کھڑکی سے میں نے ایک بار پھر باہر جھانکا۔دور، بہت دور میری ماں زمین پر گھٹنے ٹیکے بیٹھی تھی۔یہ زمین کا وہی ٹکڑا تھا، جہاں اس کے ماں باپ اور دونوں بہنیں دفن تھیں ۔ آج کل وہاں وہ کچھ زیادہ ہی جانے لگی تھی لیکن اس جیسی نفیس خاتون کا یوں زمین پر بیٹھنااور وہ بھی اس وقت ، جب سورج سوا نیزے پر تھا؟دھوپ سے اسے سخت نفرت تھی ۔ہمارے خطے میں موسمِ گرما خونخوار درندے جیسا بے رحم اور شیطان کی آنت جیسا طویل ہوتاہے ۔ مجھے اچھی طرح یاد تھا کہ بارہ برس قبل ایک بار شدیدبخار میں اُسے اپنی موت کا یقین ہوگیا تھا۔ جب اس پر ہذیان طاری ہوا تو زندگی میں پہلی بار اس نے مجھ سے ایک فرمائش کی تھی ۔ کہا کہ اس کی قبر پر میں پیپل کا ایک پودا لگائوں ، جو دھوپ کو اس کی ابدی نیند میں مخل ہونے سے روکے ۔اندھیرے کے سوا میں نے اسے کبھی کسی چیز سے خوفزدہ اور دھوپ کے علاوہ کسی چیز سے نفرت کرتے نہ دیکھا تھا۔آج وہ تپتی دوپہر میں گرد آلود زمین پر بیٹھی تھی ۔بڑھاپے نے اس کے سارے کس بل نکال دیے تھے ۔ لیکن ایک گھنٹے سے وہاں وہ کر کیا رہی ہے ؟میرا تجسس بڑھتا جا رہا تھا۔ بالآخر وہ اٹھی اور بچی کھچی بینائی کے سہارے واپس لوٹنے لگی۔ پھر ٹھوکر کھا کے گرتے گرتے بچی ۔ میرے دل میں رحم کی لہر اٹھی لیکن میں ساکت رہا۔ وہ کبھی ایسی لاچار اور بے بس نہیں تھی ۔''بایونک آنکھ‘‘ ڈاکٹر ہدایت اللہ کی آواز میرے کانوں میںگونجی اور پھر ایک طویل قہقہہ ۔
ہدایت اللہ میرا دور کا رشتے دار تھا۔ آنکھ کے معاملے میں دنیا کا بہترین معالج۔ پھرایک دن سب چھوڑ چھاڑ کے نیویارک سے ایسے لوٹا جیسے قیدی جیل سے فرار ہوتے ہیں ۔اس عمر میں اب وہ سنکی ہوتا جا رہاتھا۔ایک آنکھ کا چراغ مکمل طور پر گُل ہونے کے بعد جب میری ماں کی دوسری آنکھ بھی بجھنے لگی تو میں ہدایت اللہ کے پاس پہنچا ۔ اس ملاقات کے مناظر اب تک میری آنکھوں میں تھے ۔ ''مرض لا علا ج ہے‘‘اس نے کہا تھا۔ پھر وہ زورسے ہنسا۔ ماںکا چہرہ ایک لمحے کے لیے زرد ہو گیا لیکن پھر خاموشی سے وہ اُٹھی اور کمرے سے باہر چلی گئی ۔ بوڑھا ہدایت اللہ اب سگار سلگائے کچھ گنگنا رہا تھا ۔ اپنی دانست میں جیسے وہ مجھے رخصت کر چکا تھا۔ماں سے میری محبت نے مجھے بیٹھے رہنے پر مجبور کر رکھا تھا۔ ''سٹیم سیل (Stem Cell)سے نئی آنکھ بنوالو ‘‘ اچانک اس نے کہا ۔''سٹیم سیل جسم کا وہ خلیہ ہے ، جو کسی بھی عضو کو نئے سرے سے تشکیل دے سکتاہے ۔ پھر حسبِ عادت وہ تھوڑ ا ساہنسا'' یا مشینی آنکھ ، جو کیمرے کی مدد سے دماغ کو برقی سگنل بھیجتی رہے ‘‘پھر وہ ہنستا رہا۔ ''ڈاکٹر‘‘میں گڑگڑایا''کہاں اور کیسے ؟‘‘اُس نے آنکھوں سے پانی صاف کیا اور میرے کان میں بولا ''پچاس لاکھ‘‘میرا دماغ جیسے سن ہو گیا ۔ پچاس لاکھ کا مطلب تھا کہ میں اپنی آدھی جائیداد بیچ ڈالتا۔''سنو‘‘ڈاکٹر نے اسی بے رحمی سے کہا '' مجھے معلوم ہے کہ تم ماں سے محبت کرتے ہولیکن روپے سے تمہیں عشق ہے۔ میں تمہاری رگ رگ سے واقف ہوں ‘‘
میں خاموشی سے باہر نکل آیا۔ ماں بت بنی بیٹھی تھی ۔ مجھے معلوم تھاکہ وہ سب سن چکی ہے ۔ اس کا چہرہ پتھر کی طرح سخت تھا ۔ پھر پورے رستے ہم نے کوئی بات نہ کی۔ میں جانتا تھا کہ اندھیرے سے شدید خوف کے باوجود وہ کبھی مجھ سے التجا نہ کرے گی ۔ اسے کبھی روتے گڑگڑاتے نہ دیکھا گیا تھا۔ تب بھی نہیں ، جب دوسری جنگِ عظیم میں میرا باپ لا پتہ ہو گیا تھا۔میں نے سر جھٹکا اور ماں کوگھر میں داخل ہوتے دیکھنے لگا۔پھر ایک کھوجی کی طرح میں اُس قطعۂ زمین کی طرف بڑھا۔ وہی ہوا ، جس کا مجھے اندیشہ تھا۔ نانی اماں کی قبر سے کچھ فاصلے پر ایک پیپل کا پودا...میرا دماغ بھک سے اُڑ گیا۔ تو خاموشی سے وہ موت کی تیاری کر رہی تھی؟ معلوم نہیں ، میں کتنی دیر وہاں بیٹھا رہا اور کتنا رویا۔ ہاں اُس شب جب میں گھر داخل ہوا تو میرے ہاتھ میں ٹکڑوں میں منقسم پیپل کا ایک پودا تھا ۔ جب بیٹھی ہوئی آواز میں ماں کو میں نے صبح سویرے تیار رہنے کا کہا تو ایک آنسو اُس کی دائیں آنکھ سے بہہ نکلا تھا لیکن شاید یہ میراوہم ہی ہو۔ وہ کوئی عام خاتون تونہیں ۔
پسِ تحریر: کچھ دلچسپ موضوعات پر بحث چھڑی ہے ۔ ان میں سے ایک ریاست کا مذہبی یا سیکولر ہونا ہے ۔میری عاجز رائے
میں مذہب ٹیکس اکٹھا کرنے سے روکتا ہے اور نہ سیکولر ازم توانائی بحران کا حل ہے ۔ ترقی کے لیے حکومت اور عوام، دونوں کو غور وفکر، پیش قدمی اورسب سے بڑھ کر ریاضت کی راہ اپنانا ہوگی۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ تعلیم کس زبان میں دی جائے۔ میری دانست میں علم تبھی ملے گا ، جب وہ ترجیحات میں کہیں شامل ہوگا اور جب اُسے کھوجا جائے گا۔جدید تحقیق ساری کی ساری انگریزی میں ہے ؛ لہٰذا اس زبان کی استعداد بڑھانا ہوگی یا ترجمہ کیا جا سکتاہے لیکن اس سے پہلے دلوں میں علم کی جستجو بیدار کرنا ہوگی۔ کیا ہم خدا کے حضور کبھی علم میں اضافے کی درخواست کرتے ہیں ؟''ربی زدنی علما‘‘اور''اللھم نبئنی بحقیقت الاشیا ‘‘؟ ''اے میرے رب، میرے علم میں اضافہ فرما ''اور ''اے اللہ مجھے اشیا کی حقیقت کا علم عطا فرما‘‘؟ محض سچائی اور اخلاقی برتری سے بھی علم میں اضافہ ممکن نہیں ۔ بڑے بڑے متقی ،عظیم مغالطوں میں ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں ۔ اسی طرح کچھ دوستوں کا کہنا یہ ہے کہ نئے انگریزی سال کی مبارک باد ناجائز ہے ۔ عیسوی کیلنڈر سورج اور اسلامی سال چاند کی گردش پر بنایا گیا ہے۔ کیا سورج اور چاند دو الگ خدائوں کے تخلیق کر دہ ہیں ؟