تحریر : طاہر سرور میر تاریخ اشاعت     30-12-2013

بلاول اورڈب کھڑبے تجزیہ نگار

پیپلز پارٹی کے جواں سال چیئر مین بلاول بھٹو زرداری والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی پر ایک بار پھر دھاڑے ہیں۔بظاہر غیر جانبداردکھائی دینے والے مگر اندرونی طورپر ''ڈھب کھڑبے‘‘ تجزیہ نگاروں نے بلاول بھٹو کی طرف سے پنجابی اسٹیبلشمنٹ اور طالبان کے خلاف جہاد کرنے کے اعلان کا مذاق اڑایا ہے۔اہل ِزبان بہن بھائی اگر ''ڈب کھڑبے‘‘ کا مطلب سمجھنا چاہتے ہیں تو ذہن میں کوئی چتکبرا جانور لائیں جس کا کوئی ایک رنگ نہیں ہوتا اورداغ دھبے ٹیڑھی میڑھی لکیروں پر مشتمل کھال اس کا پیکر اورپیراہن ہوتاہے۔ ہمارے ہاں سیاست اورصحافت میں ایسے ڈھب کھڑبے وافر مقدار میں موجود ہیںجو ایک عرصہ سے مخصوص رجعت پسندانہ نظریات پھیلاکر معاشرے میں نظریاتی گھٹن بڑھا رہے ہیں۔ یہ ڈب کھڑبے اوپر سے بڑے سخت دکھائی دیتے ہیںلیکن اندر سے نرم ہوتے ہیں۔ ان میں بعض کلاکار‘ محکمہ سیاسی موسمیات کی پیشین گوئیوں کے مطابق نظریات اور دانشوری آرڈر پر مال تیار کرنے کے بھی بادشاہ ہوتے ہیں ۔حکومتوں کے بدلتے ہی وہ پرانے مال کی ''کلیئرنس سیل ‘‘لگا کر نیا مال تیار کرلیتے ہیں۔ یہ کہنہ مشق‘ ریڈی میڈ دانشوری اورتجزیہ نگاری کے ہول سیل ڈپو کے ساتھ ساتھ پرچون کی ہٹی (دکان) بھی چلارہے ہوتے ہیں۔ گلی محلے کی طرز پر سیاسی اورصحافتی منیاری سٹوروں پر بیٹھے دانشوروں کی بلاول بھٹو اوران کے والد کی آصف علی زرداری کی سیاست کے بارے میں ان کی ''کریانہ اینڈ مرچنٹ‘‘ تشریح اورتعبیر بڑی عامیانہ اورسستی دکھائی دی ۔ 
بعض پیٹی بندوں نے بلاول بھٹو کی تقریر کا موازنہ ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو سے کراتے ہوئے اس جواں سال کو نیچا دکھانے کی کوشش کی ہے۔گویا بلاول کو نیچا دکھانے کے لئے ان کے ہاں اپنا کوئی سیاسی پہلوان یا سورما نہیں ہے۔ اپنے خیالات کے اظہار کے لئے شدتِ جذبات اورولولہ کی بابت فریق دوم کی بالغ اورنابالغ جملہ صفوں میں براہ راست ''ٹھنڈ پروگرام‘‘ ہی دیکھا جاسکتا ہے۔مخالفین کے ہاں تو بلاول سے بڑوں کو بھی ڈھنگ سے بات کرنا نہیں آتی۔رہن اورگروی زدہ ذہنوں نے اعتراض کیاکہ لندن کی درسگا ہوں سے تعلیم یافتہ بلاول اپنے خاندانی اندازِ سیاست سے آزاد نہیں ہوسکا۔ان کلاکاروں کے نزدیک لندن کی درس گاہوں سے تعلیم حاصل کرنا بھی ایک عیب اورعلت ہے۔ مذکورہ صحافتی شاہ دولوں اور شارٹ میموری سرکٹوںکی خدمت میں عرض ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح اورحضرت علامہ اقبال ؒبھی لند ن کی درس گاہوں سے فارغ التحصیل تھے۔ایک نے پاکستان کا خواب دیکھا اوردوسرے نے خوا ب کو شرمندہ تعبیر کیا۔ذوالفقار علی بھٹو ، محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اوربلاول بھٹو کا لندن کی درس گاہوں سے تعلیم یافتہ ہونا ہمارے عظیم قائدین کی پیروی کرنا ہے جس پر ہمیں فخر ہے۔یہ اپنے اپنے خاندان کی ترجیح اورتربیت ہے کہ روشن خیال اورعلم دوست اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم سے روشناس کراتے ہیں اورسیاست کوانڈسٹری سمجھنے والے اپنے بچوں کو دھوکہ دہی کی دیسی تعلیمات کے زیور سے ہی آراستہ کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں وہ علمی ،ادبی اورسیاسی گھرانہ بھی ہے جسے آج کا ''سرسیدخاندان ‘‘کہلانے کا شوق ہے اورحقیقت یہ ہے کہ ان کے تمام بڑے ا ور چھوٹے پنجاب بورڈ آف ایجوکیشن کے شفیق ممتحن کی شفقت سے اس مقام تک پہنچے ہیں۔
میرے کئی دوستوں کو بلاول کا جوش جعلی اورمصنوعی دکھائی دیا۔بلاول کے منہ سے بھٹو کی پھانسی اوربے نظیر بھٹو کی شہادت کا ذکر جیالوں کو جذباتی کرنے کی ترکیب اورتدبیر لگیں۔جس طرح دنیا میں بسنے والے اربوں انسانوں کے لئے ان کے ماں باپ اہم ہوتے ہیں ۔اسی طرح بلاول کے لئے بھی اس کی ماں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اور آصف علی زرداری ہیں ۔بلاول کے نانا بھٹو کا عدالتی قتل کیاگیا،دوحقیقی ماموں بھی قتل کئے گئے ،اس کی والدہ بے نظیر بھٹو جو دومرتبہ عوام کے ووٹوں سے ملک کی وزیر اعظم منتخب ہوئی تھیں انہیں بھی سرعام قتل کردیا گیا۔کیا اپنے بزرگوں کے قتل اورشہادت کا ذکرکرتے ہوئے بلاول کو ان پرچون فروش دانشوروں سے کوئی سنسر سرٹیفکیٹ چاہیے؟ اوئے بھائی لوگو!یہ سب کسی فلم میں نہیں ہوا جسے بلاول فراموش کردے ۔اس کے نانا، ماں اورماموں شہید ہوئے ہیں اس کے جذبوںکو جعلی اورمصنوعی قرار دینا اس کی نہیں انسانی رشتوں کی توہین ہے۔جن پیٹی بندوں نے بلاول کو نازواندام کا پلابڑھا کہاہے وہ بھی اپنا مذاق اڑا رہے ہیں ۔کیونکہ سیاست اورصحافت کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ہر بچے اوربڑے کو وہ مناظر یاد ہیں جب بے نظیر بھٹو بلاول کو گود میں اٹھائے اپنے شوہر کی ملاقاتیں کرنے پاکستان کی جیلوں میں جایاکرتی تھیں۔سیاسی تن آساںاحباب جو معاہدے کرکے جیلوں سے محلوں میں چلے جاتے ہیں ان کے حواریوں کو خاموشی بھی فغاں جیسی سنائی دیتی ہے۔غالب نے ایسے کاری گروں کے لئے کہاتھاکہ ؎
تم وہ نازک کہ خموشی کو فغاں کہتے ہو
ہم وہ عاجز کہ تغافل بھی ستم ہے ہم کو 
مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماوں نے بلاول بھٹو کو کنفیوژ بچہ قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ ابھی ان کی سیاسی انٹرن شپ شروع ہوئی ہے لیکن بہتر ہوتا کہ انہیں سیاست میںلانے سے پہلے آداب سکھائے جاتے۔ پرانے زمانے میں نوابز ادوں کو ادب وآداب سکھانے کے لئے ''اس بازار میں‘‘ میں بھیجا جاتاتھا۔ بازارِ حسن تو اب اجڑ چکے، آداب سکھانے کے یہ ادارے جو سطح زمین سے بلند ہوتے تھے اورانہیں کوٹھا کہاجاتاتھا۔یہ ادارے تو ناپید ہیں البتہ بعض علمی اور ادبی ''کوٹھے ‘‘ بھاری معاوضوں کے عوض ''زیر تعمیر‘‘ حکمرانوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے فرائض اب بھی سرانجام دے رہے ہیں۔ سیاسی رہنمائوںنے آصف زرداری کومشورہ دیا ہے کہ بلاول کا سیاسی کوچ تبدیل کیاجائے۔ان سیاسی سنیاسی بابوں نے یہ نہیں بتایاکہ بلاول کو کس استاد یا پنڈت سے سیاست کے رموزسیکھنے چاہئیں۔اس آفر سے یوں لگتا ہے کہ بعض اساتذہ ِفن سیاست سکھانے کی اپنی کسی آرٹس اکیڈمی کا حوالہ دے رہے ہیں۔ 
جہاں نو آموزوں کے لئے ''سیاسی تھتکار‘‘ (کتھک رقص کا ابتدائی درس ) دینے کا انتظام موجود ہے۔ایسے معلم اوراساتذہ مخلوط تعلیم کے خلاف ہوتے ہیں اوراپنے ہاں مرد اورخواتین کی الگ ،الگ کلاسز کا اجرا کئے ہوتے ہیں ۔کمپنی کی مشہوری کے لئے اپنے ہاں( خواتین کے لئے پردہ کا الگ انتظام ہے) کا بورڈ بھی آویزاں رکھتے ہیں۔ اس بابت میں نے چند روز پہلے'' فٹ پاتھ‘‘ میں لکھاتھاکہ ہماری سیاست میں حکمران گھرانوںکے لئے یہ سہولت موجود ہے کہ انہیں دائیں اوربائیں بازو سمیت فری مارکیٹ اکانومی کا'' جدید سیاسی سلیبس‘‘ پڑھانے کے مستند اساتذہ اور''ایجو کیٹر ز ‘‘ دستیاب ہیں۔پہلے پہل سیاست میں دائیں اوربائیں بازو کے نظریات کے حامل سیاستدانوں اوراہل ِصحافت میں واضح تفریق تھی،مگر سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد سرمایہ دارانہ نظام کے معتقدین کے روپ ''تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے‘‘ والا معاملہ ہوگیا۔
بلاول کی تقریر میں اردو کی غلطیوں کی نشاندہی کرنے والے بعض ''بابائے اردو‘‘نے ان کے انگریزی لب ولہجے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایاہے۔ان بقراطوں کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ بابائے قوم محمد علی جناح ؒ انگریزی میں تقریر کیاکرتے تھے ۔اس زمانے میں جب مسلمان انگریز اورانگریزی زبان سے شدید نفرت کرتے تھے ۔جناح ؒ انگریزی میں تقریر کرتے اگرچہ جلسوں میں قائد کے بعض ساتھی ان کی انگریزی تقریر کا براہ راست اردوترجمہ کرنے کے لئے ساتھ موجود ہوتے تھے مگر نعرۂ تکبیر کے جواب میں اللہ اکبر کی صدا بلند کرنے کے لئے کسی ترجمے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔اسی طرح پاکستان زندہ باد کا نعر ہ بھی اردوترجمے سے پہلے فضائوں میں بلند ہوتاتھالہٰذا کسبیوں کا یہ اعتراض بھی کوڑے دان میں پھینکا جاتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved