تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     31-12-2013

میاں صاحب ، نثار علی خان اور مستقبل قریب کا نقشہ

وہ اپنی عام گفتگو کو دیکھنے میں ایک سادہ سا آدمی لگتا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے لیکن سیاست پر گفتگو شروع کرے تو ایسے ایسے نکات سامنے لاتا ہے کہ خدا کی پناہ۔ اس کے سیاسی تجزیے سادہ مگر عقلمندی سے بھرپور ہوتے ہیں۔ دلیل بالکل عام فہم مگر دانائی سے لبریز۔ پیچیدگی اور الجھائو سے بالکل پاک ۔ بعض اوقات تو خاصے کھردرے اور اشتعال انگیز لہجے میں گفتگو مخاطب کو تائو دلا دیتی ہے لیکن جلد ہی آپ اس کی سچائی کو جان لیتے ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے سے عمران خان کا حامی ہے مگر خدا جانتا ہے کہ اس کی حمایت اور اس پر تنقید کا سکور تقریباً برابر ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس سے محبت اور امید اور چیز ہے اور اس کی غلطیاں اور حماقتیں بالکل دوسری چیز ہیں۔ اسے سیاسی لیڈر سے زیادہ اچھا منتظم سمجھتا ہے اور اس حوالے سے بھی اسے کوئی مافوق الفطرت انسان نہیں سمجھتا ،جس طرح ہمارے ہاں دیگر سیاسی کارکنوں کا رویہ ہے کہ وہ اپنے لیڈر کو کبھی عام انسان سمجھتے ہی نہیں اور ان کی غلطیاں ! اول تو ان کے لیڈر غلطیاں کرتے ہی نہیں،اگر کرتے ہیں تو اس میں سے بھی وسیع تر قومی مفاد کا کوئی ایسا پہلو نکال لیتے ہیں کہ کسی عقلمند آدمی کے خواب و خیال میں بھی نہیں آسکتا۔ فیض ہمارا ،یہ دوست ، ایک نہایت بے رحم سیاسی کارکن ہے۔ انسانی محبت سے برتر لیکن کسی کو معاف نہ کرنے والا۔ کسی سے مراد سیاسی لیڈر شپ ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ جو شخص ہم سے ہمارا وقت ، جذبہ ، امید ، محبت ، عقیدت ، جذبات ، خیالات اور پھر ووٹ لیتاہے اس سے اپنی ان چیزوں کا حساب مانگنا ہمارا حق ہے اور اگر وہ ان میںخیانت کرتا ہے تو اس کا گریبان پکڑنا ہمارا فرض ہے۔ حق اور فرض کے درمیان باہمی توازن کو نظر انداز کرنا یا خراب کرنا ناقابل معافی جرم ہے اور یہ ایسا ظلم ہے جو معاشرے کو برباد کردیتا ہے۔
دو چار دن قبل دوستوں کی محفل میں گفتگو ہورہی تھی اور حسبِ معمول دس پندرہ منٹ کے بعد سیاست پر آگئی۔ موضوعات وہی گھسے پٹے اور پرانے تھے۔ مہنگائی ، لوڈشیڈنگ، بے روزگاری، افراطِ زر، امن وامان کی صورتحال ، دہشت گردی اور خارجہ پالیسی ۔ ہمسایوں کے ساتھ مستقبل کا نقشہ اور اسی قسم کے پرانے موضوعات ۔ شاہ جی فرمانے لگے کہ یہ چودھری نثار علی خان کا کیا قصہ ہے؟ یہ کیا چاہتا ہے؟ میاں صاحب امریکہ کے حق میں بیان جاری کرتے ہیں اور چودھری نثار علی خان امریکہ کی ایسی تیسی کردیتا ہے۔ میاں صاحب ڈرون کے معاملے پر مصالحت آمیزی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور چودھری نثار ڈرون ایشو پر سو فیصد اینٹی امریکہ خیالات کااظہار کرتا ہے۔ اسی طرح دیگر معاملات ہیں۔حکومتی کارکردگی ہے۔کابینہ کی ورکنگ ہے۔ ان سب معاملات پر چودھری نثار علی خان کا نکتہ نظر میاں نواز شریف کے نکتہ نظر سے ایک سو اسی ڈگری پر ہے۔ میاں صاحب کی طبیعت میں ایک مغل بادشاہ پوشیدہ ہے جو اختلاف رائے کو نہ تو پسند کرتا ہے اور نہ برداشت کرتا ہے۔ میاں صاحب یہ سب کچھ کیسے برداشت کررہے ہیں اور وہ یہ مزید کب تک برداشت کریں گے؟ چودھری نثار تو ان کا سب سے پسندیدہ آئوٹ آف فیملی سیاستدان ہے۔ جاوید ہاشمی کے ن لیگ چھوڑنے میں بنیادی کردار خواجہ آصف اور چودھری نثار کا تھا۔ خواجہ آصف نے جاوید ہاشمی کو گالیاں دی تھیں اور چودھری نثار سے جاوید ہاشمی کا شاید پرسنیلٹی کلیش تھا۔ میاں صاحب چودھری نثار کو جتنی لفٹ کرواتے تھے اور جتنی اہمیت دیتے تھے وہ جاوید ہاشمی اپنا حق سمجھتا تھا۔ اپنی قربانیوں کی وجہ سے اور اپنے اخلاص کی وجہ سے ۔ وہ اس میں حق بجانب بھی تھا۔ جب جاوید ہاشمی لیڈر آف دی اپوزپشن بن کر ایک چھوٹی سی سترہ اٹھارہ رکنی اپوزیشن چلارہا تھاتب چودھری نثار مزے کررہا تھا۔ جب جاوید ہاشمی حوالات میں مار کھا رہا تھا تب چودھری نثار علی خان گھر میں آرام کررہا تھا اور جب جاوید ہاشمی جیل بھگت رہا تھا تب چودھری نثار علی خان پمز میں علاج معالجے کے بہانے پناہ گزین تھا۔ ان باتوں کا شاید موجودہ صورتحال سے براہ راست تعلق نہیں ہے مگر بتانا یہ مقصود ہے کہ میاں صاحب کو چودھری نثار علی خان ، جاوید ہاشمی سے ہمیشہ عزیز رہا ہے۔ جب پیپلزپارٹی کی حکومت بنی اور مسلم لیگ ن نے ان کے ساتھ الحاق کرکے حکومت میں حصہ وصول کیا تو چودھری نثار کو سینئر وزیر بنایاگیا۔ جاوید ہاشمی نے اسی صدمے سے وزارت لینے سے انکار کردیا۔ اپوزیشن بھگتائی جاوید ہاشمی نے۔ حوالات میں تشدد برداشت کیا جاوید ہاشمی نے ۔ عمر قید کی سزا پائی جاوید ہاشمی نے اور سینئر وزارت کا حقدار ٹھہرا چودھری نثار علی خان۔ کابینہ میں اسحاق ڈار کے بعد دوسرا طاقتور ترین اور میاں صاحب کے قریب ترین وزیر نثار علی خان ہے۔ دوسرے لفظوں میں خاندانی سیاستدانوں کے بعد پہلا نمبر چودھری نثار علی خان کا ہے۔ اسحاق ڈار تو میاں نوازشریف کے سمدھی ٹھہرے۔ اب چودھری نثار علی خان نے مکمل طور پر میاں نواز کے نظریات اور خیالات سے الٹی لائن اختیار کررکھی ہے۔ یہ کیا معاملہ ہے؟
ہمارا وہی تجزیہ نگار دوست کہنے لگا۔ آپ نے تھانے میں کبھی پولیس کے ملزم کے ساتھ رویے کو دیکھا ہے؟ سب خاموش رہے۔ وہ کہنے لگا مجھے غیب کا علم تو نہیں ہے کہ اصل معاملہ کیا ہے۔ ممکن ہے یہ سب ٹوپی ڈرامہ ہو اور ممکن ہے حالات ویسے ہوں جیسی باتیں کانوں میں پڑرہی ہیں۔ یہاں کوئی تب تک سچ نہیں بولتا جب تک وہ دوسری جماعت میں نہیں چلا جاتا۔خدا معلوم نثار علی خان کا معاملہ حقیقت میں کیا ہے مگر تھانے میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ ایک اے ایس آئی آکر ملزم کو گالیاں دیتا ہے۔ اس کو دو چار تھپڑ رسید کرتا ہے۔ پھر ایک دو سپاہیوں کو بلاکر اس کو چھتر مرواتا ہے اور جاتے ہوئے اسے سپاہیوں کی بیرک میں فرش پر بٹھایا جاتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد ایک ہیڈ کانسٹیبل آتا ہے۔ اس زمین پر بیٹھے ہوئے ملزم سے پوچھتا ہے کہ وہ کہاں کا رہنے والا ہے؟ پھر اس کو بتاتا ہے کہ وہ بھی وہاں کا رہنے والا ہے یا اس کا کوئی عزیز وہاں رہتا ہے۔ پھر وہ ملزم کو عزت سے کرسی پر یا چارپائی پر بٹھائے گا۔ اس کو چائے کا پوچھے گا اور پھر اے ایس آئی کی کمینگیوں اور ظلم و تشدد کا بتاکر کہے گا کہ پیار سے اسے سب کچھ بتا دے تو وہ اسے تشدد سے ، بے عزتی اور ذلت سے بچالے گا۔ وہ ہیڈ کانسٹیبل ظاہر یہی کرتا ہے کہ وہ اس سے اے ایس آئی سے چھپ کر یا بچ بچا کر ملنے آیا ہے مگر حقیقت یہ ہوتی ہے کہ دونوں اندر سے ملے ہوتے ہیں۔ اے ایس آئی تشدد سے اسے خوفزدہ کرتا ہے اور اس خوف کو پیار میں ڈھال کر ہیڈ کانسٹیبل اس سے بات اگلوانے کی کوشش کرتا ہے۔ دونوں اندر سے 
ایک ہوتے ہیں اور باہمی تعاون سے ملی بھگت کرکے یہ ڈرامہ کرتے ہیں۔ ممکن ہے میاں صاحب امریکہ کو اور چودھری نثار عوام کو خوش کررہے ہوں۔ ممکن ہے میاں صاحب اپنی حکومت کا مغرب میں امیج بہتر کرنے کے لیے امریکہ کی باتیں مان رہے ہوں اور چودھری نثار عمران خان کی مقبولیت کیش کروانے کی کوشش کررہا ہو۔ اینٹی امریکہ اورپرو طالبان پاکستانیوں کی ہمدردیاں نثار علی سمیٹ رہے ہوں ادھر اینٹی طالبان اور آپریشن کے حامیوں کی محبت میاں صاحب سمیٹنے کی کوشش کررہے ہوں۔ عین ممکن ہے کہ اس طرح دونوں مل کر پرو امریکہ اور اینٹی امریکہ لابیوں کو راضی کررہے ہوں۔ دونوں ملی بھگت سے پاکستان کے لبرل اور قدامت پسند طبقوں کو بے وقوف بنارہے ہوں۔ دونوں اپنی اپنی چال سے بیک وقت پرو طالبان اور اینٹی طالبان پاکستانیوں کے جذبات سے کھیل رہے ہوں۔
اس کی باتوں میں جان تھی اور دلائل میں وزن تھا۔ معاملات کا تجزیہ خاصا منطقی تھا۔ کافی دیر سے ایک کونے میں بیٹھا ہوا ہمارا ایک باعلم دوست کہنے لگا۔ حضرت آپ کی باتوں میں وزن ہے۔دلائل میں منطقی زور ہے اور عقلی طور پر آپ کی گفتگو خاصی پُراثر اور زور دار ہے لیکن کیا بات ہے کہ اسحاق ڈار اور چودھری نثار میں پچھلے کئی ماہ سے بول چال بند ہے اور کئی مزید لوگ نثار علی خان سے تنگ ہیں ؟ ممکن ہے میاں صاحب صرف کسی بڑے پارٹی ڈینٹ سے بچنے کے لیے چودھری نثار کو برداشت کررہے ہوں۔ آپ میری بات غور سے سنیں۔ یہ معاملات اس طرح زیادہ دیر تک نہیں چل سکتے اور نہ ہی چلیں گے۔ دو تین ماہ کے اندر اس کے علاوہ بھی اور چیزیں سامنے آنے والی ہیں۔ لیکن ایک بات ذہن میں رکھیں ، فی الوقت میاں صاحب کو کوئی سیریس خطرہ کہیں سے نظر نہیں آرہا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved