تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     31-12-2013

ٹھیک ٹھیک نشانے

تحریک انصاف نشانے بہت ٹھیک لگاتی ہے۔ حالیہ انتخابات میں اسے دھاندلی کی شکایت ہوئی‘ تو عمران خان نے بڑے منفرد انداز میں احتجاج کرتے ہوئے کہا ''دھاندلی بہت ہوئی لیکن ہم انتخابی نتائج قبول کرتے ہیں۔ البتہ دھاندلی کے خلاف جدوجہد جاری رہے گی۔‘‘ دھاندلی خود کوئی چیز نہیں ہوتی۔ اس کے نتیجے میں‘ ایسے لوگ اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں‘ جو حقدار نہیں ہوتے اور جعلی ووٹ ڈال کر ہارنے والوں کو کامیاب کر دیا جاتا ہے۔ ایسا جب بھی ہوتا ہے‘ متاثرہ فریق احتجاج کرتے ہوئے مطالبہ کرتا ہے کہ انتخابات ازسرنو منعقد ہونا چاہئیں اور ضمانت مانگی جاتی ہے کہ کم از کم انتخابی عمل‘ کسی غیرجانبدار ادارے کے کنٹرول میں ہویا ضمانتیں مانگی جاتی ہیں کہ انتخابی عمل کو سارے فریقوں کے لئے قابل قبول بنایا جائے۔ مگر خان صاحب کا انداز نرالا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ انتخابی نتائج ہمیں قبول ہیں لیکن دھاندلی قبول نہیں۔ سیاست کے پرانے کھلاڑی ابھی تک حیرت میں ہیں کہ خان صاحب بقول ان کے دھاندلی کا نشانہ ضرور بنے مگر انتخابی نتائج انہوں نے قبول کر لئے۔ اسے کہتے ہیں ٹھیک ٹھیک نشانہ۔ اس کے بعد دو سرا ٹھیک ٹھیک نشانہ خان صاحب نے پیسکو پر لگایا۔ جہاں تک مجھے یاد ہے‘ باقاعدہ نام لے کر مطالبہ کیا گیا تھا کہ پیسکو ‘ صوبائی حکومت کے سپرد کیا جائے۔متعلقہ وزارت پانی و بجلی کے وزیر خواجہ آصف نے فوری طور پر مطالبہ تسلیم کر لیا اور وزیراعظم بھی مان گئے کہ پیسکو‘ صوبائی حکومت کے حوالے کر دیا جائے۔ بعد میں پارٹی کے ماہرین جمع ہوئے‘ تو سر پکڑ کر بیٹھ گئے کہ ہم نے یہ مطالبہ کیوں منوا لیا؟ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جو درحقیقت وفاقی حکومت کی دیرینہ خواہش کی تکمیل کرتا ہے۔ بجلی کے بلوں کی وصولی ایک پیچیدہ معاملہ رہا ہے۔ جتنی بجلی پاکستان میں چوری ہوتی ہے‘ وہ افریقہ کے کسی ملک میں ہو تو ہو اور کوئی ملک اس معاملے میں ہم سے ٹکر نہیں لے سکتا۔ سرمایہ دار اور بااثر لوگ ‘ بجلی چرانا اپنا حق سمجھتے ہیں اور جب کوئی ادارہ‘ ان سے بل وصول کرنے کی کوشش کرتا ہے‘ تو یہ لوگ اپنی بے عزتی سمجھتے ہیں اوراس افسر یا اہلکار کے دشمن بن جاتے ہیں‘ جو ان سے بل وصول کرنے کا گستاخانہ مطالبہ کر بیٹھے۔جب تک اس افسر یا اہلکار کو سزا نہیں دلوائی جاتی‘ بجلی کی ڈکیتی کرنے والا سرمایہ دار‘ چین سے نہیں بیٹھتا۔ وفاقی حکومت نے بڑے جتن کر کے دیکھ لئے مگر وہ چوروں سے بل وصول کرنے میں ناکام رہی۔ اس سے تنگ آ کر لاہور کے ایک ممتاز سیاستدان نے شریف برادران کو مشورہ دیا کہ وہ بجلی کے بلوں کی وصولی کی ذمہ داری صوبائی حکومتوں کے حوالے کر دیں۔ تجویز کافی معقول تھی۔ اس معاملے پر کافی پیش رفت بھی ہوئی اور کہا گیا کہ وفاقی حکومت کے پاس واجبات وصول کرنے کے لئے مناسب اتھارٹی موجود نہیں ہے۔ بجلی کمپنیوں کو دوسرے اداروں سے مدد مانگنا پڑتی ہے۔ ورنہ براہ راست کوئی محکمہ ان وصولیوں کا ذمہ دار نہیں ہوتا۔ جبکہ 
صوبائی حکومتوں کے پاس مطلوبہ مشینری موجود ہوتی ہے۔ اگر تقسیم کار کمپنیاں بجلی کے بل وصول کرنے میں ناکام رہیں‘ تو پھر پولیس اور محکمہ مال کے ملازمین دستیاب ہوتے ہیں‘ جن کے پاس سرکاری وصولیوں کے اختیارات بھی موجود ہیں ۔ جن میں ذرا سا ردوبدل کر کے‘ صوبائی حکومتوں کو ذمہ دار بنا دیا جائے‘ تو بجلی چوری میں کافی کمی ہو سکتی ہے۔ یہ تجویز صوبوں کو بھی دی گئی۔ مگر سارے صوبوں نے یہ ذمہ داری اٹھانے سے انکار کر دیا۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ چوری ہونے والی بجلی کے پورے بل وصول نہیں ہو سکیں گے۔ وفاقی حکومت اپنے بل کے مطابق قیمت وصول کر لے گی کیونکہ ان کی ذمہ داری صوبے کے پاس ہو گی۔ لیکن صوبائی حکومت کو پورے بل وصول نہیں ہوں گے اور یہ خسارہ اسے اپنے وسائل سے ادا کرنا پڑے گا۔ یہی وجہ تھی کہ جیسے ہی خواجہ آصف اور وزیراعظم کی طرف سے فوری رضامندی کا اعلان ہوا‘ تو خان صاحب پھر سوچنے بیٹھ گئے کہ یہ ہم کیا کر بیٹھے؟ اس طرح تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ نشانہ تو یہ بھی ٹھیک تھا مگر غلط جگہ لگ گیا اور پارٹی کی صوبائی حکومت کو اپنے بچائو کی خاطر مطالبے میں اضافہ کرنا پڑا اور کہا گیا کہ ہم نے بجلی کی تقسیم کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔ ہم تو چاہتے ہیں کہ اس کی پیداوار بھی ہمارے سپرد کی جائے۔ مطالبے کا مطلب یہ تھا کہ پرانے مطالبے سے ہماری جان چھڑائو۔ کیونکہ بجلی کی پیداوار وفاق کے پاس ہے۔ جس کا انفراسٹرکچر پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے۔ اگر بجلی کے تمام پیداواری وسائل صوبوں کو دے دیئے جائیں‘ تو وہ پیداوار اور ترسیل کے کام آسانی سے نہیں کر پائیں گے۔ فرض کریں کہ تربیلا سے بجلی کی سپلائی راولپنڈی کو جاتی ہو‘ تربیلا ڈیم سے تھوڑے ہی فاصلے پر پنجاب میں واقع ایک گرڈ سٹیشن میں خرابی آتی ہے‘ تو صوبہ خیبرپختونخوا کی حکومت وہاں مطلوبہ سروسز کیسے فراہم کرے گی؟ یہ صوبائی حکومت کو بھی یقینا معلوم ہو گا مگر کیا کیا جائے؟ خان صاحب کے نشانے تو ٹھیک ٹھیک لگ جاتے ہیں۔ مگر جب بلا گلے پڑتی ہے‘ تو اس سے جان چھڑانے کے طریقے پارٹی ڈھونڈتی ہے۔ 
اسی طرح خان صاحب نے ڈرون طیاروں کا معاملہ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے ضد لگا دی کہ افغانستان کو پاکستان کے راستے سے ہونے والی وہ تمام سپلائی روک دی جائے‘ جو اتحادی فوجوں کے لئے بھیجی جا رہی ہو۔ نشانہ تو یہ بھی ٹھیک تھالیکن ڈرون حملے روکنا پاکستان کے اختیار میں نہیں۔ فاٹا کے سارے علاقے‘ افغان سرحد سے پانچ سات کلومیٹر کے قریب قریب واقع ہیں۔
خان صاحب فرماتے ہیں کہ ''میں وزیراعظم بنتے ہی ڈرون گرانے کا حکم دے دوں گا۔‘‘ فرض کیا وہ وزیراعظم بن کر ڈرون گرانے کا حکم دیتے ہیں‘ تو وہ کونسا طریقہ ہو گا جس پر عمل کر کے ڈرونز کو گرایا جا سکے؟ ڈرونز کاہر پھیرا پانچ سات منٹ میں مکمل ہو جاتا ہے۔ وہ پاک افغان سرحد کے ذرا پیچھے سے اڑتا ہے۔ 2منٹ کے اندر فاٹا میں کسی نشانے پر فائر کرتا ہے اور اتنے ہی وقت میں واپس چلا جاتا ہے۔ ہمارے پاس وہ کیا طلسم ہے کہ ہم اپنے اڈوں پر موجود جنگی طیاروں کو 5منٹ کے اندر اندر کارروائی کے لئے موقع واردات تک پہنچا سکیں؟ ایسا کرنے کے لئے ہمیں جنگی طیاروں کو 24 گھنٹے چلا کے تیار رکھنا پڑے گا کہ جیسے ہی ڈرون اڑنے کی اطلاع ملے‘ وہ اپنے مشن پر روانہ ہو جائیں اور پھر بھی یقین نہیں ہو سکتا کہ وہ بروقت نشانے پر پہنچ جائیں گے۔ ایسا کرنے کے لئے ہمارے طیاروں کو ہر وقت فاٹا کی فضائوں میں محو پرواز رکھنا پڑے گا۔ نشانہ یہ بھی ٹھیک ٹھاک ہو گا مگر خطرہ ففٹی ففٹی ہو گا۔ یعنی جتنا خطرہ ڈرونز کو ہمارے فضائی حملے سے ہو گا‘ اتنا ہی خطرہ ہمارے جنگی جہازوں کے لئے بھی رہے گا۔ کیونکہ ذرا سی لغزش سے وہ پاک افغان سرحد پار کر گئے‘ تو جوابی کارروائی کا نشانہ بن سکتے ہیں ۔ افغانستان کو جانے والی سپلائی کا روکنا بھی محال ہے۔ ہم افغانستان کے لئے جانے والی سپلائی روک نہیں سکتے اور ایسے کنٹینرز میں نیٹو کے لئے جانے والا سامان لادنا مشکل نہیں۔ چمن کے روٹ پر خان صاحب کا اختیار نہیں۔ اسے روکنے کی ذمہ داری خان صاحب نے اپنی اتحادی پارٹی‘ جماعت اسلامی کے سپرد کر دی ہے۔ تجربے سے پتہ چلا کہ ڈرونز پر بھی نشانہ ٹھیک ٹھیک لگ گیا۔ مجبوراً ڈرون کی مہم سے جان چھڑا کر نیا محاذ کھولنا پڑا اور بہت سوچ بچارکے بعد نیا نشانہ لگانے کے لئے بلاول ہائوس منتخب کیا گیا۔ سب کچھ اچھا بھلا چل رہا تھا کہ تحریک انصاف کی قیادت نے بلاول ہائوس کی حفاظتی دیواریں توڑنے کا اعلان کر دیا۔ نشانہ یہ بھی ٹھیک ٹھیک تھا۔ سندھ ہائی کورٹ نے ٹریفک میں رکاوٹیں ڈالنے والی تنصیبات کو مسمار کرنے کا حکم دے رکھا تھا۔ نشانہ یہ بھی ٹھیک تھا مگر قباحت یہ آن پڑی کہ کوئی قانون کسی نجی گروپ کو عدالتی احکامات کی تعمیل کرانے کا ذمہ دار نہیں بنا سکتا۔ جو بھی شہری یا شہریوں کا گروہ ‘ عدالتی احکامات پر عملدرآمد کرانے کا خواہش مند ہو گا‘ اسے عدالت کے پاس جا کر ہی مجاز فورس کو حکم دلاناپڑے گا۔ یعنی آپریشن بلاول ہائوس پر بھی ٹھیک ٹھیک نشانے لگانے کی تیاری تھی۔ جیالے خود دیوار کے سامنے‘ دیوار بن کر کھڑے ہو گئے۔ خان صاحب نے یہاں بھی ٹھیک ٹھیک نشانے لگا لئے ہوتے کہ ایک اور مشکل آن پڑی۔ عدالتی حکم پر عملدرآمد کے انتظامات کرنا خود عدالت کے اختیار میں ہوتا ہے۔ خان صاحب کے نشانے ٹھیک تو ہوتے ہیں مگر ''ٹھیک ٹھیک‘‘ نہیں ہوتے۔پہلے نشانے کی تلافی کے لئے دوسرا ڈھونڈنا پڑتا ہے اور پھر چل سو چل۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved