پیر30دسمبر کولاہور کے تمام اخبارات میں ایک روح فرسا خبر شائع ہو ئی جو ہر صاحب ِدل کے اعصاب پر بجلی بن کر گری۔خبرپڑھنے کے بعد آنکھیں نم ہوگئیں اورمیںکافی دیر بے حس و حرکت رہا،میرا دل بوجھل ہوگیااورسوچنے سمجھنے کی صلاحیت معطل ہوگئی۔یقین نہیں آرہا تھا انسان اتنابھی گر سکتا ہے کہ اپنی بیٹی کو معمولی تنازع پر قتل کر ڈالے۔ خبرکے مندرجات پڑھ کر احساس ہواکہ ابھی ہم عہد جاہلیت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ نے تو اولادبالخصوص بیٹی کے قتل کو حرام قرار دیا تھا، لیکن ہم کس طرح کے مسلمان ہیں کہ اپنی بیٹیوں کو قتل کر رہے ہیں ۔خبر کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ کاہنہ میں ایک عورت گھریلو تنازع پرناراض ہوکر اپنے والدین کے گھر آگئی۔اس کاوالدچاروناچارکچھ دن اسے اپنے گھر میں برداشت کرتا رہا۔جب شوہر اسے لینے آیاتو بیٹی نے بعض تحفظات کی وجہ سے اس کے ساتھ جانے سے انکارکر دیا ۔ بیٹی کی سوچ یہ تھی کہ جب تک سسرال میں موجود بعض مسائل کا ازالہ نہیں ہوجاتااس وقت تک اس کے واپس جانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ کسی بھی وقت اختلافات دوبارہ سر اُٹھا سکتے ہیں ۔باپ نے بیٹی کے مسائل کو سمجھنے کے بجائے اس کے ساتھ الجھنا شروع کر دیا، تنازع بڑھتے بڑھتے یہاں تک جاپہنچا کہ باپ نے بیٹی کو قتل کرڈالا۔
ظلم وشقاوت کا یہ واقعہ پہلا اور منفرد نہیں، ہم آئے روزایسی افسوسناک خبریں پڑھتے رہتے ہیںکہ باپ نے غیرت کے نام پر بیٹی کو قتل کردیا۔کئی باراس طرح کی خبریں بھی پڑھنے کو ملتی ہیں کہ بیٹی کی پیدائش پرشوہرنے مغموم ہوکر بیوی کو قتل کر ڈالا۔ اس وجہ سے بہنے والے ناحق خون کا سب سے بڑا المیہ یہ ہوتا ہے کہ اکثران واقعات کی تفتیش نہیں ہوتی۔ گھریلو اورخاندانی سطح پر ہونے والے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں مجرم یا توگرفتا رنہیں ہوتا اوراگرگرفتار ہوجائے تو اسے قرار واقعی سزا نہیں ملتی۔
کہنے کو تو ہمارا معاشرہ بہت ترقی کر چکا ہے، لیکن درجنوں طریقوں سے عورت کا استحصال جاری ہے۔کئی گھرانوں میں بیٹی کی پیدائش سے قبل ہی اس کا استحصال شروع ہو جاتا ہے ۔ جاہل شوہردوٹوک انداز میں بیوی سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اسے ہرصورت میں بیٹے کوجنم دیناچاہیے ، بچی کی پیدائش کی صورت میں اسے سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ شوہر اس بات کو فراموش کردیتے ہیں کہ بیٹے یا بیٹی کی پیدائش عورت کے اختیار میں نہیں ہوتی، یہ خالق و مالکِ کائنات کا فیصلہ ہوتا ہے، وہ جسے چاہتا ہے بیٹی دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹا عطا فرماتا ہے۔ بیٹی کی پیدائش پرمغموم ہونااہل ایمان کا طریقہ نہیں بلکہ کافرانہ ادا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی سورہ نحل کی آیت نمبر58اور59میں کافروں کے طریقے کا ذکر کیا ہے:''جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی خوشخبری دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ غم سے بھرا ہوتا ہے۔اس خوشخبری کی وجہ سے لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے۔ آیا ذلت کے باوجود اسے( اپنے پاس) رکھے یا مٹی میں گاڑ دے۔آ گاہ رہواس کا فیصلہ بہت براہے‘‘۔اسی طرح سورہ زخرف کی آیت نمبر 17میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:''اور جب ان میں سے کسی کو اُس چیز کی خوشخبری دی جائے کہ جس کی اس میں رحمن کے لئے مثال بیان کی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ غم سے بھرا ہوتا ہے ‘‘۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو بیٹیوں کی پیدائش پرغم زدہ ہونے سے منع فرمایا ہے ۔امام احمد اور امام طبرانی رحمھما اللہ نے عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:''بیٹیوں کو ناپسند نہ کرو کیونکہ وہ تو پیارکرنے والی قیمتی چیزیںہیں‘‘۔
بیٹیوں کی پیدائش پر غم کرنے والے لوگ زندگی کے طویل برسوںکے دوران بھی ان سے شفقت کاوہ سلوک نہیں کرتے جس کی وہ مستحق ہوتی ہیںاورعام طور پر ان کی ضروریات کو بھی خندہ پیشانی سے پورا نہیں کیا جاتا۔ یہ رویہ ہراعتبار سے قابل مذمت ہے۔ اہل ایمان کو ہرحال میں بیٹیوں کے ساتھ پیاراورمحبت والا معاملہ رکھنا چاہیے اورکھلے دل سے ان کی ضروریات کو پورا کرنا چاہیے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹیوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے والے باپ کی مختلف انداز میںتحسین فرمائی ہے۔بخاری اور مسلم شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:''جس شخص کو تین بیٹیوں کے ساتھ آزمائش میں ڈالا گیا اور اس نے ان کے ساتھ احسان کیا تو وہ اس کے لیے آگ کے مقابلے میں رکاوٹ ہوںگی‘‘۔ یہ بیٹیاں اپنے نیک باپ کو صرف آگ سے ہی نہیں بچائیں گی بلکہ اس کو جنت میں بھی داخل کروائیں گی ۔اسی طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ادب مفرد اورامام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ نے سنن ابن ماجہ میں ایک اور حدیث کو نقل فرمایا ہے کہ''کوئی شخص ایسا نہیں ہے کہ جس کے ہاںدوبیٹیاں ہوںاور وہ دونوںجب تک اُس کے ساتھ رہیں یاوہ ان کے ساتھ رہے،احسان کرتا رہے تووہ دونوں اس کو جنت میں داخل کروائیں گی‘‘۔
بعض اوقات باپ توبیٹیوں سے حسن سلوک کرتا ہے لیکن مائیں ان کے ساتھ بخل کا مظاہرہ کرتی ہیں۔وہ ماں جو اپنی بیٹیوں کے ساتھ ایثار والا معاملہ کرتی ہے وہ بھی حدیث کے مطابق جنت کی مستحق ٹھہرے گی۔ امام مسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں فرمایا: ''میرے ہاں ایک مسکین عورت اپنی دو بیٹیوں کو اُٹھائے ہوئے آئی، میں نے اسے کھانے کے لیے تین کھجوریں دیں، اس نے دونوں بیٹیوں کو ایک ایک کھجور دے دی اور ایک کھجورکوخود کھانے کے لیے منہ کی طرف اُٹھایا تو دونوں بیٹیوں نے اس سے وہ کھجور مانگ لی تو اس نے وہ کھجور بھی دونوں میں تقسیم کر دی ۔اس عورت کے طور طریقے نے مجھے حیرت زدہ کر دیا۔میں نے اس کے طرز عمل کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا یقیناً اللہ تعالیٰ نے(اس کے اس عمل)کی وجہ سے اس پر جنت کو واجب کر دیا‘‘۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مقام پر بیٹیوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے والے کو قیامت کے روز اپنی معیت اور قربت کی بشارت دی ہے۔امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت انس ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ'' جس شخص نے دو بیٹیوں کی بلوغت کو پہنچنے تک تربیت کی، وہ قیامت کے دن (اس طرح)آئے گا کہ میں اوروہ (اکٹھے ہوں گے)اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیوں کو ملا دیا‘‘۔
بعض لوگ رشتہ کرتے وقت اپنی بیٹیوں کی پسند نا پسند کا خیال نہیں کرتے،انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ نکاح کے وقت جہاں ولی کا ہونا ضروری ہے وہیں عورت کی رائے کا معلوم ہونا بھی ضروری ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں ایسا نکاح منسوخ کر دیاتھا جس میں عورت کی رضا مندی شامل نہیں تھی۔ بعض لوگ تحفے تحائف دیتے وقت بیٹے اور بیٹیوں میں تفریق کر تے ہیں، یہ بھی بیٹی کا استحصال ہے۔ ازروئے شریعت ہدیہ دیتے وقت بیٹے اور بیٹیوں میںمساوات ہونی چاہیے۔ بیٹیوں کے استحصال کا ایک اور انداز ان کو وراثت سے محروم کرنا ہے۔ وراثت اللہ کا حکم ہے اور اس کو حیلے بہانے سے ہڑپ کرنے والے قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں جواب دہ ہوں گے۔ اسلام کی آفاقی تعلیمات کامطالعہ کرنے کے بعد اس بات کو سمجھناچنداں مشکل نہیں کہ جدید قوانین و نظریات کے ذریعے عورت کے حقوق کا تحفظ کرنے کی کوئی بھی کوشش عورت کے استحصال کو نہیں روک سکتی ۔ عورت کا استحصال روکنے کا بہترین اور واحد طریقہ یہی ہے کہ ہم انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کو قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھالیں اور ہر خاص و عام کو اسلام کی تعلیمات سے آگاہ کرنے کی کوشش کریں ۔