مجھے یہ جان کر خوش گوار حیرت ہوئی کہ روزنامہ ''دنیا‘‘ کے قارئین کی بڑی تعداد علم وشعور سے آراستہ ہے اور اسے ویب سائٹ پر وزٹ کرنے والوں کی بھی ملک کے اندر اور بیرونِ ملک کثیر تعداد ہے۔ نہ صرف یہ کہ ہمارے قارئینِ کرام کالموں کامطالعہ کرتے ہیں بلکہ ای میل کے ذریعے ان پر مثبت یا منفی رائے بھی دیتے ہیں۔ ''امام احمد رضا قادری اور ردِّبدعات ومُنکرات ‘‘ کے عنوان پر کالم کے بارے میں تقریباً سب آراء مثبت تھیں ، اس کی تحسین کی گئی اور اسے وقت کی ضرورت قرار دیا گیا، مگر ایک کرم فرما ابنِ صدیق قاضی نے منفی ردّ عمل سے نوازا ، وہ لکھتے ہیں:''اگر جو کچھ کالم میں لکھا گیا ہے ، سچ ہے تو پھر ملک بھر میں موجودہ درباروں پر جو شرکیہ رسوم بڑے تزک واحتشام سے منائی جاتی ہیں ، اُن کا کیا جواز ہے ، کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟، کیوں سادہ لوح لوگوں کواُلّو بناتے ہو‘‘۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی فعل کو شرکیہ قرار دینا اورمطلقاً شرعی حدود وقیود کے بغیر ایسا فتویٰ صادر کرنا بہت بڑی جسارت ہے اور ایسی ہر جسارت سے ہم اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں ، آپ چھوٹتے ہی کسی کو مشرک قرار دے دیں ، اس سے بڑا الزام اور اِتّہام کیا ہوسکتاہے؟۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:''تین چیزیں اصل ایمان سے ہیں:جو لاالٰہ الا اﷲ کہے (یعنی توحید ورسالت کا اقرار کرے)، اُس سے (اپنی زبان کو)روک لو اور کسی گناہ کی بنا پر اس کی تکفیر نہ کرو اور کسی (ممنوع)عمل کی بناء پر اسے اسلام سے خارج نہ کرو،(ابوداؤد:2524) ‘‘۔ ہم نے امام احمدرضاقادری کا فتویٰ شرعی حدود وقیود کے ساتھ نقل کیا ہے کہ کوئی شخص کسی قبر یا غیر اللہ کو عبادت کی نیت سے سجدہ کرتاہے ، تویہ شرک وکفر ہے اور اگروہ اپنی دانست میں تعظیم سمجھ کر کررہا ہے تو حرام ہے۔
دوسری یہ کہ جب عَلانیہ طور پر مُنکرات و بدعات سے برأ ت کردی گئی اور یہ ایک وقیع قومی اخبارمیں چھپ گئی، اس سے پہلے ٹیلی وژن چینلز پر بھی میں ایک سے زائد بار بیان کرچکا ہوں اور داتادربارمیں عرس کی ایک نشست میں، میں نے یہی کچھ بیان کیا، تو اِتمامِ حجت کے لئے یہ کافی ہے ،ہم نے اپنا شرعی فریضہ ادا کردیا۔ علماء کی ذمے داری زبان اور قلم سے کلمۂ حق بیان کرنا ہے۔ جواندازِ تکلم آپ نے میرے کالم پر اختیار کیا ہے ، اس طرح تو آپ تمام علمائِ حق پر طعن کررہے ہیں کہ آپ لوگ تبلیغِ دین کے حوالے سے جو کچھ بول رہے ہیں یا لکھ رہے ہیں ، یہ آپ سادہ لوح لوگوں کو اُلّو بنارہے ہیں ، معاشرے میں تو اس کے برعکس ہورہا ہے۔ مُنکرات کو طاقت سے روکنا اہلِ اقتدار کی ذمے داری ہے اور ہر ایک سے اس کی حیثیت کے مطابق باز پرس ہوگی۔
امام احمد رضا قادری محدّث ِ بریلی رحمہ اﷲتعالیٰ کے فتاویٰ کی روشنی میں مزارات کے حوالے سے مسائل واضح طور پر بیان کردئیے گئے ہیں اور وہ یہ ہیں: مزار کے آگے سجدۂ عبادت شرک ہے اور سجدۂ تعظیمی حرام ہے،قبر کے سامنے حدِّ رکوع تک جھکنا منع ہے اورشرعی احتیاط اسی میں ہے کہ عوام کو مزار کو بوسہ دینے سے منع کیا جائے ،کعبۃ اللہ کے سوا تعظیم کی نیت سے کسی بھی مزار حتیٰ کہ روضۂ رسول ؐ کا طواف بھی منع ہے،روضۂ رسولؐ کی جالیوں کو چومنا خلافِ ادب ہے،براہِ راست یعنی کسی حائل کے بغیر قبر کے سامنے نماز پڑھنا مکروہ ہے،قبر کے اوپر بلاوجہ اگر بتی ، لوبان یا چراغ جلانا منع ہے، قبرستان میں لوگوں کی سہولت کے لئے روشنی کا ضروری انتظام جائز ہے، لیکن اسراف منع ہے،خواتین کا مزارات پر جانا منع ہے،خواتین کاپیر سے پردہ واجب ہے، سوائے اس کے کہ اُن کے درمیان مَحرم کا کوئی رشتہ ہو،مزارات پر مردوزن کا مخلوط اجتماع ممنوع ہے،مزارات پر دھمال، رقص اور خلافِ شرع حرکات ممنوع ہیں،رسول اللہ ﷺ اور بزرگانِ دین کی صحیح تعظیم ان کی اطاعت میں ہے،ایصالِ ثواب جائز بلکہ مستحسن ہے، مزارات مقدّسہ اور قبرستان جانا پسندیدہ بات ہے،اموات کے ایصالِ ثواب کا کھانا امرا ء نہ کھائیں صرف فقراء کو کھلایا جائے۔
مزارات تو محکمۂ اوقاف کے کنٹرول میں ہیں اور جو اُن کے کنٹرول سے باہر ہیں ، وہ سجادہ نشین حضرات کے تصرف میں ہیں اور وہی اس کے لیے جوابدہ ہیں ۔ محکمۂ اوقاف اوراکثر سجادۂ نشین حضرات کو صرف اپنے معاشی مفادات سے غرض ہے ، جن اکابر کے نام پر وہ دادِ عیش دے رہے ہیں ، ان کے مشن سے انہیں کوئی غرض نہیں ہے ، سوائے معدودے چند کے وہ شریعت کی پابندیوں سے سے بھی آزاد ہوچکے ہیں ۔ جاگیرداری اوروڈیرہ شاہی کی طرزپر طریقت کے نام پر ایک مفاداتی گروہ وجود میں آچکا ہے، بقولِ علامہ اقبال ؎
میراث میں آئی ہے انہیں مسندِ ارشاد
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن
ہم کو تو میسر نہیںمٹی کا دیا بھی
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
تصوف تو تزکیۂ باطن، عرفان اور احسان کا نام ہے ، اس کے لیے کڑا معیار چاہیے ۔ علم اور تقویٰ کسی کی میراث یا جاگیر نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا واضح ارشاد ہے :''بیشک اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سے سب سے عزت والا وہ ہے ، جو تقوے میں سب سے بالاتر ہو، (الحجرات:13)‘‘۔تقویٰ اخلاصِ نیت ، قول وفعل کی راستی اور صفائے قلب اور روحانی جِلا سے حاصل ہوتاہے۔ محض کسی بزرگ کی نسل میں ہونا یااُن کی صلبی اولاد ہونا اُخروی نجات کا سبب نہیں بن سکتا۔قرآن مجید میں ہے: ''اور نوح نے اپنے رب کو پکارا ! اور کہا: اے میرے رب!بے شک میرا بیٹا میرے اہل سے ہے اور یقینا تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب سے بڑا حاکم ہے، (اﷲنے) فرمایا : اے نوح! وہ آپ کے اہل سے نہیں ہے، بے شک اس کے کرتوت اچھے نہیں ہیں،(ہود:45-46)‘‘۔مقامِ غور ہے کہ جب نبی کا بیٹا اُن کے شِعار کو ترک کردے ، ان کی تعلیمات کے برعکس طرزِ عمل اپنائے، تو محض نسبی رشتے کی بناپروہ نجات نہیں پاسکتا،تو کسی ولی کا فرزند اللہ تعالیٰ کی اس سُنّتِ جاریہ سے کیسے مستثنیٰ ہوسکتا ہے، سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کسی پر مہربان ہوجائے اور اسے توبہ کی توفیق عطا فرمائے،ایک طویل حدیثِ پاک میں ہے:''جس کا عمل اسے سست کردے ، اس کا نسب (بلند درجہ پانے میں) اس کی رفتار کو تیز نہیں کرسکتا،(ترمذی:2945)‘‘۔
اس کے برعکس اصحابِ کہف سے وابستگی کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان کے کتے کا ذکر تقریباً نو مرتبہ فرمایا، حالانکہ کتاایساجانور ہے کہ اگر وہ برتن میںمنہ ڈال لے تو اسے کم ازکم تین بار دھونے کا حکم ہے، حفاظت یا شکار کی ضرورت کے بغیر اُس کا پالنا منع ہے ، بقولِ شاعر ؎
پسرِ نوح با بداں بنشست، خاندانِ نبوتش گم شد
سگِ اصحابِ کہف روزے ،چندپئے نیکاں گرفت، مردم شد
یعنی اصحابِ کہف کا کتا مردانِ باکمال کے ساتھ چند دن بیٹھا، تو وہ بھی نیک نام ہوگیا اور اس کے برعکس نوح علیہ السلام کے بیٹے نے بروں کی صحبت اختیار کی تو خاندانِ نبوت کے شرف سے محروم ہوگیا۔ کیونکہ آل اور اہل کے ایک معنی ہیں :کسی کے خاندان کا فرد ہونا یا اُس کی صُلبی اولاد سے ہونا اور دوسرے معنی ہیں: کسی کا سچا پیرو کار ہونا اور یہاں جو پسرِ نوح سے نوح علیہ السلام کا اہل ہونے کی نفی فرمائی ، اُس سے دوسرے معنی مراد ہیں۔
بزرگانِ دین اور اولیائِ کرام کے مزارات، جو اُن کے صحیح روحانی جانشینوںکی نگرانی میں ہیں، وہاں روحانی تربیت کا بھی انتظام ہے اور شریعت کے ساتھ پختہ وابستگی کی تعلیم بھی دی جاتی ہے اور مزارات کے متصل دینی ادارے بھی قائم ہیں ، بعض مقامات پر خدمت خلق کے ادارے بھی ہیں ۔ لیکن یہ سب کچھ وہاں ہے، جہاں سجادہ نشین یا اُن بزرگوں کے اَخلاف (Successors)اہلِ علم ہیں ، اہلِ فکر ونظر ہیں ،ا ہلِ درد ہیں، انہیں شریعت کا بھی پاس ہے، اُمّت کا بھی درد ہے اور انسان دوستی بھی اُن کا شِعار ہے۔