تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     02-01-2014

چیختی چلاتی سرخیاں

قوموں کی ترقی اور بہبود کے لیے لازم یہ ہوتا ہے کہ توانائی وہاں صرف ہو‘ جہاں ہونی چاہیے‘ ترجیحات پر۔ جنرل پرویز مشرف کا مقدمہ چلتا رہے مگر کیا ٹی وی اور اخبار میں چیختی ہوئی سرخیاں بھی ضروری ہیں؟ 
پنجابی محاورہ یہ ہے: بلی کے پائوں جلنے لگیں تو وہ اپنے بچے کو پنجوں تلے دبا لیتی ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے یہی کچھ اپنی فوج کے ساتھ کیا ہے۔ سپہ سالار جنرل راحیل شریف کو انہوں نے اس بحث میں گھسیٹنے کی کوشش کی‘ جو ان پر جاری مقدمے کے حوالے سے برپا ہے۔ کیسا خطرناک جملہ ہے: دیکھنا یہ ہوگا کہ مجھے بچانے کے لیے جنرل راحیل کس حد تک جاتے ہیں۔ کیا یہ چیف آف آرمی سٹاف کی ذمہ داری ہے کہ فوج کے سابق سربراہ کا تحفظ کریں؟ 
بیرون ملک پاک فوج نے انہیں پیغام بھیجا تھا کہ وہ پاکستان تشریف نہ لائیں۔ واپسی کے بعد انہیں بھاگ جانے کا مشورہ دیا لیکن ہمیشہ‘ ہرحال میں خود کو جائز قرار دینے والے آدمی نے ان مشوروں پر کان نہ دھرا۔ اتنی‘ پہاڑ ایسی غلطیوں کے باوجود‘ وہ اب بھی خود کو بہت دانا سمجھتے ہیں۔ خود فریبی! آدمی کی تباہی کا آغاز ہوتا ہے تو عقل اس کی سلامت نہیں رہتی۔ خیالات کی وادیوں میں وہ بھٹکتا ہے اور بھٹکتا ہی چلا جاتا ہے۔ 
زندہ رہنے کی جبلت بہت طاقتور ہے۔ خود کو بچانے کی خاطر آدمی کسی بھی حد تک جا سکتا ہے‘ خاص طور سے جنرل مشرف ایسا آدمی‘ جس کی کوئی اخلاقیات نہیں۔ ایک بار فوج نے ان کی مدد کی تھی‘ جب اکتوبر 1999ء میں وزیراعظم نے انہیں برطرف کرنے کی کوشش کی۔ تب وہ اس کے سربراہ تھے۔ نوازشریف 
بے حد نامقبول تھے۔ ستائی گئی حریف سیاسی جماعتیں ان سے انتقام کی آرزو مند تھیں۔ بعض اخبارات ناراض تھے۔ فعال طبقات کی اکثریت بھی۔ سپریم کورٹ نے انہیں تین سال کے بعد ا لیکشن کرانے کی مہلت کے علاوہ دستور میں ترمیم کا اختیار دیا تھا۔ آج اس پر ججوں کو مطعون کیا جاتا ہے۔ یہ بات مگر بھلا دی جاتی ہے کہ رائے عامہ کا اندازِ فکر اس وقت یہی تھا۔ وزیراعظم سے لوگ نالاں تھے‘ جیسے کہ اب ہوتے جا رہے ہیں‘ حالانکہ اب تو وہ زرداری حکومت کی پھیلائی ہوئی خرابیوں سے نمٹنے کی تدابیر میں ہیں۔ اندازِ حکمرانی وہی ہے‘ خاندان کا اقتدار‘ من مانی ہے اور کرپشن بھی مگر پہلے سے کم۔ وزیراعظم کنفیوژن کا شکار تو ہیں کہ حالات ان کے اندازوں سے کہیں زیادہ ناسازگار ہیں۔ عدالت مزاحمت کرتی ہے اور میڈیا بھی۔ دوست ممالک سے کچھ زیادہ مدد نہ مل سکی۔ سیاسی حریف‘ عمران خان‘ سخت جان ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اقتدار کا جتنا عرصہ بھی انہیں نصیب ہو سکے‘ بحرانوں میں گزرے گا۔ ایک سوال بار بار ذہن میں ابھرتا ہے۔ فرض کیجیے‘ پرویز مشرف اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد ریفرنڈم کراتے تو کیا انہیں اکثریت کی تائید حاصل نہ ہوتی؟ پہلی بار شاید یہ ہوتا کہ واقعی ووٹ ڈالے جاتے اور کسی قدر جوش و خروش سے۔ نواب زادہ نصراللہ خان سے لے کر ایم کیو ایم اور اے این پی سے بے نظیر بھٹو تک‘ سبھی شاداں تھے۔ سبھی امکانات کا جائزہ لے رہے تھے۔ اس 
زمانے میں‘ نوازشریف اور ان کا کنبہ جب زنداں میں پڑا تھا۔ محترمہ کلثوم نواز ابھی میدان میں نکلی نہیں تھیں تو نواب زادہ سے کسی اخبار نویس نے پوچھا: نوازشریف کا مستقبل کیا ہے؟ انہوں نے اپنے ساتھ پڑی کرسی کی طرف اشارہ کیا اور کہا: ''یہاں پر‘‘۔ وہ ان لوگوں میں سے ایک تھے‘ جو مستقبل میں جھانک سکتے تھے۔ اناپرست وہ یقینا تھے مگر بڑی سیاسی غلطیوں کا ارتکاب انہوں نے اوائل عمری ہی میں کیا‘ جب انہوں نے ابوالکلام آزاد‘ عطاء اللہ شاہ بخاری اور مولانا حسین احمد مدنی کی بصیرت پہ بھروسہ کیا۔ جب خود اپنے ذہن سے وہ سوچنے لگے تو بعض اوقات ابتلا میں ضرور پڑے مگر عوامی ردعمل سے محفوظ ہی رہے۔ اگرچہ تنظیم سازی میں کمزور تھے مگر جوڑ توڑ کی صلاحیت ان میں بے پناہ تھی اور ذہنی توانائی بھی۔ میثاقِ جمہوریت کو بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف کا کارنامہ قرار دیا جاتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ بڑے میاں نے اس کے لیے راہ ہموار کی۔ اگر وہ زرعی زمینوں کے سوا، اپنی آخری پونجی بیچ کر لندن اور جدّہ میں ان دونوں لیڈروں سے ملاقاتیں نہ کرتے تو ان کے اتحاد کی راہ ہموار نہ ہوتی۔ اس تجربے سے پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی قیادت نے یہ سیکھا کہ ایک دوسرے کی مخالفت میں انہیں حد سے نہ گزر جانا چاہیے۔ جناب آصف علی زرداری جب فوج کو دودھ ینے والا بلا قرار دیتے ہیں تو ایک وقتی جذبہ نہیں۔ اب یہ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی ہے۔ بلاول کی تقاریر پہ مت جایئے۔ ذاتی طور پر اذیت پہچانے کے سوا میاں صاحب کچھ ہی کر گزریں، زرداری صاحب پس پردہ ان کی مدد ہی کرتے رہیں گے۔ مستقبل قریب میں فوج کے براہ راست اقتدار سنبھالنے کا کوئی اندیشہ نہیں۔ چھ برس تک جنرل کیانی نے ایک استاد کی طرح اپنے ساتھیوں کی تربیت کی ہے۔ عسکری قیادت ہی کیا، فوجیوں کی اکثریت پرویز مشرف کے خلاف قانونی کارروائی سے خوش نہیں۔ اب مگر انہوں نے صبر کرنا سیکھ لیا ہے۔ سبھی کو سیکھنا ہو گا۔ میڈیا کو، معزز اور محترم جج صاحبان کو بھی۔ وکلا کی انجمنوں اور اپوزیشن کو بھی۔ جمہوریت اسی کا نام ہے۔ ایک طرزِ حکومت ہی نہیں، ایک طرزِ فکر بھی۔ کبھی اس خیال سے ہنسی آتی ہے کہ جس چیز کو رواداری کہا جاتا ہے، بعض لوگ اسے سیکولرازم کہتے ہیں۔ اس اصطلاح کے پس منظر سے نا آشنا۔ آنکھیں بند کر کے مغربی لہجے میں بات کرنے والے لوگ، جو نہیں جانتے کہ ہر معاشرے کا ایک الگ مزاج ہوتا ہے۔ تمام سماجی اور سیاسی ادارے‘ حتیٰ کہ لغت اور زبان بھی بالآخر اس مزاج کے مطابق ڈھلتے ہیں تو پائیدار اور ثمر خیز ہوتے ہیں۔ ابھی نہیں لیکن آخر کبھی اس ملک کو صدارتی نظام اختیار کرنا ہے۔ بہت سے صوبے بنیں گے‘ عوام کی خوشنودی سے۔ وزراء اعلیٰ جگہ براہ راست منتخب گورنر ہوں گے اور وزیراعظم کی بجائے صدر۔ عام آدمی کو ووٹوں سے بلا واسطہ چنا گیا لیڈر۔ 
تاریخ کا سبق یہ ہے کہ طویل پابندیوں کے بعد میڈیا کو جب آزادی ملتی ہے تو وہ غیر ذمہ داری کا مرتکب ہوتا ہے۔ سکول کے سخت گیر نظام سے نکل کر کالج میں داخل ہونے والے کسی نوجوان کی طرح‘ جسے اب جسمانی سزا نہ ملے گی۔ با ایں ہمہ اب میڈیا کے احتساب کا آغاز ہو چکا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ احتساب منظم ہوتا جائے گا۔ اس ناچیز کے خیال میں‘ جنرل پرویز مشرف کے معاملے کو زیادہ اچھالنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اہم مسائل سے روگردانی کی راہ ہموار ہوتی جائے گی۔ ملک کا مسئلہ امن و امان ہے۔ دہشت گردی کا خاتمہ‘ اچھی پولیس۔ نچلی سطح تک بروقت انصاف فراہم کرنے والی عدالتیں۔ غیر ضروری مقدمات کی جو حوصلہ شکنی کرتی رہیں۔ آئندہ چند برس میں پٹوار کا نظام بدل جائے گا۔ اسی اثنا میں بجلی کی پیداوار بڑھے گی۔ اگر پولیس کو بہتر بنایا جاسکے۔ دو برس میں طالبان کو نمٹا دیا جائے۔ ایف بی آر کی تشکیلِ نو سے ٹیکس وصولی کو پانچ برس میں کم از کم دو گنا کیا جا سکتا ہے۔ کاروباری طبقات کو نقصان پہنچائے بغیر۔ ان کی تعلیم اور تربیت کے ساتھ۔ احساس کی بیداری کے ساتھ۔ 
قوموں کی ترقی اور بہبود کے لیے لازم یہ ہوتا ہے کہ توانائی وہاں صرف ہو‘ جہاں ہونی چاہیے‘ ترجیحات پر۔ جنرل پرویز مشرف کا مقدمہ چلتا رہے مگر کیا ٹی وی اور اخبار میں چیختی ہوئی سرخیاں بھی ضروری ہیں؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved