تخلیقِ پاکستان سے لے کر آج تک ایک رویہ دنیا بھر کے روشن خیال‘ کمیونسٹ، قوم پرست اور لامذہب دانشوروں کا یہ رہا ہے کہ تحریک پاکستان میں شامل کروڑوں مسلمانوں کے دلوں میں اسلام کی سربلندی کا جو جذبہ موجزن تھا اور جس کی شدت نے پورے ہندوستانی معاشرے کو کفرواسلام کے درمیان تقسیم کر دیا تھا، اس جذبے سے قائد اعظم کی شخصیت کو علیحدہ کر کے پیش کیا جائے۔ کبھی ان کے لباس، لائف سٹائل اور مغربی تعلیم کی بات کی جاتی ہے اور کبھی یہ تصور پیش کیا جاتا ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے تو قائد اعظم اسلام اور اسلامی نظام کے بارے میں تقاریر کرتے تھے لیکن پاکستان بننے کے بعد انہوں نے اس ملک کو سیکولر بنیادوں پر استوار کرنا چاہا اور اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے کچھ بھی نہ کیا۔
آج سے دو برس قبل جب قائد اعظم کی زندگی میں قائم ہونے والے پہلے محکمے 'ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن‘ کے اغراض و مقاصد کی اصل کاپی مجھے دستیاب ہوئی اور میں نے اس جدوجہد پر کالموں کا سلسلہ شروع کیا تو ایک صاحب نے ایک طویل کالم لکھا کہ اس پورے کام کا قائد اعظم سے کوئی تعلق نہ تھا۔ میں اس بحث میں الجھنا نہیں چاہتا تھا کہ ایسی کج بحثی کسی بھی اعلیٰ و ارفع مقصد کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہوتی ہے۔ ایسے کج بحث لوگ کسی اعلیٰ تصور کی نفی نہ کر سکیں تو کتابت کی غلطیوں کو بہانہ بنا کر یا اعدادوشمار کی بحث میں الجھا کر مقصد کو تباہ کر تے ہیں، لیکن جب گزشتہ دنوں قائد اعظم کے یوم پیدائش پر میں نے کچھ ٹیلی ویژن پروگراموں میں یہ دستاویز دکھائی اور برادرم انصار عباسی نے اسے ایک طویل خبر کی صورت میں تحریر کیا تو موصوف پھر گویا ہوئے اور اس محکمے کے سربراہ علامہ محمد اسد کی زندگی کے ایک ماہر کی حیثیت سے پھر یہ دعویٰ لے کر آئے کہ یہ محکمہ تو دراصل اپنے طور پر وزیر اعلیٰ پنجاب نواب ممدوٹ نے شروع کیا تھا‘ قائد اعظم کا اس سے کیا تعلق؟
اس ضمن میں انہوں نے تمام حوالے محمد اکرام چغتائی کی ان دو کتابوں سے لیے جو انہوں نے انگریزی اور اردو میں مرتب کیں۔ ان کتابوں میں علامہ محمد اسدکی اپنی تحریر کردہ یادداشتیں، مضامین، انٹرویوز اور ان کی اہلیہ پائولا حمید کی مرتب کردہ یادداشتیں شامل ہیں۔ محمد اکرام چغتائی کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے ان واقعات، جن کا تذکرہ علامہ محمد اسد اور ان کی اہلیہ نے کیا، کے ممکنہ حد تک حوالہ جات اکٹھے کیے اور انہیں کتاب کے آخر میں جمع کر دیا۔ موصوف کالم نگار نے اپنے دلائل انہی کتابوں سے اخذ کیے اور انہی یادداشتوں کو بنیاد بنایا۔ تحقیق کے عالمی اصولوں کے مطابق یادداشتیں دوسرے درجے کے ماخذ تصور کی جاتی ہیں کہ ان میں لکھنے والے کا ذاتی نقطہ نظر اور نظریہ اسے مکمل طور پر ایک آزاد ذریعہ تحقیق نہیں رہنے دیتا، پہلا درجہ مکمل طور پر غیرجانبدار ریکارڈ اور شہادتوں کو حاصل ہوتا ہے۔ جہاں تک پہلے درجے کے مآخذ کا تعلق ہے اس کے بارے میں کتاب کے حوالہ جات میں محمد اکرام چغتائی نے خود ہی یہ اعتراف کیا ہے کہ ''حکومت مغربی پنجاب کے تحت قائم ہوئے والے اس ادارے کا سنگ بنیاد کب رکھا گیا، کچھ معلوم نہیں۔ اس سے متعلقہ ریکارڈ بھی پنجاب آرکائیوز میں محفوظ نہیں‘‘۔ (حوالہ 63)
اس ادارے کے بارے میں اخبارات کی خبریں اور ریڈیو پاکستان کو علامہ اسد کا طویل انٹرویو ہی اس ادارے کے اغراض و مقاصد اور قیام کی گواہی دیتے ہیں۔ علامہ اسد نے اپنی یادداشتوں میں اس کے قیا م کا تذکرہ یوںکیا ہے: ''جونہی میں ان کے دفتر میں داخل ہوا ممدوٹ
صاحب رسمی تعلقات کی پروا کیے بغیرکہنے لگے، میرے خیال میں اب ہمیں نظریاتی مسائل کو حل کرنے کے لیے ٹھوس اقدام کرنا چاہئے۔ آپ نے ان کے بارے میں تقریراً اور تحریراً بہت کچھ کیا۔ آپ کیا تجویزکرتے ہیں۔ کیا ہمیں وزیر اعظم سے رجوع کرنا چاہیے؟‘‘ علامہ اسد اس کے بعد مشورہ دیتے ہیں کہ آپ کو خود پنجاب میں ایسا ادارہ قائم کرنا چاہیے۔ اس کے بعد ادارہ قائم ہوا۔ علامہ محمد اسد نے اس کے اغراض و مقاصد تحریر کیے اور اسے حکومت نے شائع کیا۔ اس کے بعد علامہ اسد کے رسالے 'عرفات‘ کو حکومت نے شائع کرنا شروع کیا جس میں اسلامی نظامِ حکومت کو قائم کرنے کے طریق کار پر مضامین شائع ہوتے رہے۔ اس کے ساتھ ہی حکومت کے ایما پر علامہ محمد اسد نے ریڈیو پاکستان سے سات تقاریر کیں جو پاکستان کے اسلامی آئین اور اسلام کے معاشی اور سیاسی نظام کے متعلق تھیں۔ یہاں علامہ اسدکی یادداشتوں کا ایک اقتباس ہے کہ ممدوٹ صاحب نے کہا: ''میں نے ابھی ابھی آپ کا مضمون 'اسلامی دستور سازی کی جانب‘ پڑھا ہے‘‘۔ آپ انہی خطوط پر قدرے شرح و بسط کے ساتھ ایک میمورنڈم تیار کیجئے، میں اسے مغربی پنجاب کی حکومت کی جانب سے شائع کرائوں گا اور اس کو دیکھ کر ممکن ہے مرکزی حکومت اس جانب متوجہ ہو؛ چنانچہ 1948ء میں میرا یہی مضمون مع اردو ترجمہ مغربی پنجاب کی حکومت کی زیر نگرانی طبع ہوا۔ کچھ ہفتوں بعد وزیر اعظم کی جانب سے مجھے کراچی آنے کا پیغام موصول ہوا۔ یہ میری لیاقت علی خان سے پہلی ملاقات نہیں تھی‘‘۔ اس کے بعد لیاقت علی خان نے ملک کی مالی مشکلات، کشمیرکی جنگ اور عالمی برادری میں ساکھ کے حوالے سے دلائل دیے اور فی الحال دستور سازی کا اساسی کام ختم کر کے علامہ اسد کو قائل کیا کہ وہ سفارتی مشن پر چلے جائیں۔ علامہ اسد سفارتی مشن پر چلے گئے اور پھر ان کے جانے کے بعد اسلامی دستور سازی کے اس اہم ادارے میں ایک رات آگ بھڑک اٹھی اور سب کچھ جل گیا۔
پنجاب کے محکمہ آرکائیوز میں سات لاکھ فائلیں ہیں لیکن اس محکمے کی فائلیں موجود نہیں ہیں۔ مجھے یہ اغراض و مقاصد بھی نہ ملتے اگر میں دیگر محکموں کی فائلیں نہ چھانتا۔ اس محکمے کو قائم کرنے اور باقاعدہ فنڈز کی ترسیل کے لیے جو خطوط مرکزی حکومت کو لکھے گئے ان کے ساتھ مجھے اغراض و مقاصد کا یہ کتابچہ اور علامہ اسد کی ریڈیو تقریروں کے مسودات بھی مل گئے۔ ان کاغذات میں مرکزی حکومت کی وہ منظوری بھی شامل تھی جس کے سربراہ قائد اعظم تھے۔ جو لوگ حکومتی معاملات کو جانتے ہیں، انہیں علم ہونا چاہیے کہ یہ کوئی پارٹی کارروائی نہیں کہ اس میں براہِ راست لیڈر نے احکام دینے ہوتے ہیں۔ حکومتوں میں ڈائریکٹوز کا فیشن تو آج کے دور کی پیداوار ہے۔ مرکزی حکومت کی منظوری قائد اعظم کی منظوری تھی۔ قائد اعظم کو پوری ملت اسلامیہ کے شعور سے علیحدہ کرنے کے لیے یہ لوگ قائد اعظم کو ایک ایسا گورنر جنرل بنا کر پیش کرتے ہیں کہ انہیں اپنے زیر سایہ ہونے والے اس اہم ترین کام کا کوئی علم تک نہ تھا۔ اس ملک کے واحد نشریاتی ادارے ریڈیو پاکستان پر ایک اہم سرکاری ملازم (علامہ اسد) ایک حکومتی نمائندے کی حیثیت سے "Calling all Muslim" کے نام سے سات تقریریںکرتا ہے جس میں وہ اپنے ادارے کے کام کو واضح کرتا ہے اور پاکستان کے اسلامی دستور پر حکومت کے کام کی وضاحت کرتا ہے۔ 19 اکتوبر 1947ء کو ڈائریکٹر ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن کی حیثیت سے پاکستان ٹائمز میں اس کا تفصیلی انٹرویو شائع ہوتا ہے جس میں اسلامی آئین کے بارے میں وہ اپنے کام کے خدوخال بتاتا ہے اور قائد اعظم اس قدر بے خبر کہ انہیں اس کا علم تک نہیں ہوتا۔ اس زمانے میں ایک ہی ریڈیو تھا اور وہ بھی سرکاری اور چند اخبار تھے جن میں پاکستان ٹائمز بہت اہم تھا۔ یہ تقریریں انگریزی میں ہیں اور انٹرویو بھی انگریزی اخبار ہی میں چھپا تھا ورنہ یہ بہانہ بنایا جا سکتا تھا کہ قائد اعظم کو تو اُردو پڑھنا نہیں آتی تھی۔ اس زمانے میں بہت سے ٹی وی چینل بھی نہ تھے کہ قائد اعظم کی نظر سے یہ سب کچھ نہ گزرا ہو۔ ملک کے لیے اسلامی دستور کی تشکیل، اسلام کے معاشی اور معاشرتی نظام کو مرتب کرنے کا کام ایک حکومتی ادارہ انتہائی تندہی سرانجام دے رہا ہے جسے مرکزی حکومت فنڈر بھی فراہم کرتی ہے، اس سے قائد اعظم کی ذات کو علیحدہ کرنے کا مقصد اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ یہ ثابت کیا جائے کہ اس وقت کے کروڑوں مسلمان اور لیگی رہنمائوں کی اکثریت تو ایک اسلامی حکومت چاہتی تھی لیکن قائد اعظم مغرب زدہ تھے، وہ تو سیکولر تھے۔
لیکن ایسے 'عظیم‘ اور 'بالغ نظر‘ دانشوروں کے منہ قائد اعظم نے اپنی آخری تقریر کے دوران بند کر دیے۔ یہ تقریر بھی ایک سرکاری ادارے سٹیٹ بینک کے افتتاح پر یکم جولائی 1948ء کو کی گئی تھی جس میں قائد اعظم نے کہا تھا کہ میں اس سٹیٹ بینک کے ریسرچ کے ادارے کی کارکرد گی کا ذاتی طور پر جائزہ لیتا رہوں گا کہ یہ اسلامی اصولوں کے مطابق معاشی نظام کیسے مرتب کرتا ہے۔ یہ تقریر سٹیٹ بینک کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ اس کو کسی سازش کے ذریعے نذر آتش نہیں کیا جا سکا۔ علامہ اسد کا نام کسی نصابی کتاب میں نہیں، انہیں تحریک پاکستان کے رہنمائوں میں شامل نہیں کیا گیا، ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک کنسٹرکشن کا انکار اس لیے کہ یہ وہ واحد کڑی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ قائد اعظم اور مسلم لیگ کے رہنما اس ملک میں ایک اسلامی دستور اور اسلامی نظام حکومت چاہتے تھے۔