تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     03-01-2014

یومِ حساب

کتنے لوگ ہیں مہلت کو جو نعمت سمجھ رہے ہیں‘ حالانکہ پرویز مشرف کی طرح ان کا بھی یومِ حساب آ پہنچا ہے۔ 
بیشتر لوگوں کا تاثر یہ تھا کہ جنرل نے ڈرامہ کیا۔ ہسپتال کے پڑوس میں‘ ایک باخبر دوست سے رابطہ کیا۔ بہترین ذریعہ وہ ہوتا ہے‘ جو موقع پہ موجود ہو اور صداقت شعار۔ پس منظر سے روشناس۔ 
بہت دیر طالب علم سوچتا رہا۔ وقائع نگاروں کو دیکھنا چاہیے کہ اطلاع کس نے دی اور فیصلہ کس نے صادر کیا۔ بتایا گیا: متعلقہ پولیس افسر نے چودھری نثار علی خان کو مطلع کیا۔ اگر یہ اطلاع درست ہے تو انہی نے فیصلہ کیا اور امکان ہے کہ وزیراعظم کے ساتھ مشورے کے بعد یا انہی کے حکم پر۔ ڈاکٹر سے اس ناچیز کے دوست کی بات ہوئی تھی‘ جس نے جنرل کا معائنہ کیا۔ معالج کا تبصرہ یہ تھا کہ طبیعت ناساز ہے۔ فی الحال متعین کرنا مشکل ہے کہ نوعیت کیا ہے۔ طبی رپورٹ مرتب ہونے کے بعد ماہرین کا بورڈ فیصلہ کرے گا۔ پھر طے ہوگا کہ جنرل کو ہسپتال میں رکھا جائے گا تو کب تک۔ بیرون ملک علاج کی ضرورت ہے بھی یا قطعی نہیں۔ ٹیلی ویژن پہ اس وقت مشاعرہ گرم تھا۔ طرح طرح کے متضاد تبصرے اور پورے وثوق کے ساتھ۔ ''مستند ہے میرا فرمایا ہوا‘‘۔ 
وزیر دفاع خواجہ آصف کا فرمان یہ ہے کہ اب تک عسکری قیادت نے دخل دیا ہی نہیں اور اندیشہ بھی نہیں۔ یہ بھی فرمایا کہ وہ یہ بات یقین اور دعوے (Authority) سے کہتے ہیں۔ عالمی طاقتوں کا کردار؟ آئندہ ہفتے سعودی عرب کے وزیر خارجہ کوئی پیغام لائیں گے؟ قانونی نکات کی وضاحت کے علاوہ کہ ان کا میدان ہے‘ جناب ایس ایم ظفر نے وضاحت کی: معلومات کی بنیاد پر میں عرض کرتا ہوں کہ جنرل سمجھوتے کے تحت صدارت سے دستبردار ہوا اور بیرون ملک گیا تھا۔ اب وہ مقبول ہیں اور نہ طاقتور مگر ضمانت دینے والے ممالک کیا یکسر لاتعلق ہو رہیں گے؟ کیا وہ فوج اور جنرل کے حامیوں بالخصوص کراچی میں جنم لینے والے ممکنہ ردعمل‘ قاف لیگ کے حامیوں اور ان پاکستانیوں کو بھلا دیں گے‘ جن کے نزدیک مسائل درحقیقت اور ہیں؟ دہشت گردی‘ بجلی اور گیس کا قحط‘ گرانی اور بے روزگاری‘ امن و امان‘ معیشت‘ ٹیکس وصولی‘ سیاسی استحکام۔ 
جنرل نے زوردار وکلاء چنے اور وہ پُرعزم دکھائی دیئے؛ اگرچہ میرے محترم دوست اکرم شیخ نے کم زورِ بیاں کا مظاہرہ نہ کیا۔ دوسری طرف بھی ایک ذاتی دوست ہیں‘ احمد رضا قصوری‘ جنہیں ٹی وی کا ایک مبصر مسلسل خورشید قصوری کہتا رہا۔ پرسوں اس نکتے پر وہ زور دیتے رہے کہ ہر برادری اپنے فرزند کے لیے بروئے کار آتی ہے۔ اخبار نویس‘ پولیس افسر‘ سیاستدان اور وردی والے۔ صحافی قلم اور کیمرے سے ہنگامہ اٹھاتے ہیں‘ وکلاء طاقت لسانی اور قانون کی تشریح سے‘ فوج بندوق سے۔ 
کئی بار اس راہ سے 'بارود‘ ملا‘ جنرل کو جہاں سے گزرنا اور عدالت جانا تھا۔ نسل پرست صحافی نے نسل پرست لیڈر کو اُکسایا: اسلام آباد میں آپ کی رٹ ہی نہیں۔ کوئٹہ میں ہر بم پھٹ جاتا ہے‘ دارالحکومت میں ہر دفعہ ناکارہ‘ ہر بار ٹھس ہو جاتا ہے۔ سیاستدان نے یہ کہا: جی ہاں‘ بارود کی بجائے دال مگر اس مؤقف کو بے بنیاد کہا کہ خفیہ ادارے سازش کے مرتکب ہیں۔ 
جس نے جو کچھ بھی بویا وہ اسے کاٹنا ہوتا ہے۔ اپنے کیے کی سزا جنرل کو بھگتنا ہوگی مگر دوسرے لوگ؟ فیلڈ مارشل ایوب خاں کے دستِ راست ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی‘ جنرل محمد ضیاء الحق کے لاڈلے شریف خاندان اور ہر مارشل لاء کی حمایت کرنے والے چودھری؟ ان کے علاوہ جنرلوں اور بیرونی طاقتوں سے سازباز کرنے والے میڈیا گروپ اور کمزوری کا مظاہرہ کرنے والے معزز جج صاحبان؟ کیا ان کے بارے میں بات نہ کی جائے گی۔ عدالت سے درخواست نہ کی جائے گی کہ ان پر بھی فیصلہ صادر کرے۔ 
تجزیہ کرنے کے لیے محبت اور نفرت سے کچھ نہ کچھ تو اوپر اٹھنا ہی پڑتا ہے۔ ایس ایم ظفر کے علاوہ کوئی اور بھی ہوتا۔ قائداعظم پر قاتلانہ حملہ ہوا تو ممبئی کے غیر مسلم مجسٹریٹ نے کہا تھا: قانونی تقاضا اگر نہ ہوتا تو میں گواہ بھی طلب نہ کرتا۔ مسٹر جناح کا اپنا قول ہی کافی ہے۔ چند ہی لوگ پائے جو افراد نہیں‘ معاملے پر رائے دیتے ہیں۔ سردار شیر باز خان مزاری‘ بڑی حد تک جنرل کیانی اور ڈاکٹر شعیب سڈل بھی۔ اگر کسی کو عصبیت سے تقریباً پوری طرح آزاد پایا تو وہ ہمارے عصر کا درویش ہے۔ یہ پیغمبرانہ وصف ہے اور ان پر سچا ایمان رکھنے والوں کا ''کسی قوم کی دشمنی تمہیں زیادتی پر آمادہ نہ کرے‘‘۔ کوشش تو بہرحال کی جا سکتی ہے۔ کج بحثی کے ہنگام استاد گرامی خاموش ہو جاتے اور کچھ دیر میں رائے دیتے‘ جنرل کیانی کو بات چبھتی ہے تو وہ یہ کہتے ہیں: میری بات نہ مانیے مگر سن تو لیجیے۔ 
دل کا دورہ ا چانک نہیں پڑا۔ صبح سے جنرل کی طبیعت بتدریج ناساز ہوتی گئی۔ گزشتہ دنوں ٹیلی ویژن پر جب بھی وہ نظر آئے‘ دبائو کا شکار نظر آئے۔ سامنے کی بات ہے۔ قرض چکانے پر تلے ہوئے وزیراعظم اور ان کا قبیلہ‘ جو عربوں اور امریکیوں کی سفارش خوش دلی سے تسلیم نہ کریں گے بلکہ مجبوراً۔ جنرل نے انہیں معاف کردیا تھا مگر وہ نہ کرنا چاہیں گے۔ نوازشریف نامقبول ہو جانے کے باوجود ایک بڑی پارٹی کے لیڈر تھے۔ اندیشہ تھا کہ پھر سے ابھر آئیں گے اور وہ ابھرے۔ مشرف اپنی اننگ کھیل چکے۔ اب ان سے کیا خطرہ؟ ہاں! ایک اصول ان کے خلاف جاتا ہے‘ اور پوری طرح... قانون اور آئین کی بالاتری کا سوال۔ 
تو پھر معاملے کو اس طرح کیوں نہ دیکھا جائے۔ مقدمہ عدالت کی امانت ہے۔ دونوں طرف سے دبائو ختم ہونا چاہیے۔ جنرل کے حامی اور مخالف یکساں تحمل کا مظاہرہ کریں‘ میڈیا بھی۔ جنرل کی صحت پر معالج فیصلہ کریں‘ مقدمے پر عدالت۔ حالات ایسے کہ اعتدال اور انصاف کی امید کی جا سکتی ہے معزز جج حضرات ایسے نہیں کہ ان کے بارے میں کوئی اندیشہ پالے۔ اپیل کا حق ہوگا اور حسنِ نیت کے ساتھ فیصلے پر تبصرے کا حق بھی۔ 
سامنے کی بات یہ ہے کہ نفسیاتی دبائو علالت کا سبب ہے۔ انتقام کا خوف‘ والدہ کی بیماری‘ حامیوں کی بے نیازی‘ میڈیا کا جارحانہ طرزِ عمل۔ انصاف ہونے دو‘ اللہ کے بندو‘ انصاف ہونے دو۔ 
اٹھائے کچھ ورق لالے نے‘ کچھ نرگس نے‘ کچھ گل نے 
چمن میں ہر طرف بکھری پڑی ہے داستاں میری 
ناچیز تبصرے سنتا رہا۔ ڈرتا رہا کہ ٹی وی والے مہربانی سے محفوظ رکھیں۔ ان کا بہت بہت شکریہ کہ شام آٹھ بجے تک مہلت دی۔ زیادہ تر تجزیوں کا لہجہ یہ تھا ''پہلے ہی کہہ دیا تھا‘‘۔ پاکستان کے ایک شیخ الاسلام کے بارے میں ایک معتبر طالب علم نے کہا تھا: اس کا انداز یہ ہے: پہلے تو مجھے ولی اللہ مانو‘ پھر تم سے بات کروں گا۔ دانشوری کا گھمنڈ۔ خدا کی پناہ‘ خدا کی پناہ۔ 
بحرانوں میں دانائی کی ضرورت اور بھی زیادہ ہوتی ہے مگر افسوس کہ گروہ کے گروہ ہیجان کا شکار ہے۔ عام آدمی جانتا ہے اور خوب جانتا ہے کہ کہاں کہاں زخم اندمال کے منتظر ہیں۔ افسوس کہ لیڈروں اور دانشوروں کی اکثریت تعصب کے علم ہی لہراتی ہے۔ آوے کا آوا ہی۔ بدقسمت ہے‘ وہ قوم جس پر ایسے لوگ مسلط کر دیئے جائیں۔ شامتِ اعمال۔ خوش بختی یہ ہوگی کہ سوچنے والے اپنے ذہن سے سوچیں۔ خود اپنی بصیرت بروئے کار لائیں۔ ناصحوں سے نجات پائیں۔ 
کبھی اپنی آنکھ سے زندگی پہ نظر نہ کی 
وہی زاویے کہ جو عام تھے مجھے کھا گئے 
اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان تاریکی میں پھر چمک اٹھا ہے: کوئی اس دنیا سے جائے گا نہیں‘ جب تک اس کا ظاہر و باطن آشکار نہ ہوجائے۔ سبھی قہرمان زد میں ہیں‘ سب کے سب۔ 
تری رسوائی کے خونِ شہدا در پے ہے 
دامنِ یار خدا ڈھانپ لے‘ پردہ ترا 
چودہ سو برس ہوتے ہیں‘ آسمانوں سے ایک کلمہ انسانوں کے لیے اتارا گیا۔ ''موتو قبل ان تموتمو‘‘۔ مرنے سے پہلے ہی مر جائو۔ اوّل خود کو مسافر نے ملامت کی‘ پھر یہ سوچا۔ گزری ہوئی صدیوں میں کتنے لوگوں نے ان الفاظ پر غور کیا ہوگا۔ قرآن کریم کی اس چمکتی ہوئی آیت پر۔
کتنے لوگ ہیں مہلت کو جو نعمت سمجھ رہے ہیں‘ حالانکہ پرویز مشرف کی طرح ان کا بھی یومِ حساب آ پہنچا ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved