تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     03-01-2014

بجلی کا کیا کریں گے؟

اللہ تعالیٰ نے ہم پاکستانیوں کو‘ دو چیزیں بڑی افراط سے عطا فرمائی ہیں۔ ایک قسمت اور دوسری انتظار۔ انتظار کی طاقت دیر تک ہمارا ساتھ دیتی ہے۔ جبکہ قسمت کے معاملے میں ہم بہت ہی بدقسمت ہیں۔ ایک نہ ایک دن قسمت پر کیا ہوا بھروسہ‘ ہمارا ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔ انتظار کی طاقت سے محروم قومیںجلد جلد اپنے کام کر گزرتی ہیں اور نتیجے میں انہیں طویل عرصے کے لئے زندگی سے لطف اندوز ہونے کے مواقع مل جاتے ہیں۔ دور جانے کی ضرورت نہیں‘ اپنے دو پڑوسیوں ہی کو دیکھ لیں۔ ہم نے قریب قریب ایک ہی زمانے میں آزادی حاصل کی۔ بھارتی قیادت نے قسمت پر بھروسہ کرنے کی بجائے‘ اپنے آپ پر اعتماد کرتے ہوئے‘ اپنی زندگی میں ہی سب کچھ ڈھونڈنے کی تگ و دو کی اور آج وہ امیدوں سے بھری ہوئی زندگی گزار رہے ہیں۔ یعنی انہیں معلوم ہے کہ ان کے اپنے ملک میں اچھی زندگی کے حصول کے مواقع دستیاب ہیں اور باری آنے پر اچھی زندگی کا عرصہ میسر آ جائے گا۔ ان ملکوں میں ایک بھارت ہے اور دوسرا چین ۔ بھارت اور پاکستان کو جڑواں سمجھنا چاہیے۔ دونوں قریباً ساتھ ساتھ اپنے ملک کے مالک بنے۔چین البتہ تھوڑے عرصے بعد آزاد ہوا۔ مگر یہ فرق زیادہ نہیں ہے۔ چین کے عوام بھی اچھی زندگی کے دور میں داخل ہونے تک ‘ اتنی عمر کے ضرور ہوتے ہیں کہ اپنی خوشحالی کا عرصہ کئی عشروں ورنہ برسوں تک ضرور گزارتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایسا نہیں۔ ہم لوگوں نے طے کر رکھا ہے کہ آبادی کے تھوڑے حصے کو مستقل طور پر خوش نصیبی کا مالک بنا دیا جائے اور جو باقی رہ جائیں‘ بدقسمتی پر بھروسہ کر کے ‘ شاندار زندگی گزاریں۔
خوش نصیبوں کا قبضہ گروپ‘ نسل در نسل نہ صرف اپنا قبضہ مستحکم رکھتا ہے بلکہ اس میں اضافہ بھی کرتا رہتا ہے۔ دوسرے ملکوں میں حکومتیں اپنے عوام کو جلد از جلد انتظار کی تکلیف اور کرب سے نکالنے کے لئے دن رات محنت کرتی ہیں۔ ان پر پھبتی کہی جاتی ہے کہ یہ بے صبرے لوگ ہیں۔ قسمت پر بھروسہ نہیں کرتے۔ مگر کیا کیا جائے؟زندگی کی آسائشیں انہی کو جلد ملتی ہیں‘ جو بے صبری سے کام لیں۔ جمے جمائے معاشروں میں بے صبر لوگوں کی بے صبر حکومتیں‘ سارے کام تیز رفتاری سے پایہ تکمیل کو پہنچانے کی کوشش کرتی ہیں۔ نتیجے میں وہاں کے بچے بھی ہوش سنبھالتے ہی خوش قسمتی کو جپھیاں ڈالنا شروع کر دیتے ہیں۔ پسماندہ اور پچھڑی ہوئی قوموں کی حکومتیں‘ اپنے عوام کو جلد ازجلد خوش قسمتی کے انتظار سے بچانے کی تدبیریں کرتی ہیں۔ ایسی قوموں نے قریباً 50 سال پہلے‘ 5سالہ منصوبے بنانا شروع کر دیئے تھے اور عموماً وہ اپنے 5 سالہ منصوبے مکمل کرنے میں کامیاب رہیں۔ ان میں سے بیشتر حکومتیں اب ترقی کے لئے وقت کے پیمانوں کا استعمال چھوڑ کر‘ آزادی کار سے مستفید ہو رہی ہیں اور اب سکہ رائج الوقت یہ ہے کہ کاموں کی تکمیل کے لئے عرصوں اور مدتوں کی حدیں مقرر کئے بغیر‘ انہیں شروع کر دیا جائے اور جتنی دیر میں ہو سکے‘ انہیں مکمل کر کے فائدے اٹھانا شروع کر دیئے جائیں۔ خدا کا شکر ہے کہ ہم جلد باز نہیں۔ ہمیں اپنے خدا پر بھروسہ ہے۔ ہمیں اپنی لاچاری پر بھروسہ ہے اور ہمارے حکمرانوں کو اپنے عوام کی بے بسی پر بھروسہ ہے۔ 
ہماری حکومتوں نے دیکھا دیکھی 5سالہ منصوبے شروع کر دیئے تھے مگر انہیں جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ ہم مدتیں مقرر کر کے خواہ مخواہ مصیبتیں مول لیتے ہیں‘ ہمارے عوام نے غیر ملکی آقائوں سے آزادی حاصل کر لی ہے۔ مزید کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ حکمرانوں کے پاس دولت بے بہا ہے اور اس میں اضافہ کرنے کی رفتار بھی تیز ترین ہے‘ تو حکمران اپنے آپ کو مصیبتوں میں کیوں ڈالیں؟ ہم قسمتوں پر بھروسہ کرنے والے‘ سب سے مزے میں رہتے ہیں۔ نہ کوئی امید‘ نہ اسے پورا کرنے کی خواہش ‘ نہ وقت گزرنے کا افسوس اور نہ محرومیوں پر اضطراب ‘نہ بیزاری۔ ہم سے زیادہ ہمارے حکمران سستی اور کاہلی کے دلدادہ ہیں۔ 
آج کے زمانے میں اگر کوئی حکومت ترقی کا طویل مدتی منصوبہ بناتی ہے‘ تو اس کے بے صبرے عوام مزید وقت کا انتظار نہیں کرتے۔ اسے یہ سمجھنے پر مجبور کر دیتے ہیں کہ اگر سستی کرو گے تو گھر جائو گے۔ہم ایسا نہیں کرتے۔ ہمیں جلد باز اور بے صبری حکومتیں پسند نہیں۔ ایک مرتبہ ووٹ ڈال دیں‘ تو پھر دس پندرہ سال کے لئے بے فکر ہو کے بیٹھ جاتے ہیں اور اگر باامر مجبوری انگڑائیاں لیتے ہوئے ‘ حکومت کو ہٹانے کے بعد‘ ایسے لوگوں کو اقتدار میں لاتے ہیں‘ جو نہ بے آرامی کا جوکھم اٹھائیں اور نہ ہمیں بلاوجہ کام کاج پر مجبور کریں۔ پرویزمشرف بے شک ڈکٹیٹر تھے لیکن بڑے ہی سکون بخش اور بہت آرام دہ واقع ہوئے تھے۔ ان کے تینوں وزرائے خزانہ کو دیکھ لیں۔ ایسے بے تاب اور بے صبر لوگ تھے کہ کام کو جلد از جلد نمٹائے بغیر انہیں چین نہیں آتا تھا۔ تینوں کے تینوں نجی شعبے جیسی تیز رفتاری اور لگن سے کام کرنا جانتے تھے اور تینوں کے تینوں کی‘ جاب مارکیٹ میں مانگ رہتی تھی۔ ان کے پاس خاندانی دولت یا خاندانی اثاثوں کی طاقت نہیں تھی۔ وزارت جاتے ہی وہ عام لوگوں کی صفوں میں لوٹ آتے تھے۔ اس کے برعکس ہمارے روایتی حکمران اپنے عہد وزارت میں چاروں ہاتھوں پیروں سے دولت سمیٹتے تھے اور اقتدار سے محرومی کے بعد بھی یہیں پر مقیم رہ کر دولت سے دولت کمانے میں لگ جاتے تھے اور جو ذاتی صلاحیتوں کی وجہ سے کسی رس بھرے منصب پر فائز ہو جاتا‘ اقتدار سے نکلنے کے بعد وہ ڈاکٹر سلمان شاہ کی طرح ٹی وی چینلز کے کام کا رہ جاتا۔ 
اب ہم آمریت سے نجات پا چکے ہیں۔ ذاتی صلاحیتوں کے بل بوتے پر خوش نصیبی کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔ اب خوش نصیبی پر بھی خاندانی جاہ و جلال کی اجارہ داری ہے ۔ اب محنت کر کے اہلیت حاصل کرنے والے بھی کسی بڑے منصب تک نہیں
پہنچ سکتے۔ رس بھری وزارتیں اور محکموں کی سربراہیاں ‘ حکمران خاندانوں کے بچوں کو دینے والے کھلونے ہیں۔ حالت یہ ہو گئی ہے کہ بچہ پوری طرح ہوش بھی نہیں سنبھالتا کہ کوئی نہ کوئی وزارت یا محکمہ اس کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔ ایسے ماحول میں صرف قسمت پر بھروسہ کر کے‘ صبر سے بیٹھ رہنے والے ہی وقت گزار سکتے ہیں۔ بے صبروں کے لئے ہمارے ملک میں کوئی جگہ نہیں۔ آج ہی میں ایک رپورٹ پڑھ رہا تھا‘ جس میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ چند سالوں کے دوران 27لاکھ 65ہزار 789 افراد نے پاکستان کو ہمیشہ کے لئے خیر باد کہہ دیا ہے اور ان میں 90فیصد افراد ایسے ہیں‘ جو کسی نہ کسی ہنر میں مہارت رکھتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ ڈاکٹرز‘انجینئرز‘ صنعتکار اور کاروبار کا ہنر جاننے والے‘ نہ صرف خوشحال ہوا کرتے بلکہ عزت و احترام کے حقدار بھی ٹھہرائے جاتے تھے۔ مگر آج یہ حالت ہے کہ اچھے بھلے ہنرمند اور خوشحال خاندان کو بھی امیگریشن کا ویزا مل جائے‘ تو سارے محلے میں شادیانے بجائے جاتے ہیں۔ کسی بھی گلی‘ محلے یا سڑک سے گزرتے ہوئے اگر آپ کو بینڈ باجے اور شادیانے بجتے ہوئے نظر آئیں اور نوجوان بھنگڑے ڈال رہے ہوں‘ توضروری نہیں کہ یہ شادی بیاہ کا جشن ہو۔ بلکہ ہو سکتا ہے محلے کے کسی عزت دار خاندان کا امیگریشن ویزا لگ گیا ہو۔ میں نے دیکھا ہے کہ جب کوئی ملازمت کے لئے ملک سے باہر جاتا تھا‘ تو اہل محلہ غمزدہ اور دکھی کھڑے ہوتے اور گھر کی خواتین بین کر رہی ہوتیں۔ وطن سے رخصت ہونے کے یہ دو طریقے ہی ظاہر کرتے ہیں کہ پہلے ہم کیا تھے اور اب کیا ہو گئے؟ جب ہم کسی کے وطن چھوڑنے پر رویا کرتے تھے‘ تب وزیرخزانہ ڈاکٹر محبوب الحق تھے اور اب وطن چھوڑنے والوں کے محلے میں شادیانے بجتے ہیں‘ تواس کا سہرا آج کے وزیرخزانہ جناب اسحق ڈار کے سر ہے۔ میں فرضی کہانیاں نہیں لکھ رہا۔ آج ہی''وائس آف امریکہ‘‘ نے ناظم آباد کراچی کے ایک رہائشی شجاع الحسینی کے خاندان کے ترک وطن کے جشن کا حوالہ دیا ہے۔یہ پورا خاندان ایک اجنبی دنیا میں جانے پر خوش تھا اور اسے رخصت کرنے والے اس بات پر غمزدہ تھے کہ ابھی ان کی باری کیوں نہیں آئی؟ادھر ہمارے وزیرخزانہ نے خوشخبری سنائی ہے کہ 2030ء تک 88ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جائے گی۔گویا 16سال کے بعد ہمیں بغیرکسی خلل کے بجلی مل پائے گی۔مگر 16سال کے بعد ہمارے ملک میں بجلی کا کوئی مکینک دستیاب ہو جائے گا؟اور جو غیر ملکی ٹیکنیشنز‘ حکمران خاندانوں کے محلات میں بجلی کا کام کرنے کے لئے موجود ہوں گے‘ ان کی خدمات سے کوئی عام شہری فائدہ اٹھا سکے گا؟ بجلی کی پیداوار تو بہت زیادہ ہو جائے گی لیکن وائرنگ کرنے اور خرابیاں دور کرنے والے الیکٹریشنز کہاں ملیں گے؟لوگ بجلی کا استعمال ترک کرچکے ہوں گے اور ڈار صاحب کی پیدا کردہ ہزاروں میگاواٹ بجلی‘ ملک کے سارے قبرستانوں کو روشن کرنے کے بعد بھی ہمارے کسی کام کی نہیں رہے گی۔جب کارخانوں‘ فیکٹریوں اور گھروں میں بجلی لگانے اور وائرنگ ٹھیک کرنے والے کاریگر ہی ملک میں نہیں ہوں گے‘ تو ہم بجلی کا کیا کریں گے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved