ایک سردار جی اپنے ایک شناسا بنیے سے قرض لینے پہنچے تو ہوشیار بنیے نے کہا '' سردار جی: آپ یہ قرض کیسے چکائیں گے؟‘‘
سردار جی بولے '' میں نے اس کے لیے پورا انتظام کر رکھا ہے‘‘۔ بنیا بولا: وہ کیسے؟ سردار جی نے کہا '' میں نے اپنے بیٹوں کو کہہ دیا ہے کہ وہ گائوں سے شہر کو جانے والی سڑک کے دونوں اطرا ف میں کیکر کے پودے اُگا دیں۔ یہ پودے عنقریب درخت بن جائیں گے اور جب گائوں سے کپاس کی بھری ہوئی بیل گاڑیاں اِن درختوں کے نیچے سے گزریںگی تو کانٹے دار شاخیں کچھ کپاس اُچک لیا کریں گی، جسے میرے بیٹے جمع کرتے رہیں گے اور پھر یہ کپاس بیچ کر تمہارا قرض اتار دیں گے۔‘‘ یہ سن کر بنیا ہنس دیا۔قریب بیٹھے ایک شخص نے پوچھا '' سیٹھ صاحب آپ ہنس کیوں رہے ہیں؟‘‘
سردار جی فوراََ بول اٹھے '' سیٹھ صاحب قرض کی ادائیگی کے معقول انتظام پرخوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔‘‘
کچھ ایسی ہی طویل منصوبہ بندی ہمارے حکمران بھی کر تے رہتے ہیں۔حالات اس قدر خراب ہیں کہ سردیوں میں بھی عوام لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے دوچار ہیں۔ ساتھ ہی گیس بھی غائب ہے۔اب تو گھروں کے چولہے بھی سرد ہو چکے ہیں۔اب بیچارے کابینہ کے ارکان بھی کیا کریں؟وہ اپنے تئیں اپنے اپنے فرائض نہایت تند ہی سے سرانجام دے رہے ہیں۔بلال یا سین بھی ایک ''خاندانی ‘‘وزیر ہیں۔ شکل و صورت سے بھی بہت معصوم اور پڑھے لکھے لگتے ہیں۔
میاں صاحبان کی پالیسیوں کو عملی شکل دینے کی لیے وہ بھی رات دن ایک کیے ہوئے ہیں ۔پنجاب حکومت کی کارکردگی جو دیگر صوبوں سے بہتر دکھائی دیتی ہے تو اس میں میاں شہبا ز شریف اور ان کے انہی قریبی وزیروں ،مشیروں کی محنت ِشا قہ بھی شامل ہے۔بلال یاسین کے پیچھے میڈیا نہ جانے کیوں ''نہا دھو کر‘‘ پڑا ہوا ہے۔کچھ عرصہ قبل ٹماٹروں کی قیمت میں اضافے کے ساتھ ہی بلال یاسین نے عوام الناس کو صرف اتنا کہا تھا کہ ٹماٹر اگر آپ لوگوں کی دسترس سے دُور ہو گیا ہے تو دہی سے کام چلا لیں، بس اتنی سی بات بتنگڑ بن گئی اور کیا کیا تبصرے ہوئے۔ اب ٹماٹر کا نعم البدل اگر دہی ہو سکتا ہے تو اس میں وزیر خوراک کا کیا قصور؟ اوراب بلال یاسین اگر سستے بازاروں کے معائنے کر رہے ہیں، ملاوٹ کرنے والوں کے خلاف برسرِ پیکار ہیںتو بھی میڈیا انہیں چین لینے نہیں دیتا۔اگر وزیر خوراک سستے بازار وں کی چیکنگ کے لیے لاہور سے باہر کے دوروں پر جارہے ہیں تو بھی کسی نہ کسی طرح انہیں نیچا دکھانے کی کوششیں جاری ہیں۔خدا کے بندو! اگر انہوں نے ہیلی کاپٹر استعمال کر لیا ہے تو وہ اپنے کسی ذاتی کام تو نہیں گئے ناں۔اس دورے پر اگر ہیلی کاپٹر ، سکیورٹی پروٹوکول ،ہیلی پیڈ اور دیگر اخراجات کی مد میں اڑھائی تین کروڑ روپے خرچ ہو گئے ہیں تو اس پر اتنا '' وا ویلا‘‘ کیوں ؟
کون نہیں جانتا، کچھ پانے کے لیے کچھ خر چ بھی کرنا پڑتا ہے۔ اگر قانون پر عمل درآمد کرانا ہے تو کار کردگی پر آنکھ بھی رکھنی ہو
گی۔وزراء کو دورے کرنے اور چھاپے بھی مارنا ہوں گے اور اس سلسلے میں خرچے تو ہوں گے۔خرچے کریں گے تو چرچے ہوں گے۔جہاں تک سستے بازاروں کے ''فلمی سیٹ ‘‘لگانے کا تعلق ہے تو اس میں ہمارے نوجوان اور متحرک وزیر بلال یاسین کا کیا قصور؟ اسے اگر کسی نے ''ماموں‘‘ بنانے کی ہوشیاری دکھائی ہے تو سزا بھی ان لوگوں کو دی جائے جنہوں نے جعلی سستے بازار لگائے ۔سبزی اور پھل فروشوں کو صاف ستھرے ماحول میں اکٹھا کر کے ، بازار کا سیٹ لگوانے والے اس کارروائی پر جواب دہ ہونے چاہئیں ۔کیا ساہیوال ریجن کے متعلقہ افسران اس سارے کھیل سے بے خبر تھے کہ ِادھر اُدھر کے دکاندار پکڑ کر بازار سجایا گیا ہے؟۔وزیر صاحب اور کمیٹی کے دیگر
ارکان تو اِس بازار کا دورہ کرکے خوشی خوشی رخصت ہوئے اور پھرسارا بازار منتشر ہو گیا۔گویا وہ سارا فلمی سین آناََ فاناََ ختم ہوگیا ۔کیا اس سے قبل اس قسم کے مذاق نہیں ہوتے رہے؟۔یہ تو معصوم وزیر تھے۔یہاں تو وزیراعلیٰ صاحبان کو بھی اسی طرح کا چکمہ دیا جا چکا ہے۔سیلاب زدگان کے جعلی امدادی کیمپ بھی لگائے جا چکے ہیں۔بلال یاسین کے جعلی بازار یا ہیلی کاپٹر والے دورے کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی ہے ۔اس پر وزیرا علیٰ نے فوراََ نوٹس بھی لیا ہے ۔اس سے اتنی بات پتہ چلی کہ وزیر اعلیٰ نے وزراء کو ہیلی کاپٹر استعمال کرنے سے روک دیا ہے البتہ چھاپوں کے لیے بائی روڈ سفر کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں مگر جعلی سستے بازار لگانے والوں کے ساتھ کیا ہوا؟ اس بارے میں میڈیا خاموش ہے۔اللہ کرے ایسے بازاروں میں جعلی اشیاء فروخت کرنے والوںکے محاسبے کی کوئی خبر بھی ملے اور صرف خبر ہی نہیں، ایسے بد عنوان دکانداروں کے خلاف سخت کارروائی بھی ہوتی نظر آئے۔مگر افسوس تو یہ ہے کہ تاحال کسی بجلی گیس چوری کرنے ،جعلی مشروبات یا جعلی مصالحہ جات تیار کرنے والوں کے خلاف ہونے والی کسی کارروائی کی خبر کو کان ترس رہے ہیں۔ کھانے پینے کی اشیاء مہنگی بیچنا تو ایک طرف،ان میں ملاوٹ کر
کے انہیں مضرِ صحت بنا دینا بھی ایک گھنائونا فعل ہے جس پر سخت سے سخت سزا دی جانی چاہیے ۔اگر انسانی جانوں سے کھیلنے والے دوچار بد عنوان افراد کو بھی عبرت ناک سزا مل جائے تو پھر کوئی شخص ملاوٹ کرنے کا نام بھی نہ لے مگر قانون جب صرف کمزوروں یا غریبوں کے لیے رہ جائے اور بڑے بڑے صنعت کار، تاجر، زمیندار قانون سے بچ جائیںتو اس معاشرے میں بہتری کیسے آ سکتی ہے۔حدیث میں ہے کہ '' جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں ۔‘‘گویا ملاوٹ کرنے والوں کو صاف تنبیہ کی جا رہی ہے کہ وہ ایسے عمل سے باز رہیں ۔مگر ہم لوگ معمولی سے منافعے کے لیے اپنے آپ کو اپنے نبیﷺ سے دور کر لیتے ہیں۔نہ جانے ہمیں کیوں موت بھولی ہوئی ہے؟کہتے ہیں بنی اسرائیل میں سے کسی نے بہت سا مال جمع کیا تھا، جب مرنے لگا تو اس نے اپنے بیٹے سے کہا : میرا سب قسم کا مال مجھے دکھلائو۔ سب قیمتی چیزیں اورزرو جواہر اس کے سامنے لائے گئے، جب اس نے ان چیزوں کو دیکھا تو بہت رویا۔ ملک الموت نے جو اس کو روتے دیکھا تو کہا: روتا کیوں ہے؟ قسم ہے رب العزت کی کہ میں تیرے جسم سے تیری جان نکالے بغیر نہ جائوں گا۔ اس شخص نے کہا: مجھے اتنی مہلت تو دے کہ میں ان چیزوں کو اللہ کی راہ میں صدقہ دے دوں۔ ملک الموت نے کہا: اب یہ نہیں ہو سکتا اب مہلت کا وقت نہیں ، اس وقت سے پیشتر جو اتنی مہلت دراز تجھے حاصل تھی، اس میں کیوں نہ دے دیا؟ یہ کہہ کر اس کی روح قبض کر لی۔