تحریر : اوریا مقبول جان تاریخ اشاعت     01-01-2014

جہلِ مرکب

جہل مرکب یا جہالت عربی زبان میں ایسی کیفیت کو نہیں کہتے جس میں آدمی مطلقاً بے علم ہو بلکہ جہالت ایک ایسی ذہنی حالت ہے کہ آدمی اپنے علم کو حتمی اور آخری سمجھے اور پھر اس کے حق میں جائز اور ناجائز دلیلیں ڈھونڈتا پھرے اور اس کے مخالف ہر علم اور ہر حقیقت کو رد کرتا رہے۔ اس کی مثال سیّدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے یوں واضح ہوتی ہے کہ عمرو بن ہشام مکہ میں اس قدر صاحب علم و عقل و دانش تھا کہ اسے مکیّ کے لوگ ابوالحکم یعنی ''دانائی کا باپ‘‘ پکارتے تھے، لیکن اپنے اس علم پر ہٹ دھرمی اور اللہ کے اتارے ہوئے علم اور دانائی یعنی حکمت سے انکار پر اسے ابوجہل کہا گیا جس کا مطلب ہے ''جہالت کا باپ‘‘۔ یہ رویہ ہمارے دائیں اور بائیں بازو کے دانشوروں اور سیکولرازم کے دعویداروں میں بلاتحصیص پایا جاتا ہے۔ ایک رویہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی کسی نظر یے کو بلا دلیل جذباتی طور پر مان لے۔ مذہب کے بارے میں یہ عمومی رویہ ہے اور مدتوں کمیونزم کے بارے میں بھی اکثریت کا یہی طور تھا، لیکن بدترین رویہ یہ ہوتا کہ حقائق کے برعکس ایسی دلیلیں ڈھونڈی جائیں یا کھینچ تان کر تخلیق کی جائیں جس سے ایک عام علمی استعداد کا آدمی گمراہ ہو سکے۔ طویل عرصہ سے قومی زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کے حق میں جو تاریخ کے ورق میں نے الٹے اور دنیا کے ہر مہذب اور ترقی یافتہ ملک سے مثالیں پیش کیں، اس کے مقابلے میں سب سے مضبوط دلیل یہ دی جاتی رہی ہے کہ ہم عالمی برادری سے کٹ جائیں گے۔ میرے بہت ہی قریبی دوست کے فرزند اور میرے بہت پیارے عزیز نے ایسے دلائل دیے جس نے مجھے ایک عام پڑھنے والے کی درستی اور موصوف کی خود ساختہ منطق کی اصلاح کے لیے جواب لکھنے پر مجبور کر دیا۔
جہاں تک پانچ ہزار سال کی تاریخ پر مبنی اس دعوے کا تعلق ہے کہ کوئی ایک قوم ایسی نہیں‘ جس نے کسی دوسرے کی زبان میں علم حاصل کیا ہو اور ترقی کی ہو، یہ بھی کہا گیا کہ ساری تاریخ کا احاطہ کیسے کیا گیا؟ تو دنیا میں ٹائن بی سے لے کرول ڈیورانٹ تک بہت سے ایسے مورخ مل جائیں گے جنہوں نے دنیا کی تاریخ مرتب کی اور اس دعوے کی تصدیق ممکن ہے۔ غیرملکی زبان میں تعلیم کا رواج نو آبادیاتی طاقتوں سپین، برطانیہ اور فرانس نے شروع کیا۔ فلپائن سے لے کر برصغیر، افریقہ اور جنوبی امریکہ کے ممالک اس کے گواہ ہیں جو موجودہ دنیا میں علم کے میدان میں پسماندگی کی علامت ہیں۔ جب انگریزوں نے ترقی کی منازل طے کرنا شروع کیں تو دنیا کا سارا علم عربی میں موجود تھا اور ہر بڑا صاحب علم اور سائنس دان اسی زبان میں کتابیں تحریر کر رہا تھا۔ ایک آسان طریقہ یہ تھا کہ عربی کو برطانیہ کے سکولوں میں پڑھایا جاتا اور ایک نقّال اور غیرتخلیقی قوم پر وان چڑھائی جاتی، لیکن ایسا نہیں کیا گیا بلکہ دنیا بھر کی لاکھوں کتابوں کا انگریزی میں ترجمہ کیا گیا اور یہ سلسلہ عربی تک محدود نہ رکھا گیا بلکہ، فرانسیسی، سنسکرت، ہسپانوی اور دیگر زبانوں میں جہاں سے بھی علم ملا اسے اپنی زبان میں ترجمہ کر کے پوری قوم کے لیے علم اکٹھا کیا گیا۔ جب یورپ میں تحریک احیائے علوم شروع ہوئی تو ہر قوم نے ترجمے سے اپنی زبان کا دامن مالامال کیا۔ یورپ کے ہر مدرسے میں عربی زبان لازمی مضمون کے طور پڑھائی جاتی تھی تا کہ عربی میں موجود علم کو سمجھا جا سکے، لیکن کسی قوم نے بھی ذریعہ تعلیم عربی نہیں بنایا۔ چند لاکھ کی آبادی والے ملک بھی آج تک اس کلیے پر قائم ہیں اور اپنی ہی ز بان میں ابتدائی سے لے کر اعلیٰ تعلیم دلواتے ہیں۔ کبھی کسی نے یہ دلیل نہیں دی کہ انگریزی زبان نہیں پڑھنی چاہیے، دلیل یہ دی جاتی ہے کہ انگریزی ذریعہ تعلیم نہیں ہونا چاہیے اس لیے کہ ایک انگریز بچہ چند گھنٹے انگریزی میں تعلیم حاصل کرتا ہے تو باقی بیس گھنٹے ذاتی زندگی میں بھی انگریزی ہی بولتا ہے۔ وہ سیاست، محبت، معاشرت سب انگریزی میں کرتا ہے اس لیے اس کا محاورہ ویسا ہی بن جاتا ہے اور ذریعہ اظہار بھی۔ لیکن یہاں پانچ گھنٹے بچہ سکول میں انگریزی پڑھتا ہے اور انیس گھنٹے اپنی زبان میں بولتا اور سنتا ہے، ویسے ہی جیسے ایک کالم نگار انگریزی کی تعریف میں رطب اللسان ہیں لیکن کالم اُردو میں لکھتے ہیں۔ اگر انگریزی اتنی موثر ہوتی تو ذریعہ اظہار بھی اسے ہی بناتے۔ دوسری دلیل یہ دی جاتی ہے اگر ہم اپنی زبان میں علم حاصل کرتے رہتے تو کیا یہاں بڑے بڑے سائنس دان پیدا ہو جاتے۔ موصوف کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ انہوں نے جن عظیم سائنس دانوں کا ذکر کیا، وہ تمام انگریزی زبان میں نہیں لکھتے تھے بلکہ انہوں نے علم اپنی زبان میں ہی حاصل کیا تھا اور کتابیں بھی اپنی زبان میں تحریر کیں۔ ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ البرٹ آئن سٹائن نے تعلیم جرمن زبان میں حاصل کی، کارل مارکس کی تحریریں بھی جرمن زبان میں تھیں، سگمنڈ فرائڈ نے بھی علم جرمن زبان میں حاصل کیا۔ نیوٹں اور ڈارون چونکہ انگریز گھرانے میں پیدا ہوتے تھے‘ اس لیے انہوں نے تعلیم مادری زبان انگریزی میں حاصل کی۔ میں دنیا کے ہزاروں سائنس دانوں کے نام پیش کر سکتا ہوں جو دنیا کے افق پر چھائے مگر وہ انگریزی زبان سے نابلد تھے، لیکن کیا کیا جائے کہ لوگ ان کا نام انگریزی میں پڑھنے کے بعد یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب انگریز تھے۔ اگر یورپ، چین، جاپان نے انگریزی زبان کو بطور ذریعہ تعلیم اختیار کیا ہوتا تو آج ان کے 'لیہ‘ اور 'آیوب‘ سے بھی کوئی آئن سٹائن پیدا نہ ہوا ہوتا۔
ایک اور مثال دی گئی کہ جاپان میں ایک ہی زبان اور ثقافت ہے۔ دنیا کا کوئی ملک ایک زبان اور ثقافت کا ملک نہیں، ہر ملک میں کئی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ صدیوں سے معمول ہے کہ ایک زبان ہمیشہ رابطہ کی زبان بن جاتی ہے اور اسی میں علم کا ذخیرہ آ جاتا ہے۔ جاپان کے معاشرے میں بھی 
Ruyakyvan اور Okinwan زبانیں ہیں اور صدیوں سے وہاں قدیم چینی Kanbun کو سرکاری زبان کی حیثیت حاصل ہے، لیکن جاپانی زبان نے قومی زبان کا مقام حاصل کیا۔ ایران میں فارسی صرف 47 فیصد لوگوں کی مادری زبان ہے لیکن وہاں کا علم اور ادب فارسی میں ہے اور رابطے کی زبان بھی وہی ہے۔ جب سے ایران نے فارسی میں تعلیم کا فیصلہ کیا ہر سال وہاں سے ایک شخص نوبل پرائز کے لیے سائنس کی دنیا میں نامزد ضرور ہوتا ہے۔ ایک اور مضحکہ خیز بات یہ کی گئی کہ اس وقت دنیا میں سائنس اور علم کی جو اصطلاحات ہیں انہیں ترجمہ کر کے دکھا دیں۔ اسے جہل مرکب کہتے ہیں۔ اس وقت قانون، طب، فزکس اور کیمسٹری کی اصطلاحات لاطینی (Latin) اور فرانسیسی زبان سے لی گئی ہیں، کسی نے ان کا ترجمہ نہیں کیا بلکہ ان کو اپنی زبان میں سمو لیا۔ میری گزارش ہے کہ درج ذیل قانونی اصطلاحات کا انگریزی میں ترجمہ کر کے دکھائیں جو آج بھی انگریزی قانون کا حصہ ہیں: "Pelo dese", "De jure", "De facto" ,"Versus" "Prima-facia" ,"ipsofactoوغیرہ۔ ایسے ہزاروں الفاظ دنیا کی ہر زبان خصوصاً ان کی محبوب انگریزی میں موجود ہیں اور روزمرہ زندگی کا حصہ ہیں؛ البتہ انگریز وہ بددیانت تھا کہ اس نے علم تو مسلمانوں سے حاصل کیا لیکن ان مسلمانوں کے نام انگریزی زبان میں بگاڑ دیے تا کہ لوگوں کو معلوم ہو کہ یہ سب لوگ پیدائشی انگریز تھے۔۔۔ جیسے بو علی سینا کو Avicena کہا گیا۔ اگر ہم اپنے بچوں کو ملکہ وکٹوریہ کی جگہ 'مائی وکی‘ پڑھانا شروع کر دیں تو کیسا لگے گا۔ آخری دلیل سر سید اور علامہ اقبال کی دی گئی کہ ان دونوں کی سوانح عمریاں غور سے پڑھ لیں، سر سید نے عربی، فارسی، قرآن و حدیث، فقہ اور دیگر علوم اپنے استاد حمیدالدین سے سیکھے، وہ کسی انگریزی مدرسے میں نہیں پڑھے۔ انہوں نے اپنے بھائی سے مل کر پہلا اُردو پرنٹنگ پریس لگایا اور ''سیدالاکبر‘‘ رسالہ نکالا۔ اقبال کی تعلیم تو مولوی میر حسن کے ہاتھوں ہوئی اور ان کا یہ اعتراف ہی کافی ہے کہ جب تک میر حسن کو شمس العلماء کاخطاب نہیں دیا جائے گا وہ سر کا خطاب نہیں لیں گے۔ سر سید کے مدرسے کے حالی، شبلی اور ڈپٹی نذیر احمد کس انگریزی سکول سے پڑھے تھے؟ ڈپٹی نذیر احمد کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے پورے انگریزی قانون کا اُردو میں ترجمہ کیا اور ضابطہ فوجداری اور ضابطہ دیوانی مدتوں عوام کی سہولت کے لیے موجود رہا اور موجودہ انگلش میڈیم کے جنون سے پہلے عدالتوں میں عرضی نویس اُردو میں درخواستیں لکھتے اور ریڈر اُردو میں فیصلے تحریر کرتے تھے۔ جہاں تک سرکاری افسروں کی زبان انگریزی ہونے کا تعلق ہے، ہمارا المیہ ہی یہ ہے کہ فوج اور بیوروکریسی غلط انگریزی لکھیں اور بو لیں گے لیکن اُردو میں لکھنے میں شرمندگی محسوس کریں گے‘ اس لیے کہ ان کو اُردو سے شرمندہ کرنے کے لیے ایسے بہت سے دانشور موجود ہیں جو انگریزی میں علم حاصل کرنے کا درس دیتے ہیں اور کالم اُردو میں لکھتے ہیں، ٹی وی کے ٹاک شو میں بھی انگریزی نہیں اُردو بولتے ہیں اور عام زندگی میں بھی اسے ہی اپناتے ہیں۔ البتہ پوری قوم کو شرمندہ کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved