نئے برس کی پہلی صبح دروازے پر دستک دے چکی ہے۔ سورج کی البیلی کرنیں شہر کے بام و در پر سنہری تحریر لکھ رہی ہیں۔ شہر ابھی کچھ جاگا اور کچھ سویا ہوا ہے۔ 2014ء کی پہلی صبح شہر کی خستہ حال بستیوں میں بھی طلوع ہوئی اور پوش علاقوں کے خوشحال گھروں میں بھی اور ایسے وسیع و عریض بنگلوں اور فارم ہائوسز میں بھی جہاں زندگی صرف عیش و نشاط کی تصویر دیکھتی ہے ، جہاں کے مکینوں نے نئے سال کا جشن رات بھر منایا ہوگا۔ اس کے مقابل غربت زدہ آنگنوں میں بسنے والے لوگوں کو خبر بھی نہیں ہوئی کہ ایک اور برس ان کی زندگیوں سے چلا گیا۔ نئے سال کا سورج طلوع ہوا ہے مگر ان کے آنگن میں وہی سال خوردہ مسائل‘ زنگ آلود خواہشیں اور کائی زدہ تمنائیں جوں کی توں موجود ہیں۔ صرف ایک یا دو فیصد طبقہ اشرافیہ کو چھوڑ دیں تو باقی سارے عوام برسوں سے ایک جیسے مسائل بھگت رہی ہے۔ آمدنی سے بڑی ضرورتیں‘ بجلی کی بڑھتی ہوئی لوڈشیڈنگ‘ گیس کا بحران۔۔۔ کہیں کارخانوں کے پہیے جام کرتا ہوا اور کہیں گھروں کے چولھے سرد کرتا ہوا۔کراچی‘ کوئٹہ‘ پشاور‘ فاٹا کے علاقے دہشت گردی اور بد امنی کی لپیٹ میں ہیں‘وطن عزیز کے ان شہروں اورعلاقوں میں کل بھی زندگی مہنگی اور موت ارزاں تھی اور آج بھی وہی صورتِ حال ہے۔
بے روزگاری کی فضا میں مایوس ہوتے ہوئے نوجوان‘ مہنگائی کے ہاتھوں پریشان خواتینِ خانہ‘ ملک کے بڑھتے ہوئے قرضے‘ روپے کی گھٹتی ہوئی قدر‘ بشارت کی آرزو میں ترستی ہوئی سماعتیں‘ خوشحالی کی خواہش میں کڑھتے ہوئے عوام اور دوسری جانب حکمرانوں کے وعدے‘ دلیلیں‘ ارادے‘ عزم اور دعوے۔۔۔۔!
کوئی بچوں کی تعلیم کا خواب دیکھ رہا ہے ،کوئی تعلیم یافتہ بیٹے کی نوکری کا خواب اپنی آنکھوں میں بسائے ہوئے ہے ، کوئی قرض سے فراغت حاصل کرنے کا خواہش مند ہے تو کہیں قرضے کے حصول کی امید ہے۔ کوئی گھر بنانے کا خواب دیکھ رہا ہے تو کوئی گھر بسانے کا۔ کوئی حکومت کرنے کا تو کوئی حکومت گرانے کا۔ غرض جتنی آنکھیں اتنے ہی خواب ، جتنے خواب ہیں اتنی ہی امیدیں دل کی منڈیروں پر بیٹھی ہیں! امید انسان کے دل سے کبھی جدا نہیں ہوتی۔ بدترین حالات میں بھی اچھے دنوں کی امید باقی رہتی ہے۔
خزاں کے زرد ہاتھ میں ہو پیرہن بہار کا
یہ معجزہ بھی اب کے میرے موسموں کو دان ہو
مگر یہ بات بھی یاد رہے کہ خواب عمل کے بغیر ریت پر بنائی ہوئی تصویر کے سوا کچھ بھی نہیں ، اس لیے اس برس اپنے ارادوں کی فہرست میں تحریر کر لیں کہ زندگی میں عمل کو یقینی بنائیں گے۔
کیا آپ اپنے ارادوں‘ اہداف اور مقاصد کو ڈائری پر تحریر کرتے ہیں؟ اگر نہیں تو یقین جانیے ایسا کرنے سے بہت مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ وہ ارادے جو صرف سوچ اور ذہن کی سطح پر موجود ہوں وہ اتنی جلدی عملی صورت میں نہیں اٹھتے۔ اپنے مقاصد کو حقیقت پسندانہ رکھیں۔ ان پر غورو فکرکریں اور پھران کو اپنی ڈائری میں تحریرکریں۔ایک ٹارگٹ کو حاصل کرنے کے لیے وقت کا تعین کریں۔ چھوٹے چھوٹے ٹارگٹ سیٹ کریں‘ جو آپ کو اپنے مقصد کی طرف کامیابی سے لے جائیں۔ اس برس نئے سال کے ارادوں(New Year Resolutions) کی فہرست مرتب ضرور کریں اور ان باتوں کا خیال رکھیں کہ صرف وہی خواب تعبیر میں ڈھلتے ہیں جن کے لیے عملی طور پر کوشش کی جائے اور اس راہ میں رکاوٹ‘ مسائل اور مایوسیوں کا سامنا مستقل مزاج رہ کرکیا جائے۔
اپنے ا رادوں اورمقاصدکو تحریر کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہم سال گزرنے کے بعد اپنا احتساب کر سکیں۔ دیکھیں کہ گزرے برس کے آغاز پر جو فہرست ہم نے مرتب کی تھی اس میں سے کیا حاصل ہوا اور کون سے ارادے محض ارادے ہی رہ گئے۔ 2014ء کے آغاز پر جب میں نے پچھلے برس کی فہرست دیکھی تو احساس ہوا کہ کتنے ہی خواب محض خواب رہ گئے کیونکہ ان کے لیے عملی طور پر میں نے کوئی کوشش ہی نہیں کی اور ا گر کی بھی سہی تو وہ بھی Half heartedly ہی تھی یعنی پوری یکسوئی اور توانائی کے بغیر۔
گئے برس کے ارادوں میں کتنے ہی ایسے مقاصد تھے جو میں وقت کا صحیح استعمال کر کے انہیں عملی صورت میں حاصل کر سکتی تھی یعنی ان کے لیے کسی ایسے ہنر اور سرمائے کی ضرورت نہ تھی جو مجھے حاصل نہیں تھا۔ اپنا احتساب کیا تو اندازہ ہوا کہ وقت کو ضائع کرتے ہوئے زندگی کا ایک قیمتی برس ضائع کردیا۔ وہ قیمتی خزانہ میرے ہاتھ سے چلا گیا جو اب کروڑوں اربوں روپے میں بھی واپس نہیں آ سکتا۔ ہم وقت کو ضائع کرتے ہوئے‘ خود کو ضائع کرتے چلے جاتے ہیں۔ اس برس ارادوں کی فہرست میں صرف یہی بات کافی ہے کہ ہر دن کے چوبیس گھنٹوں کے ہر لمحے کی قدر کرنی ہے ، اس لیے کہ وقت کے زیاں کا حساب ہمیں اگلے جہان اپنے رب کو بھی دینا ہوگا۔وقت کی قدروقیمت جاننے کے لیے یہ پڑھیے:
To realize the value of one year,
Ask a student who failed his or her exams.
To realize the value of one month,
Ask a mother who gave birth to a premature baby.
To realize the value of one week,
Ask an editor of a weekly newspaper.
To realize the value of one day,
Ask a daily labourer who has six kids to feed.
سو اس برس ایک ہی ارادہ کافی ہے کہ ہم وقت ضائع نہیں کریں گے۔