ادبی بیٹھک میں احمد ندیم قاسمی کی97ویں سالگرہ میں ،عہدِ ندیم میں زندہ رہنے کو خوش قسمتی تصور کرنے والے دو چار ہی تھے۔ندیم صاحب کی بیٹی ڈاکٹر ناہید قاسمی دل گرفتہ تھیں کہ ان کے والد(احمد ندیم قاسمی) نے وطن کے لئے یادگار شاعری تخلیق کی مگر آج اُسی وطن میں اگر ان کی سالگرہ کے لئے ہال بہت پہلے بُک کرایا جاتا ہے تو تقریب سے تین روز قبل الحمرا سے فون آجاتا ہے کہ اس ہال میں تو کوئی موسیقی کا پروگرام ہو رہاہے۔اعجاز رضوی نظامت کرتے ہوئے بیان کر رہے تھے کہ ہم نے عطاء الحق قاسمی سے بات کی تو انہوں نے فرمایا : '' میں الحمرا کا چیئرمین ہوں لہٰذا ہال بک کرنے کی ذمہ داری میری نہیں۔‘‘ احمد ندیم قاسمی کی سالگرہ کا یہ پروگرام جب شروع ہونے والا تھا تو اس وقت قریبی بڑے ہال میں ایک الگ پروگرام ریکارڈ کیاجارہا تھا جبکہ منیر نیازی کو اپنے قبیلے کا سردار کہنے والے دبنگ کالم نگار ڈاکٹر اجمل نیازی سالگرہ کا پروگرام شروع ہونے سے کہیں پہلے ادبی بیٹھک میں آ بیٹھے تھے۔امجد اسلام امجد قدرے تاخیر سے تشریف لائے ۔ ناہید قاسمی کی آزردگی بجا تھی کہ ان کے والد کے نام سے ابھی تک کوئی سڑک یا ہال منسوب نہیں ہوا۔ اعجاز رضوی بتا رہے تھے ہم نے سب شرکاء کو ہال نمبر 3کا بتایا تھا سو، بہت سے لوگ اوپر کے ہال میں جا بیٹھے ہیں جہاں کوئی فلم چل رہی ہے۔ نجیب احمد اور نعمان منظور تقریب کے میزبان تھے۔صدارت ناہید قاسمی کی تھی۔ ان کے ہمراہ مہمانوں میں اجمل نیازی ،فرحت پروین اور کچھ دیر بعد امجد اسلام امجد براجمان تھے۔ نعمان منطور،
نوید صادق، احسان الحق مظہر، امجد طفیل اورڈاکٹر غافر شہزاد نے بھی قاسمی صاحب کے فن و شخصیت پر تفصیلی اظہارِ خیال کیا۔میں سوچ رہا تھا کہ آج کے کئی ممتاز ادیبوں شاعروں کو موجودہ مقام عطا کرنے میں جناب احمد ندیم قاسمی کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیںکہ انہوں نے ایک نسل کی ادبی تربیت کی مگر ان کے ارد گرد دکھائی دینے والے تقریب میں کہیں نظر نہیں آئے۔ویسے تو قاسمی صاحب کی زندگی ہی میں ان کے اہم ساتھی اپنے گروپ بنا بیٹھے تھے مگر پھر بھی سالگرہ میں سبھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے کہ احمد ندیم قاسمی کی زندگی میں ان کی سالگرہ کا جشن ایک ادبی تہوار بن گیا تھا۔دور دور سے اہل قلم اس میں شریک ہوا کرتے تھے۔اس وقت احمد ندیم قاسمی کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے امجد اسلام امجد،عطاء الحق قاسمی،ڈاکٹر اجمل نیازی ،خالد احمد،نجیب احمدکے علاوہ پاکستان کے کئی ممتاز شاعر ادیب ہوتے تھے۔
احمد ندیم قاسمی کی وفات سے قبل عطا ء الحق قاسمی رسالہ 'معاصر ‘ نکال کر باقاعدہ دھڑا قائم کر چکے تھے۔امجد اسلام امجد ان سے الگ دو چار دوستوں کے ساتھ تھے۔خالد احمد ادبی جریدہ 'بیاض ‘شائع کر رہے تھے۔ان کے ارد گرد نوجوان شعراء کا جمگھٹا ہوتا تھا۔ احمد ندیم قاسمی کی وفات کے بعد ان کے تمام چاہنے والوں کو عطا ء الحق قاسمی اکٹھا کر سکتے تھے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ عطاء الحق قاسمی صاحب میں وہ ساری خوبیاں موجود ہیں جو دوستوں کو ایک لڑی میں پر وسکتی تھیں مگر نجانے کیوں ایسا نہ ہوسکا ۔عطاء الحق قاسمی یاروں کے یار سمجھے جاتے ہیںمگر اب کئی دوست ان سے خفا بھی ہیں۔یہ تو تازہ ترین ادبی صورتحال ہے مگر ہم قدرے ماضی کی بات کر رہے تھے۔
ہم جب لاہور آئے تو ادبی سکرین پر دو گروپ نمایاں تھے، لیکن اسی گروپ بندی میں سب سے الگ ایک ''ہمہ وقتی ‘‘ شاعر منیر نیازی بھی تھے جو کسی حد تک تن تنہا اپنے حریف ادبی گروپوں سے چومکھی لڑائی لڑ رہے تھے۔ وہ اپنے انٹرویو میں ٹھوک بجا کر اپنے خیالات کا اظہار کرتے۔ ایک بار ریڈیو کے مشاعرے میں ان کے سبھی مخالف شعراء موجود تھے، سبھی نے ایکا کر لیا کہ منیر نیازی کسی کو داد نہیں دیتے آج منیر نیازی کو بھی کوئی داد نہ دے۔ مشاعرے میں جب ان کی باری آئی تو ایک مکمل چُپ کا عالم تھا ۔ چند شعراء محض اشاروں سے داد دے رہے تھے۔ایسے میں منیر نیازی شعر بھی
پڑھتے اور اختتام پر خود ہی واہ واہ بھی کرتے۔اس پر سبھی ہنس دئیے اور پھر پروڈیوسر کی مداخلت پر باقاعدہ داد دینے لگے۔منیر نیازی ایسی ہی دسمبر کی ایک شام ہمیشہ کے لیے لاہور اور اپنے چاہنے والوں سے جدا ہو گئے۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کوٹ رادھا کشن میں سردار طفیل احمد خاں کے صاحبزادوں نے ایک مشاعرے کا اہتمام کیا تھا ۔لاہور اور گردو نواح کے شعراء مدعو تھے۔ لاہور سے شعرا ء کی کوچ شام چھ بجے ناصر باغ سے روانہ ہونا تھی۔ فرحت شاہ قافلہ سالار تھے، فرحت نے فون کیا ،نیازی صاحب آپ تیار رہیں ہم آ رہے ہیں۔ منیر نیازی صاحب نے بتایا کچھ طبیعت ناساز ہے پھر وہاں موجود شاعرہ عمرانہ مشتاق مانی نے کہا کہ ٹمپریچر تو ہے آپ چلیں میں نیازی صاحب کو اپنی گاڑی میں لانے کی کوشش کرتی ہوں، شعراء کی کوچ نہر پر چل رہی تھی۔ہمیں ٹھوکر نیاز بیگ ٹھہر کر انتظار کرنا تھا۔معلوم ہوا عمرانہ اکیلی آرہی ہیں ،منیر نیازی نے معذرت کر لی ہے۔ہمیں کیا خبر تھی کہ انہوں نے مشاعروں سے مکمل معذرت کر لی ہے۔ورنہ اس رات وہ مشاعرہ نہ ہوتا۔مشاعرے کی صدارت اِس خاکسار کو سونپی گئی۔ میرے لئے یہ ایک سعادت تھی۔ مشاعرہ صبح تین بجے ختم ہوا،ہم پانچ بجے گھر پہنچے۔ شام کو یہ المناک خبر سنی کہ منیر نیازی لاہور سُونا کر گئے ہیں۔ منیر نیازی کے جنازے
میں ایک جم غفیر امڈا ہو ا تھا۔ وہ ایک ایسے شاعر تھے کہ تقریباً ہر کالم نگار نے ان کی وفات پر کالم لکھا اور انھیں ایک خوبصورت اور نرالا شاعر قرار دیا۔ ان کے اشعار زباں زدِعام تھے۔واقعتاً وہ ایک ایسے شاعر تھے جو سر سے پائوں تک شاعر تھے۔ان کا مزاج بھی شاعرانہ تھا۔ ان کی شاعری، گفتگو، جملے،چٹکلے شاید ہی فراموش کیے جا سکیں۔وہ ایک نازک طبع ،حساس ، غیرت مند اوراندر باہر سے یکساں خوبصورت شخص تھے۔انہوں نے لاہور جیسے شہر میں بغیر لابی اور ادبی گروپنگ کے ،زندگی بسر کردی۔وہ صاحبِ کمال شاعر ہی نہیں صاحب ِ جمال شخص تھے۔انہیں چالاک، مکار ،منافق، اور ریا کار لوگ ناپسند تھے۔یہی سبب ہے کہ وہ ایسے لوگوں کے بارے میں بات کرتے وقت کسی مصلحت کا شکار نہ ہوتے۔بعض دوست انہیں '' اینگری اولڈ مین‘‘ بھی کہتے تھے لیکن وہ تعصبات سے بالا ترتھے۔ان کے جملے بھی ان کی طرح مشہور ہوچکے تھے۔ ایک ہم عصر شاعر ے بارے میں وہ کچھ یوں طنز کرتے: ''ہاں وہ ایک برگد ہے جس کے نیچے گدھے بندھے ہوئے ہیں‘‘۔ ایک صحافی اور ادیب کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ '' یہ وہ کیچوا ہے جس نے سانپ کی وردی پہن رکھی ہے۔‘‘ ایک خاتون شاعر ہ کے بارے میں ان کا تاثر تھا کہ '' وہ عورت نہیں ہے میں تو اس سے اپنی بیگم کا پردہ کراتا ہوں۔‘‘وہ اردواور پنجابی دونوں زبانوں کے شاندار شاعر تھے۔دسمبر جب بھی آیامنیر نیازی بے طرح یاد آئے۔ سچ ہے:
ایسے کہاں سے لائیں کہ اُن سا کہیں جسے