تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     01-01-2014

مشرف مقدمے سے کرامت بخاری تک

ہمارے ایک کرم فرما سید خورشید احمد شاہ نے فوج سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ واضح کرے کہ مشرف کی حمایت نہیں کرتی۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ وضاحت حکومت طلب کرے تو کرے‘ خورشید شاہ صاحب کون ہوتے ہیں ایسا کرنے والے ، اور حکومت بھی اگر کرے گی تو وہ حکومت جو طالبان کے خوف سے تھر تھرکانپ رہی ہے اور جسے اب تک فوج ہی بچائے ہوئے ہے ۔ دوسرے یہ کہ فوج اپنے سابق کمانڈر انچیف کی حمایت کیوں نہ کرے گی اور اسے اس بارے میں وضاحت کرنے یا نہ کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے اور حکومت بھی صورت حال کو اچھی طرح سے سمجھتی ہے کہ اگر مشرف کو سزا ہونے سے فوج کا مورال گرتا ہے تو اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟ 
باتیں آہستہ آہستہ کھل رہی ہیں اور کھلنی چاہئیں بھی۔کیا یہ کوئی انکشاف ہوگا کہ اس چیف جسٹس کے حکم کی پیروی میں یہ مقدمہ چلایا جا رہا ہے جنہوں نے پی سی او ججوں کو کھڈے لائن لگایا تھا اورانہوں نے خود پی سی او کے تحت حلف نہیں اٹھا رکھا تھا؟ پھر ان حضرت نے مشرف کے 12 اکتوبر کے اقدام کو نہ صرف جائز قرار دیا بلکہ اسے آئین میں ترمیم کرنے کا وہ اختیار بھی دے دیا جو خود انہیں بھی حاصل نہیں تھا۔کیا یہ آئین کے مطابق تھا؟ مشرف نے اگر آئین شکنی کی توکیا صاحبِ موصوف کا یہ عمل آئین شکنی نہیں تھا اور اگر تھا تو انہیں اس کی کیا سزا دی گئی۔ علاوہ ازیں انصاف کے ٹل کھڑکانے والے اس معزز چیف جسٹس نے اپنے بیٹے کے مقدمے میں کتنا انصاف کیا؟ 
آئین کے مطابق حکومتیں عوام کی فلاح و بہبود کی پابند ہیں۔کیا یہ حقیقت نہیں کہ حکومتوں نے صرف اپنے بھڑولے بھرے اور غریب عوام کا کچومر نکال کر رکھ دیا۔کیا یہ آئین شکنی نہیں؟ اور اگر ہے تو اس ضمن میں کتنی حکومتوں کے خلاف مقدمہ قائم کیا گیا؟ آج ہاتھ پھیلا پھیلا کر جس جمہوریت کی دہائی دی جا رہی ہے‘ ایک بار پھر پوچھنا پڑتا ہے کہ کون سی جمہوریت؟ وہی جمہوریت جو ہمیشہ انجنیئرڈ انتخابات کے ذریعے وجود میں لائی جاتی ہے‘ جس میں ایک چٹّے ان پڑھ کا بھی ایک ووٹ ہے اور ایک ڈاکٹر‘ انجینئر‘ وکیل اور دانشور کا بھی اور جو ہمیشہ تھانیداروں‘ پٹواریوں اور تحصیلداروں کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔ 
مقصد خدانخواستہ ایک آمر کی حمایت نہیں بلکہ ان اسباب وعلل کی نشاندہی ہے جن کی بناء پر جمہوریت کوگھر کی لونڈی سمجھ کر اس کے ساتھ وہی سلوک کیا جاتا ہے جو لونڈیوں کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے۔ جمہوریت کا تو آپ نے چہرہ ہی اس قدر مسخ کردیا کہ وہ پہچانی ہی نہیں جاتی اور جو باقاعدہ ایک چڑیل لگتی ہے۔ آپ جمہوریت کو ٹھیک کردیں۔ اس پر شب خون مارنے والے خود ہی غائب ہو جائیں گے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہاں سب نے مصلحت کی ٹوپی پہن رکھی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی اپنی سلطنت ہے‘ اہلِ سیاست کی اپنی ریاست اور میڈیا کی اپنی قلمرو ‘اس لیے ع 
سب کر رہے ہیں آہ و فغاں‘ سب مزے میں ہیں 
اوپر سے عزیزی بلاول بھٹو زرداری‘ جس نے ٹیلی پرنٹر سے پڑھ پڑھ کر بولنا سیکھ لیا ہے‘ یہ کہتے ہیں کہ غدارکا دفاع کرنا بھی غداری ہے۔ آپ اس وقت کہاں تھے جب ابا جان اس ''غدار‘‘ کو21 توپوں کی سلامی سے پورے تزک واحتشام کے ساتھ رخصت کر رہے تھے اور بے نظیر بھٹو کے سفاکانہ قتل پر چُپ شاہ کا روزہ رکھے ہوئے تھے۔کون نہیں جانتا کہ مسٹر ٹین پرسنٹ کس کا نام تھا۔ ایم بی بی ایس کس کا لقب تھا اور راجہ رینٹل کس کی عُرفیت۔ ان مصروفیات کے ہوتے ہوئے کسی کی غداری پرکیا باز پُرس ہو سکتی تھی۔ 
ادھر مشرف کے ساتھ مل کر جمہوریت کو چار چاند لگانے والوں کے سرخیل چودھری شجاعت حسین کہتے ہیں کہ فوج سمیت سب پر مقدمہ چلنا چاہیے‘ یہ بھی کہا کہ جو یہ کہتے ہیں کہ ایمرجنسی لگانے کا مشورہ کسی کے ساتھ نہیں کیا گیا‘ وہ جھوٹ بولتے ہیں کہ مشورہ میرے سمیت سب کے ساتھ کیا گیا تھا‘ بے شک میرے خلاف بھی مقدمہ چلا دیں۔ ٹھیک کہتے ہیں‘ تاہم اگر اورکچھ نہیں ہو سکتا تو موصوف کی گردن تو ناپی جانی چاہیے جو اقبالِ جرم کر رہے ہیں ، لیکن ایسا ہوگا نہیں کیونکہ اگر یہ سارا انتظام مشرف کی گلوخلاصی ہی کا ہے تو کسی دوسرے کو اس بارے میں پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ البتہ بعض سابق جرنیل جو مشرف کے خلاف بیان دے دے کر جمہوریت کے چیمپئن بننے کی کوشش کر رہے ہیں واقعتاً مبارکباد کے مستحق ہیں۔ 
اور اگر بقول شخصے‘ نوازشریف نے یہ شوشہ لوگوں کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کے لیے چھوڑا ہے تو وہ بھی خاطر جمع رکھیں کہ لوگو ںکا فوکس اب بھی انہی پر رہے گا کیونکہ مہنگائی نے جہاں عوام کی پہلے ہی چیخیں نکال رکھی ہیں اب پٹرول‘ ڈیزل کی قیمتوں میں زیر تجویز اضافے سے وہ طوفان مزید قریب آ سکتا ہے جو حکومت کو اپنی لپیٹ میں لینے والا ہے جبکہ روزانہ اربوں روپے کے نوٹ چھاپ چھاپ کر حکومت کے ہوش و حواس پہلے ہی اپنی جگہ پر نہیں رہے۔ اور یہ مقدمہ سانپ کے منہ میں چھچھوندر کا روپ دھارنے والا ہے کہ اسے نگلنے دے گی‘ نہ اگلنے۔ اور اب اس میں زیادہ تاخیر ہوتی نظر بھی نہیں آ رہی کہ ؎ 
 
یہ ڈرامہ دکھائے گا کیا سین 
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ 
 
اور یہ جو ہر پیشی سے پہلے مشرف کی رہائش گاہ کے باہر سے بارودی مواد اور نامکمل بم وغیرہ برآمد ہو رہے ہیں‘ یہ ایک نیا ڈرامہ ہے جو حکومت کھیل رہی ہے یا مشرف خود۔ اگرچہ مشرف کے پاس ایسا کرنے کے وافر وسائل نہیں ہیں اور پھر لطف در لطف یہ ہے کہ یہ برآمدگیاں اُس زبردست سکیورٹی کے باوجود ہو رہی ہیں جواس مقام پر ہر وقت موجود ہوتی ہے۔ اس بارے میں حکومت کی طرف دھیان اس لیے جاتا ہے کہ ایسی طفلانہ حرکتیں وہی کر سکتی ہے جیسی وہ اِدھر اُدھر کرتی بھی پھر رہی ہے کہ اللہ میاں کو کسی نے دیکھا نہیں‘ وہ اپنی قدرتوں ہی سے پہچانا جاتا ہے۔ سو‘ مشرف صاحب مطمئن رہیں‘ ہونا ہوانا کچھ بھی نہیں ہے کیونکہ مقدمے کی پیروی بھی حکومت ہی نے کرنی ہے جو اس سے بہرصورت جان چھڑانا چاہتی ہے جبکہ طالبان کا مسئلہ سب سے زیادہ اس کی جان کے در پے ہے جن کے ساتھ مذاکرات کر سکتی ہے اور نہ ان کے خلاف جنگ کرنے کی پوزیشن میں ہے اور صرف ٹائم پاس کر رہی ہے ، لیکن ٹائم حکومتی سوچ کی نسبت زیادہ تیز رفتاری سے گزرتا جاتا ہے‘ اپنی منزل کی طرف‘ جو حکومت کی منزل ہرگز نہیں ہو سکتی۔ 
کرامت بخاری 
کرامت بخاری ہمارے جواں فکر اور سینئر شاعر ہیں‘ ان کا کلام اکثر معیاری رسائل کی زینت بنتا رہتا ہے۔ ہمارے دوست سلطان رشک کی ادارت میں سالہا سال سے چھپنے والے ماہنامہ ''نیرنگِ خیال‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی ان کی غزل کے یہ اشعار مجھے اچھے لگے ہیں‘ آپ بھی دیکھیں: 
 
زمیں پر آسماں رکھا ہوا ہے 
مجھے بھی درمیاں رکھا ہوا ہے 
چھپا کر مجھ سے اپنے راز لاکھوں 
مجھی کو رازداں رکھا ہوا ہے 
بنا دیکھے اُسے تا عمر چاہیں 
یہ کیسا امتحاں رکھا ہوا ہے 
یقیں پر بھی یقیں آئے تو کیسے 
یقیں میں بھی گماں رکھا ہوا ہے 
میں خود کو بھی نظر آتا نہیں ہوں 
مجھے آخر کہاں رکھا ہوا ہے 
آج کا مقطع 
جزیرۂ جہلاء میں گھرا ہوا ہوں‘ ظفرؔ 
نکل کے جائوں کہاں‘ چار سُو سمندر ہے 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved