آج کا پاکستان پہلے سے زیادہ
جمہوری ہے...نواز شریف
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''آج کا پاکستان پہلے سے زیادہ جمہوری ہے‘‘ کیونکہ سیاسی جماعتوں میں انتخابات جیسی بدعت کا نام و نشان نہیں ہے‘ وزیر اعظم کسی سے مشورہ کرنے کا پابند نہیں اور پارٹی میں سارا کام نامزدگیوں کے ذریعے ہی چلتا ہے ۔چٹوں اور پرچیوں ہی کو کام میں لایا جاتا ہے۔حکومتی عہدوں پر زیادہ سے زیادہ عزیز و اقارب تعینات کیے جاتے ہیں اور بیرونِ ملک اثاثوں میں والہانہ اضافہ کیا جاتا ہے کیونکہ یہی پاکستانی جمہوریت ہے کہ ہم غیر ملکی جمہوریت میں یقین نہیں رکھتے اور مقامی جمہوریت ہی ہماری اصل ترجیح چلی آ رہی ہے۔ آپ اگلے روز دورہ کراچی کے دوران بحریہ کی ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
ہر ضلع میں ماڈل بازار قائم کیے
جائیں گے...شہباز شریف
وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''ہر ضلع میں ماڈل بازار قائم کیے جائیں گے‘‘ جیسا کہ اگلے روز ساہیوال میں صوبائی وزیر خوراک بلال یٰسین کے دورہ کے موقع پر قائم کیا گیا تھا اور جس سے عوام نے سستی اشیاء خرید کر بھر پور فائدہ اُٹھایا اور اگر وہ موصوف کے جانے کے بعد قائم ہوتا تو مزید فائدہ اُٹھا سکتے تھے چنانچہ اب یہ ضروری ہو گیا ہے کہ ہر ضلع میں ماڈل بازار قائم کرنے کے موقع پر وزیر موصوف کا دورہ ضرور کروایا جائے تاکہ ایسے ماڈل بازاروں کے قیام کو یقینی بنایا جا سکے۔انہوں نے کہا کہ ''ہمیں عوام کا مفاد سب سے زیادہ عزیز ہے‘‘اگرچہ عوام خود اس بات کو تسلیم نہیں کرتے لیکن ہمیں اس کی کوئی پروا نہیں اور ہم آئندہ بھی اسے عزیز ہی رکھیں گے۔انہوں نے کہا کہ ''ہم نے صوبے میں اشیائے ضروریہ کو عام آدمی کی پہنچ میں رکھنے کا تہیہ کر رکھا ہے‘‘ اور ‘جن دیگر باتوں کا تہیہ ہم نے کر رکھا ہے‘ اس تہیّے کو بھی اسی میں شامل سمجھا جائے اگرچہ ان کی فہرست پہلے بھی بہت طویل ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں کارکنوں سے ویڈیو لنک پر خطاب کر رہے تھے۔
کشمیری عوام کے لیے پارٹی کے
دروازے کھلے رکھیں ...زرداری
سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ'' غریب کشمیری عوام کے لیے پارٹی کے دروازے ہر وقت کُھلے رکھیں‘‘اگرچہ ہم نے اپنے دور میں عوام کے لیے یہ دروازے بند ہی رکھے اور صرف اپنے لیے ہی چوڑ چوپٹ کھلے رکھے لیکن کم بختوں کا حافظہ اس قدر تیز تھا کہ انہوں نے یہ بات فراموش نہیں کی اور گزشتہ عام انتخابات میں خود اپنے دروازے ہم پر بند کر دیے بلکہ اجلاسوں کے دوران پارٹی لیڈروں پر حملہ آور ہونے سے بھی نہیں چُوکے۔ جبکہ ہمارے صوبائی صدر میاں منظور احمد وٹو کو توان کے نرغے سے کئی بار جان بچا کر بھاگنا پڑا۔ کیسا زمانہ آ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''کشمیریوں کی سیاسی‘ اخلاقی اور سفارتی امداد جاری رکھیں گے‘‘ جس میں اخلاقی امداد کا حصہ زیادہ ہو گا کیونکہ ہم گزشتہ پانچ برسوں میں اپنا سارا کام اخلاقیات ہی کے زور پر چلاتے رہے ہیں اور خاکسار سمیت جملہ معززین نے معاشی قربانی دینے میں بھی اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا‘ اللہ تعالیٰ اجر دے آمین ! آپ اگلے روز نوڈیرو میں آزاد کشمیر کابینہ کے اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
ن لیگ بحالیٔ جمہوریت میں
کردار ادا کرے...منظور وٹو
پیپلز پارٹی پنجاب کے صوبائی صدر میاں منظور احمد خاں وٹو نے کہا ہے کہ ''ن لیگ بحالی جمہوریت میں کردار ادا کرے‘‘ کیونکہ ہم خود ایسا اس لیے نہیں کر سکے کہ دیگر مفید کاموں میں مصروف تھے۔اور‘یہ بات سب جانتے ہیں کہ ایک وقت میں ایک ہی کام ہو سکتا ہے اور جس میں فائدہ زیادہ ہو‘ کام بھی وہی کرنا چاہیے اور دلیری اور دریا دلی سے کرنا چاہیے تاکہ اس کے نتائج بھی حسب منشا نکل سکیں۔انہوں نے کہا کہ ''پرویز مشرف ہی نہیں‘ تمام فوجی آمروں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے‘‘اور‘ہم نے جو یہ 21توپوں کی سلامی پرویز مشرف کو دی تھی تو اس لیے کہ ہم انہیں شرمندہ کرنا چاہتے تھے کیونکہ ہماری طرح وہ بھی شرمندہ ہونے میں دیر نہیں لگاتے۔ انہوں نے کہا کہ ''پیپلز پارٹی نے اپنے دورِ اقتدار میں آمریت کا راستہ روکنے میں اہم کردار ادا کیا‘‘لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ تو عوام کا راستہ روکنے ہی کی کوشش تھی‘ جبکہ ہم سب ماشاء اللہ اپنے اپنے راستے پر ہی پوری ثابت قدمی کے ساتھ چل رہے تھے۔ آپ اگلے روز پھر لاہور میں معمول کا ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
عمران کی بات مانیں تو دنیا میں
تنہا رہ جائیں گے...پرویز رشید
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا ہے کہ ''عمران کی بات مان جائیں تو دُنیا میں تنہا رہ جائیں گے‘‘ کیونکہ پوری دُنیا پہلے جو ہمارے ساتھ ہے اور جس میں امریکہ‘بھارت‘ افغانستان وغیرہ بطور خاص شامل ہیں جو ہماری تعمیر و ترقی میں حصہ لینے کے لیے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر بے قرار ہیں جبکہ گیس پائپ لائن پر پھڈے کی وجہ سے ایران کے ساتھ بھی تعلقات نہایت خوشگوار ہونے والے ہیں‘وغیرہ وغیرہ۔ انہوں نے کہا کہ ''وزیر اعظم کے اثاثے وقت کے ساتھ بڑھے‘‘کیونکہ وہ دو دفعہ پہلے وزیر اعظم رہ چکے ہیں لہٰذا ان کے اثاثے بڑھنا نہیں تو کیا گھٹنا تھے؟جبکہ ایسے اثاثے آٹو میٹک ہوتے ہیں اور اقتدار کے ساتھ ساتھ خود ہی بڑھتے رہتے ہیں اور سید منور حسن وغیرہ جو ان پر اعتراض لگا رہے ہیں‘انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ان اثاثوں کی وجہ سے اقوام عالم میں ملک کا وقار بے حد بلند ہوا ہے چنانچہ اس کی مزید بلندی کے لیے اس سلسلے میں مزید تگ و دو کی جا رہی ہے تاکہ سند رہے اور کسی اور کے کام نہ آئے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
آج کا مطلع
مرے سامنے صلۂ سفر نہیں آ رہا
کہ رواں ہوں دیر سے اور گھر نہیں آ رہا