کچھ بھی ہو جائے پرویز مشرف کے خلاف
آرٹیکل 6میں ٹرائل ضرور ہو گا...پرویز رشید
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا ہے کہ ''کچھ بھی ہو جائے پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل 6کے تحت ٹرائل ضرور ہو گا‘‘اس کے بعد ‘یا اس دوران جو کچھ بھی ہو ا وہ ان کی قسمت پر منحصر ہے کیونکہ ہم حکومت میں ہونے کے باوجود قسمت کے معاملات میں دخل نہیں دے سکتے‘ ماسوائے وزیر اعظم صاحب کے؛ کیونکہ وہ ویسے بھی صاحبِ کرامات آدمی ہیں‘ اور اُوپر سے ابوظہبی کے حکمران بھی آئے ہوئے ہیں اور ان سے ملاقات کے دوران بھی اس موضوع پر ضروربات ہو گی جس کا خوشگوار یا ناگوار کچھ بھی نتیجہ نکل سکتا ہے۔ حالانکہ مشرف صاحب کے دوستوں کو پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس سلسلے میں سب کچھ پہلے ہی طے ہو چکا ہے۔ اور‘ جو باتیں وزیر اعظم صاحب نے ماشاء اللہ طے کر رکھی ہیں‘ اُن میں یہ بھی بطور خاص شامل ہے؛ جبکہ سعودی شہزادگان کو بھی خوش کرنا ہو گا جن کے کھانوں کے ذائقے یاد کر کے اب بھی صاحبِ موصوف انگلیاں چاٹا کرتے ہیں اور ایسے مواقع آئندہ بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں انٹرویو دے رہے تھے۔
نیٹو سپلائی بند کرتے تو دہشت گرد
قرار دیا جاتا...فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا
ہے کہ ''اگر نیٹو سپلائی بند کرتے تو ہمیں دہشت گرد قرار دے دیا جاتا‘‘ اس لیے عمران خاں کو پہلی فرصت میں دہشت گردقرار دیا جائے اور دیگر دہشت گردوں اور طالبان کے علاوہ موصوف کے ساتھ بھی مذاکرات کیے جائیں۔ مولانا سمیع الحق کو مذاکرات سنبھالنے کا ٹاسک دے کر میرے ساتھ بڑی زیادتی کی گئی ہے‘ کیا حکومت کو میں نظر نہیں آتا تھا؟ اور ‘اگر خدانخواستہ حکومت کی بینائی کمزور ہو گئی ہے تو خاکسار کی خدمات حاصل کرے جو انہیں بہترین عینک مہیا کر سکتا ہے؛ کیونکہ سیاست میں آنے سے پہلے دوسرے کئی خان صاحبان کی طرح میں بھی عینکیں اور گھڑیاں ہی بیچا کرتا تھا‘ اس لیے عمدہ عینک کی پہچان خاکسار کے سوا اور کسے ہو سکتی ہے۔ کیا حکومت مجھے مایوس کر کے اُسی کاروبار پر مجبور کرنا چاہتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ ''عمران خاں پر ڈالروں کی بارش ہوئی‘‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ بارش کرنے والوں کو میں نظر ہی نہیں آیا اور ان کی بینائی بھی نہایت کمزور ہے جن کے لیے کوئی اچھا سُرمہ تجویز کر سکتا ہوں۔ کئی سُرمہ فروش بھی میرے واقف ہیں ۔ آپ اگلے روز پشاور میں ایک وفد سے ملاقات کر رہے تھے۔
وزیرستان میں آپریشن نہیں‘ مذاکرات
کر رہے ہیں...چودھری نثار
وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار احمد خان نے کہا ہے کہ ''وزیرستان میں آپریشن نہیں‘ مذاکرات کر رہے ہیں‘‘کیونکہ آپریشن کی تیاری الگ سے ہو رہی ہے جس کی بابت دیگر سیاسی جماعتوں سے مشاورت ہو رہی ہے۔ اگرچہ وزیر اعظم صاحب مشاورت میں وقت ضائع کرنے میں یقین نہیں رکھتے اور زیادہ نازک معاملات پر ٹاس کر لیا کرتے ہیں جبکہ مذاکرات بھی مولانا سمیع الحق صاحب ہی کر رہے ہیں یا ہماری طرح وہ بھی ابھی اس کا پروگرام ہی بنا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''بہت جلد اچھی خبر دیں گے‘‘ اور یہ خبر آپریشن کی بھی ہو سکتی ہے کیونکہ آپریشن اگر کوئی اچھی چیز نہ ہوتی تو سرجن حضرات یہ کام چھوڑ دیتے۔ انہوں نے کہا کہ ''ملک میں کسی نہ کسی نے تماشا لگا رکھا ہے‘‘ حالانکہ یہ کام صرف حکومت ہی کو زیب دیتا ہے اور وہی اسے اِدھر اُدھر کر بھی رہی ہے کیونکہ تماشائیوں کو خوش کرنا بھی ضروری ہے جس طرح وزیر اعظم صاحب امریکہ کو خوش کر رہے ہیں اور میں امریکہ کے خلاف بیان دے دے کر عوام کو خوش کر رہا ہوں۔ لیکن افسوس کہ دونوں میں سے کوئی بھی خوش نہیں ہو رہا ہے۔ آپ اگلے روز راولپنڈی میں پاسپورٹ آفس کے افتتاح کی تقریب میں خطاب کر رہے تھے۔
یوتھ فیسٹیول کے معاملات
ایک اخباری اطلاع کے مطابق پنجاب یوتھ فیسٹیول سیاسی تشہیر کا ذریعہ بن چکا ہے‘ کھلاڑی انعامات سے محروم اور مایوس ہو چکے ہیں۔ صوبائی حکومت کو بیوقوف بنا کر فرضی ٹیمیں تشکیل دے کر کھیلوں سے زیادہ فوٹو سیشن اور سیاسی تقریروں پر توجہ دی جا رہی ہے جبکہ مایوس کھلاڑیوں کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے جس پر سپورٹس حلقوں کی طرف سے اختیارات و قومی وسائل کے بے جا استعمال کی حوصلہ شکنی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یہ تو خیر کوئی راز کی بات نہیں کہ حکومت کی بعض کارگزاریاں صرف اور صرف نمائشی حیثیت ہی رکھتی ہیں جن سے سیاسی فائدہ حاصل کرنا ہی مطلوب ہوتا ہے لیکن اس ضمن میں فنڈز کے بے محابا استعمال کو کبھی بھی بہ نظر تحسین نہیں دیکھا جا سکتا۔ نوجوان اور اُبھرتے ہوئے لیڈر حمزہ شہباز شریف اس فیسٹیول کے انچارج ہیں اور اس کی اشتہار بازی پر بھی بے دریغ خرچ کیا جا رہا ہے اور جس سے کوئی ٹھوس نتیجہ نکلنے کی بھی امید نہیں ہے۔ بہتر ہوتا اگر یہ فنڈز کسی ٹھوس اور حقیقی منصوبے میں استعمال کیے جاتے جس سے عوام کو کوئی فائدہ بھی ہوتا۔ برخوردار کو اس طرف توجہ دینی چاہیے کیونکہ اس سے حکومت کے خلاف منفی نتائج بھی نکل سکتے ہیں ۔
انسائیکلو پیڈیا ادبیاتِ عالم
یہ مبسوط دستاویز جو بڑے سائز کے ایک ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ہے‘ اکادمی ادبیات پاکستان نے شائع کی ہے جسے یاسر جواد نے ایڈٹ کیا ہے اور جو شعراء و ادباء کی سوانحات‘ اساطیری کردار‘ اصنافِ سخن‘ ادبی تحریکات اور نظریات کا احاطہ کرتی ہے اور یہ بات انتہائی تشویش انگیز ہے کہ اتنی اہم اور مفید کتاب کو نیوز پرنٹ پر چھاپا گیا ہے جس سے اس ادارے کی مالی زبوں حالی کا اندازہ ہوتا ہے۔ ذرائع کے مطابق پچھلے سال اس کے بجٹ میں 20فیصد کٹوتی کی گئی اور اس سال یعنی 2013ء میں 30فیصد کٹ لگا دیا گیا جس کی وجہ سے اکیڈیمی کا بہت سا کام متاثر ہو رہا ہے جس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ کم و بیش دو درجن کتابیں جو ''نئے ادب کے معمار‘‘ کے ضمن میں شائع ہونا تھیں‘ تیار پڑی ہیں اور ان کی اشاعت کے لیے فنڈز نہیں ہیں۔ ایک اطلاع کے مطابق ایسے دیگر اداروں کا بھی یہی حال ہے جس میں اُردو سائنس بورڈ‘ مقتدرہ قومی زبان‘ نیشنل بک فائونڈیشن اور اُردو لغت بورڈ وغیرہ شامل ہیں ۔ ایسے نئے ادارے قائم کرنا تو کُجا رہا‘ جو ادارے موجود ہیں کم از کم انہیں تو سکون و آرام سے چلنا دیا جائے۔ یہ بات بطور خاص پریشان کن ہے کہ اکیڈیمی کی طرف سے بیمار‘ معذور اور ضرورت مند ادباء کے لیے جو ماہانہ وظائف مقرر ہیں‘ وہ بھی کماحقہ جاری نہیں رکھے جا رہے۔
آج کا مطلع
دیکھوں وہی تماشا رُت کی روانیوں میں
کالا کنول کِھلا ہو شفاف پانیوں میں