تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     04-01-2014

چیف تیرے جاں نثار

پاکستان میںآمریت‘ دو چیزوں کے بغیر نافذ نہیں ہوتی۔ چیف آف آرمی سٹاف‘ جو عملی اقدامات کرتا ہے اور چیف جسٹس آف پاکستان‘ اسے قانونی تحفظ فراہم کر کے ‘ اس کے اقتدار کی بنیادیں مضبوط کرتا ہے۔ جب بھی آمریت سے تنگ آئے ہوئے عوام‘ جمہوریت کو ختم کرنے والی قوتوں کے خلاف بغاوت کرتے ہیں‘ توہدف صرف ایک چیف بنتا ہے۔ دوسرے چیف کو کبھی قانون کی گرفت میں آتے ہوئے نہیں دیکھا۔ ایوب خان سے پرویزمشرف تک‘ بغاوت یا غداری کا الزام صرف فوج کے چیف پر لگا۔ وجہ یہ تھی کہ غیرفوجی چیف کو براہ راست اقتدار میں حصہ دار نہیں بنایا جاتاتھا۔ وجہ ظاہر تھی کہ کسی بھی فوجی چیف نے‘ آخری لمحے تک وردی نہیں اتاری تھی۔ پرویزمشرف اس معاملے میں بدقسمت اور بیوقوف ثابت ہوئے۔انہوں نے اپنی طاقت کے اصل راز کو نہیں سمجھا اور سیاستدانوں کے گھیرے میں آ کر باورکر بیٹھے کہ وہ تو عوام میں بے حد مقبول ہیں اور وردی کے بغیر بھی برسراقتدار رہ سکتے ہیں۔ وہ تصور ہی تصور میں یہ دیکھنے لگتے ہیں کہ عوام تو ان سے بہت پیار کرتے ہیں۔انہیں دیکھنے کے لئے گھنٹوں سڑک پر کھڑے رہتے ہیں۔ ان کے حق میں نعرے لگاتے ہیں۔انہیں اپنا ہیروسمجھتے ہیں اور اگر وہ چاہیں‘ توعوام انہیں اپنے ووٹ سے بھی اقتدار پر فائز رہنے کا حق دے سکتے ہیں اور پھر انہیں اپنے خوابوں اور خیالوں میں یہ نعرے سنائی دینے لگتے ہیں ''چیف تیرے جاں نثار‘ بے شمار بے شمار۔‘‘ یہ نعرے سنے تو سب نے تھے مگر دو باتیں وہ کبھی نہیں بھولے ایک یہ کہ ان کی طاقت کا راز ان کی وردی ہے ‘ نہ کہ عوامی مقبولیت اور دوسرے یہ کہ ان کے سیاسی رفقائے کار بن کر‘ جو لوگ اپنا الو سیدھا کرتے ہیں‘ وہ امتحان کی گھڑی میں کبھی کام نہیں آ سکتے۔ پرویزمشرف نے یہی دو بنیادی باتیں فراموش کر دیں‘ جس کا نتیجہ آج وہ بھگت رہے ہیں۔ 
ان کے پہلے تینوں پیشرو سب کچھ کرتے رہے لیکن نہ تو اقتدار کے آخری لمحے تک وردی اتاری اور نہ ''جاں نثار جاں نثار‘‘ کے نعرے لگانے والوں پر بھروسہ کیا۔ جب تک وردی کے زور پہ ایوان اقتدار میں رہ سکتے تھے‘ رہے۔ اور جیسے ہی انہیں اندازہ ہوا کہ 
اصلی گل محمد بخشا وچوں گئی اے مُک
وردی سمیت ایوان اقتدار سے رخصت ہو گئے۔ دو‘ زندہ رہ کر کفِ افسوس ملتے رہے اور تیسرے نے سانس اور وردی کو ایک ساتھ چھوڑا۔ پرویزمشرف کی قسمت اچھی نہیں تھی۔ ان کا واسطہ ایک ایسے چیف سے آن پڑا‘ جواشتہائے اقتدار میں‘ ان سے بھی آگے تھا۔ تین پیش رو جنرلوں نے جب بھی اقتدار پر قبضہ کیا‘ پہلے آئین کے ہاتھ توڑ کے اسے بے بس کر دیا۔ اس کام میں دوسرے چیفس سے مدد لی اور مزے سے حکمرانی کرتے رہے۔ لیکن پرویزمشرف کا پالاکسی اور طرح کے چیف سے پڑ گیا۔ اس نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے پرویزمشرف کی آئین شکنی کوجائز قرار دے دیا۔ مگر بعد میں آئین کھول کر باربار اچھی طرح سے پڑھا
اور جب اس پر اپنی کرسی پر رہتے ہوئے شرکت اقتدار کے نکتے آشکار ہوئے‘ تو اس نے منہ سے بولے بغیر ظاہر کرنا شروع کر دیا کہ ''میں بھی تو ہوں۔‘‘ شروع میں تو یہ بات پرویزمشرف کی سمجھ میں نہیں آئی‘ کیونکہ سامنے والا کھل کر کچھ کہنے کی بجائے اشارے کنائیوں میں اپنے ارادوں کی جھلکیاں دکھاتا رہا۔ جنرل پرویزمشرف یہ سب اشارے کمانڈو کی نظر سے دیکھ کرآگے بڑھتے رہے اور ان کے حریف ‘ آئین کے الفاظ کی گہرائیوں میں پوشیدہ‘ اپنی طاقت دریافت کرتے ہوئے‘ ان کے ساتھ ساتھ لگے رہے۔ کبھی وہ بڑے بڑے افسروں کو دن بھر برآمدوں میں کھڑا رکھتے۔ کبھی آئی جی پولیس کو طلب کر کے‘ اسے ہراساں کرتے۔ کبھی اپنے گریڈ سے اوپر کی گاڑی‘ خصوصاً مرسڈیز طلب کرتے۔ مگر پرویزمشرف کو وہ جھٹکا ہی نہیں لگ رہا تھا‘ جو وہ لگانا چاہتے تھے۔ آخر انہوں نے زور کا جھٹکا آہستہ سے لگانے کا راستہ نکالا اور سٹیل مل کا میدان چن کر مقابل کو زور آزمائی کی دعوت دے دی اور پرویزمشرف نے اپنے حریف چیف کو سپریم کورٹ میں ریفرنس کے ذریعے راستے سے ہٹانے کی ترکیب نکالی‘ تو طاقت آزمائی شروع ہو گئی۔ وہ تمام قوتیں جنہیں پرویزمشرف نے دبا کر رکھا ہوا تھا‘ ان کے مخالف چیف کا ساتھ دینے پر کمربستہ ہو گئیں اور پھر آئین اور بندوق کے مابین مقابلہ شروع ہو گیا اور یوں پہلی بار پرویزمشرف کے لئے‘ طاقت کے ساتھ ساتھ عقل کا استعمال بھی ناگزیر ہو گیا اور وہ اپنے حریف کے پسندیدہ میدان میں زورآزمائی پر تل گئے۔ یہ عقل و فہم اور نکتہ شگافیوں کا مقابلہ تھا۔ دونوں طرف سے‘ ایک دوسرے پر وار کرنے کے کرتب دکھائے گئے۔ پرویزمشرف اس کھیل میں ایک ہی کاری وار کر سکتے تھے‘ مگر اپنی تلوار‘ یعنی طاقت پر ان کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی اور آئینی نکات سے نکلے ہوئے تیر‘کارگر ہوتے رہے۔ یہ کھیل پاکستان میں پہلی بار ہو رہا تھا۔ ایک طرف کے جاںنثارسوچنے سمجھنے کی تمام صلاحیتیں رکھتے تھے‘ لیکن وہ اپنے چیف کے اصل مقصد کی تہہ کو نہیں پہنچ پائے اور پرویزمشرف کی طاقت کا زور توڑنے میں بڑھ چڑھ کر ‘ پرویزمشرف پر حملے کرتے رہے۔ پرویزمشرف آئین کو پامال کر کے اپنی طاقت‘ وردی تک محدود کرتے گئے اور سامنے والا حریف کمال دانائی سے‘ اپنے مطلب کی نکتہ شگافیاں کرتا رہا۔ ایک ایسا وقت آیاکہ سارے ہی سیاسی اور قانونی دماغ ‘ آئین پر ایک شخص کی بالادستی قبول کرتے گئے اور یہ فراموش کر بیٹھے کہ اپنی طبقاتی تاریخ کے مطابق وہ ہمیشہ آئین کی بالادستی کے حق میں جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ لیکن پرویزمشرف کے حریف‘ انتہائی باریک بینی سے آئین کو‘ مرغ دست آموز بناتے چلے جا رہے تھے۔ انہیں فرط جوش میں‘ یہ ہوش بھی نہ رہا کہ آئین کی ماتحتی کا پابند ایک شخص ‘ اسی آئین پر غالب آ تا جا رہا ہے اور وہ اپنا سارا زور اس کی حمایت میں صرف کر رہے ہیں۔ یہ تاریخ میں اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ تھا کہ اہل علم و دانش اور آئین و قانون کے ماہرین ‘ ایک ایسے شخص کے حق میں جدوجہد کرتے رہے‘ جو عدالتی گائون کے اندر ‘ آئین پر بالادستی حاصل کرنے کے لئے کوشاں تھا۔ ایک موقع پر اس نے پارلیمنٹ میں کی گئی آئینی ترمیم کو مسترد کرتے ہوئے ‘ آئین ساز ادارے کو حکم دیا کہ وہ اس کی خواہش کے مطابق اپنی ہی کی گئی آئینی ترمیم میں‘ ردوبدل کرے اور کمال یہ ہے کہ پارلیمنٹ کو اس حکم کی تعمیل کرنا پڑی۔ میں نے جب ایک پارلیمینٹرین سے وجہ پوچھی‘ تو اس کا جواب تھا ''کیا کرتے؟ حالات ہی ایسے ہو گئے تھے۔‘‘ پرویزمشرف جو سیاسی جنگوں میں کامیابیاں حاصل کرتے چلے آ رہے تھے‘ آئینی جنگ میں پسپا ہوتے ہوتے اپنی وردی سے محروم ہو چکے تھے اور ان کے حریف نے یہ سارا کام‘ انہیں برضاورغبت کرنے پر مجبور کر دیا تھا اور اس کی اپنی اتھارٹی کا یہ عالم ہو گیا کہ انتظامیہ کے اختیارات بھی‘ اپنے ہاتھ میں لے کر بیوروکریسی کی لگامیں خود سنبھال لیں۔ افسروں کی ترقیاں‘ ان کی تقرریاں‘ ان کے تبادلے‘ حتیٰ کہ جن فیصلوں کے وہ پوری طرح مجاز تھے‘ ان فیصلوں کا اختیار بھی اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ان سیاستدانوں پر حیرت ہوتی ہے جنہوں نے آئین کی پیچیدہ راہوں سے باہر نکل کر آئینی اداروں اور خود آئین کو اپنی مرضی سے استعمال شروع کر دیا۔ سب کے سب‘ ٹرانس میں آئے ہوئے لوگوں کی طرح اس کا ساتھ دیتے رہے اور ساتھ یہ نعرے بھی لگاتے رہے 
چیف تیرے جاں نثار... بے شمار‘ بے شمار
مگر جیسے ہی مدت ملازمت پوری ہوئی‘ تو کوئی ڈھنگ کی بار ان کے لئے تقریب وداع کا اہتمام بھی نہ کر سکی۔ ادھر پرویزمشرف کو وہم تھا کہ وہ اپنے دور اقتدار میں اتنے عظیم کارنامے انجام دے چکے ہیں کہ عوام ان کے لئے سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ وہ بڑے جوش و جذبے کے ساتھ دبئی سے کراچی آئے تھے۔ مگر استقبال فراہم کرنے والی پارٹی اپنی ایڈوانس رقم لے کر چلتی بنی۔ جنرل صاحب اس پر بھی کچھ نہ سمجھ پائے اور انتخابی سیاست میں کودنے کی کوشش کرتے کرتے‘ اپنے گھر میںمحصور ہو کر رہ گئے۔ وہ شاید اب بھی چشم تصور سے دیکھ رہے ہوں گے کہ اگر آزادی میسر آ گئی‘ تو لاکھوں لوگ انہیں کندھوں پر اٹھا کر نعرے لگائیں گے۔چیف تیرے جاں نثار... بے شمار ‘بے شمار ۔ شاید انہیں یاد نہیں کہ سرکاری عہدے کے بل بوتے پر ملنے والے‘ جاں نثارایک خاص وقت تک ہی موجود رہتے ہیں اور جب وقت گزرجائے‘ تونعرے لگانے والے کچھ لوگ آ ضرور جاتے ہیں مگر نعرہ یوں ہو جاتا ہے ۔
چیف تیرے جاں نثار
ایک‘ دو‘ تین‘ چار

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved