول کروائی جن میں سے بیشترسے حاضرین مجلس پہلے ہی آگاہ تھے لیکن یاد دہانی کی ضرورت ہرانسان کو ہوتی اور رہتی ہے؛چنانچہ اس مجلس کی وجہ سے وہ تمام اہم امور ہمارے سامنے نمایاں ہوکرآگئے۔
ڈاکٹر سلمان ندوی نے جوگفتگو فرمائی اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ امت مسلمہ کو دورحاضر میں جتنے بھی مسائل درپیش ہیں اس کی دو وجوہ ہیں ۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ اُمت مسلمہ کے تمام لیڈر اس وقت کفار سے مرعوبیت کا شکار ہو کر اُمت کے مفادات کا تحفظ کرنے کے بجائے کفارکے مفادات کا تحفظ کرنے میں مشغول ہیں۔انہوں نے اس موقع پر یہ بھی اضافہ کیا کہ اس طرح کا وقت اُمت کی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی نہیں آیا۔ آج سے پہلے جب بھی کفار کی یلغار ہو ئی اُمت کا ایک حصہ کفارکے سامنے پورے وقاراوراستقامت سے کھڑارہا۔دوسری وجہ یہ کہ اُمت مسلمہ اس وقت اس حد تک احساس کمتری کاشکار ہے کہ اپنے عقائد اوررسم ورواج پرفخر کرنے کے بجائے کفار کی نقالی کرنے میں مصروف ہے۔آپ نے اس موقع پرگزشتہ سال ہونے والے دورہ قطرکاذکرکیا کہ وہ جب قطر کے ہوائی اڈے پر اترے تو سب سے پہلے ان کی نظر جس چیزپر پڑی وہ کرسمس ٹری تھا۔انہوں نے کہا کہ مسلمان توکرسمس بڑے جوش وخروش سے مناتے ہیں لیکن غیر مسلم کبھی مسلمانوں کے تہواروں میں اس انداز میں شامل نہیں ہوئے۔
ڈاکٹر سلمان ندوی نے پاکستان کی حالت زار پر بھی گہرے رنج و غم کا اظہارکیا۔انہوں نے کہا کہ جب پاکستان بنایا گیا تھا توایک اسلامی مملکت کے قیام کے لیے مسلمانانِ برصغیر نے زبر دست قربانیاں دی تھیں لیکن ان قربانیوں کے باوجود حالات کے جبر کی وجہ سے پاکستان ایک اسلامی مملکت کی شکل اختیارنہیںکر سکا۔انہوں نے کہا کہ اس کی بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ علماء عوام کی قیادت کے لیے میدانِ عمل میں موجود نہیں ہیںاور یہ فطرت کا اصول ہے کہ جب خلا پیدا ہوتا ہے توکوئی نہ کوئی لیڈر یا طاقت اس خلا کوپرکرنے کی کوشش ضرور کرتی ہے اور موجودہ حالات میں اس خلا کو غیرمذہبی لوگ پرکر رہے ہیں۔اگر علماء حقیقت میں پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانا چاہتے ہیں تو ان کو عوام کی بھاگ دوڑ سنبھالنے کے لیے خود میدان عمل میں اترنا چاہیے۔انہوں نے اس موقع پر یہ بھی کہا کہ اسلامی ریاست کے قیام کا منطقی نتیجہ ایک اسلامی معاشرے کے قیام کی شکل میں نکلتاہے۔اس وقت سامراج کی اسلام دشمنی کی وجہ سے چونکہ اسلامی حکومت کا قیام مشکل ہو چکا ہے اس لیے علماء کو اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے محنت کرنی چاہیے۔اگر منکرات سے پاک معاشرہ معرضِ وجود میں آجائے تو اس اسلامی معاشرے کی برکت کی وجہ سے اسلامی حکومت کے قیام کے امکانات بھی پیدا ہو جائیں گے ۔ان کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ اسلامی معاشرے کا قیام اسلامی ریاست کے مقابلے میںایک نسبتاً آسان کام ہے اور اس کے لیے قوت نافذہ کا ہونا ضروری نہیں۔اگر صرف دعوت و تبلیغ کے عمل کو بھی خلوص سے جاری رکھا جائے تو معاشرے کواسلام کے سانچے میں ڈھالا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے اس موقع پر میڈیا کے عمومی کردارکو بھی تنقیدکا نشانہ بنایا کہ معاشرے میں منکرات کے فروغ میں میڈیا نے نمایاں کردارادا کیا ہے۔انہوں نے اس موقع پر دورحاضر میں فرقہ واریت کی تاریخ پر بھی روشنی ڈالی اور یہ بتلایا کہ جب بھی سامراج اُمت کی اجتماعیت کے مقابلے میںبے بس ہو جاتا ہے تو وہ مسلمانوں میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دے کر اپنے مقاصد پورے کرتا ہے ۔
ڈاکٹر سلمان ندوی کی پر خلوص گفتگو سے حاضرین مجلس مستفید ہوئے۔ڈاکٹر صاحب کے بیان کردہ مضمون سے تقریباً تمام حاضرین متفق تھے؛تاہم اسلامی ریاست کے قیام کے لیے کی جانے والی گفتگوکے بعض مندرجات پر برادرم لیاقت بلوچ،حافظ عاکف سعید اور راقم الحروف کو کچھ تحفظات تھے۔اس موقع پر برادرم لیاقت بلوچ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ لو!حافظ سعید صاحب کو جمہوریت کے ایک اورمخالف میسرآگئے ۔
ڈاکٹر سلمان ندوی کی گفتگو کے اہتمام پر حاضرین مجلس کے لیے میاں صاحب نے پر تکلف کھانے کا اہتمام کیا تھاجس کے دوران شرکائے مجلس باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کرتے رہے ۔ سویٹ ڈش اور سبز چائے نوش کرنے بعد تما م حاضرین نے ڈاکٹر سلمان ندوی سے معانقہ اور مصافحہ کیا ۔میاں صاحب حاضرین کو الوداع کہنے کے لیے باہر تک تشریف لائے اور یوںیہ تاریخی اور یادگار نشست اختتام کو پہنچی ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved