2014ء کا طلوع ہوتا ہوا سورج دیکھ رہا ہے کہ پاکستانیوں کے دلوں میں دو خواہشات نے گھر کر لیا ہے۔ طالبان اور جہادی عناصر سے بات چیت کرنا اور بھارت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا؛ تاہم دونوں معاملات میں دوسرے فریق کا رویہ حوصلہ افزا نہیں ہے۔ خاص طور پر تحریکِ طالبان پاکستان نے اپنے نئے رہنما ملا فضل اﷲ، جنہوں نے حکیم اﷲ محسود کے ڈرون حملے میں راہیِ ملکِ عدم ہونے کے بعد تحریک کی امارت سنبھالی ہے، کی قیادت میں حکومت پاکستان کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات کے امکان کو رد کر دیا ہے۔
دوسری طرف بھارت کو بھی مختلف موضوعات پر پاکستان کے ساتھ دوطرفہ مذاکرات کا کوئی اشتیاق نہیں ہے۔ اب جبکہ وہاں عام انتخابات کا نقارہ بج چکا ہے، کانگرس کسی بھی قیمت پر پاکستان کو کو ئی رعایت دے کر سیاسی خودکشی نہیں کرنا چاہتی۔ جب بھی پاکستان بات چیت کی پیش کش کرتا ہے‘ بھارت کی طرف سے حسبِ معمول یہ اعتراض سامنے آ جاتا ہے کہ پاکستان 2008ء میں ممبئی حملوں کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی نہیںکر رہا۔ اس کے ساتھ ساتھ، وہ لائن آف کنٹرول پر ہونے والی حالیہ کشیدگی کے حوالے سے بھی پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ شروع کر دیتا ہے۔
دفاعی اصولوں کے مطابق بات چیت کا راستہ ہمیشہ کمزور فریق نکالتا ہے تاکہ اُسے اپنے ڈگمگاتے ہوئے قدموں کو سنبھالنے کا موقع مل سکے۔ جہاں تک بھارت کے ساتھ ہمارے معاملات کا تعلق ہے تو ہمارے عقاب بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اس وقت مشرق کی بجائے خطرات کے بادل شمال مغربی سرحد پر منڈلا رہے ہیں۔ درحقیقت ہماری بین الاقوامی سرحدوں پر گولہ باری نہیں ہو رہی بلکہ ہماری سرحدوں کے اندر ہی پلنے اور ہماری نظروںکے سامنے توانا ہونے والے دشمن نے ہماری رگِ جاں کو اپنے پنجوں میں دبوچ رکھا ہے۔ جس دوران ہم مذاکرات کی بے مقصد رٹ لگائے چلے جا رہے ہیں، یہ آکٹوپس نما دشمن پہاڑی علاقوںسے نکل کر ملک کے تمام حصوں کی طرف اپنی پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہے۔ افسوس، یہ واضح دکھائی دینے والی حقیقت ''مذاکراتی ٹولے‘‘ کو دکھائی نہیں دیتی یا پھر یہ دیکھنا ہی نہیں چاہتے ہیں۔
طالبان کے بڑھتے ہوئے خطرے سے پوری استقامت اور توانائی کے ساتھ نمٹنے کی بجائے ان سے بے کار، لاحاصل اور بے مقصد مذاکرات، جس کے لیے فریقِ ثانی راضی ہی نہیں ہے، کی رٹ لگا کر حکومت نے اپنی پوزیشن خاصی کمزور کر لی ہے۔ تحریکِ طالبان پاکستان کے جہادی اپنے ہتھیاروں کو تھپتھپاتے ہوئے بڑے آرام سے بیٹھ کر حکومت کی بوکھلاہٹ کا مزہ لے رہے ہیں۔ جیسے ہی حکومتی ٹولہ انہیں امن کی پیش کش کرتا ہے‘ وہ بڑی رعونت سے اسے ٹھکرا دیتے ہیں۔ ٹھوکر کھانے کے بعد اور کچھ نہ سیکھتے ہوئے دوسری ٹھوکر کھانے کے لیے حکومت امن کی نئی پیش کش کے ساتھ آن موجود ہوتی ہے۔ اس احمقانہ استقامت کے ساتھ تو صحرائے گوبی کی ریت کے ذرے بھی گنے جا سکتے ہیں۔ پتہ نہیں عمران خان اور نواز شریف طالبان کی طرف سے حرف انکار کو کیوں نہیں سمجھ پا رہے ہیں؟
ہٹ دھرمی اور احساسِ برتری، جو طالبان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، کے علاوہ مذاکرات کی راہ میں کچھ سٹریٹیجک رکاوٹیں بھی حائل ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ تحریکِ طالبان پاکستان ایک لچک دار تنظیم ہے۔ کوئی بھی سماج دشمن اس کے اندر آ سکتا ہے، بس سفاک اور ہٹ دھرم ہونا ضروری ہے۔ بہت سے انتہا پسند گروہ اس کی چھتری تلے کام کر رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان میں سے کچھ بات چیت کے حق میں بھی ہوں لیکن زیادہ تر مذاکرات کے مخالف ہیں؛ تاہم تحریکِ طالبان اپنی صفوں میں اس تفریق اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی کمزوری، کو چھپاتے ہوئے بڑی ہوشیاری سے ریاست پر ضربیں لگا رہی ہے اور اسے توقع ہے کہ اس سے پہلے کہ پاکستان کے دفاعی ادارے ان کی اس کمزوری کا فائدہ اٹھا کر اُنہیں پچھلے قدموں پر جانے پر مجبور کر دیں، ریاست پکے ہوئے پھل کی طرح ان کی جھولی میں گر جائے گی۔
وزیر اعظم نواز شریف نے بھارت کے حوالے سے زیادہ واضح اور مثبت بات کرتے ہوئے امن کی ضرورت پر زور دیا ہے؛ تاہم ابھی یہ دیکھا جانا باقی ہے کہ ان کی امن کی خواہش دفتر خارجہ اور اسٹیبلشمنٹ پر کس حد تک اثر انداز ہوتی ہے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے حال ہی میں خیرسگالی کے جذبے کے تحت بھارت کا دورہ کیا۔ یہ ایک اچھی پیش رفت ہے اور اسے جاری رہنا چاہیے؛ تاہم سرحد پار سے ملنے والے اشارے زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ بھارت میں پاکستان کے ساتھ امن کی کاوشیں بارآور ہوتی دکھائی نہیں دیتیں۔ جب بھارتی میڈیا پر دائیں بازو کے عناصر پاکستان کو رعایت دینے کی مخالفت کرتے ہیں تو قومی سطح کے سیاست دانوں میں اتنا حوصلہ نہیں ہوتا کہ وہ ان کی مخالفت کر سکیں۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ دیکھتے ہیں کہ وقت ان کے ساتھ ہے کیونکہ اس وقت پاکستانی معیشت ڈگمگا رہی ہے جبکہ اندرونی خطرات ملک کی بقا کے لیے چیلنج بن چکے ہیں؛ چنانچہ اس وقت امن پاکستان، نہ کہ بھارت، کی ضرورت ہے۔
محسوس کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی کمزوری کی وجہ سے دونوں معاملات، بھارت اور طالبان، میں ہمارے پاس مذاکرات کے لیے کچھ نہیں ہے۔ عملیت پسندی کی اس دنیا، جس میں ہم داخل ہونے سے ہچکچاتے ہیں، میں جب کوئی فریق گھٹنوں کے بل گر جاتا ہے تو دوسرا فریق کوشش کرتا ہے کہ وہ زمین بوس ہو جائے تاکہ اُس سے مجبوری کے عالم میںکوئی بھی شرط منوائی جا سکے۔ یہ واضح ہے کہ جب ہم گھٹنوں کے بل بیٹھ کر بھارت یا طالبان سے مذاکرات کی منت کرتے ہیں تو اُن کی گردن مزید اکڑ جاتی ہے۔ حقیقت ہے کہ اس وقت طالبان صرف ''ڈرون کی زبان‘‘ سمجھتے ہیں۔ محاورہ بدل کر آپ کہہ سکتے ہیں: ''ڈرون کے بھوت ، باتوں سے نہیں مانتے‘‘۔
ہم سب جانتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ ہمارا بڑا مسئلہ کشمیر کا تنازع ہے؛ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم نے اس مسئلے پر عالمی حمایت کھو دی ہے۔ علاوہ ازیں جب سے بھارت کا معاشی حجم بڑھنا شروع ہوا ہے‘ اسے پاکستان پر فوجی برتری حاصل ہو رہی ہے۔ ہماری داخلی سیاسی کشمکش اور اہم سیاسی جماعتوں کی طرف سے انتہا پسندوںکی حمایت کی وجہ سے عالمی برادری کے سامنے ملک کا منفی تاثر اجاگر ہوا ہے اور اس ضمن میں ہم کسی صہیونی سازش کا شکار نہیں ہوئے کیونکہ یہ تمام امور ہم نے کھلی آنکھوں سے ہی سرانجام دیے ہیں۔ ہمارے بعض سیاست دان اور مذہبی رہنما ''سوچ سمجھ ‘‘ کر طالبان کے حق میں بیان دیتے ہیں۔ اُس وقت ان کو شیطانی طاقتیں بہکا نہیں رہی ہوتیں۔ ایک تلخ حقیقت، جس کی تفہیم میں اکثر پاکستانی اور ٹی وی اسٹوڈیوز کے تمام کے تمام جاں باز ناکام رہتے ہیں یہ ہے کہ ہمارے پاس ایسی کوئی طاقت نہیں‘ جس کے ذریعے ہم بھارت سے اپنی بات بزور منوا سکیں جبکہ کوئی بھارتی سیاست دان، چاہے وہ اقتدار میں ہو یا اپوزیشن میں، کشمیر کو بھارتی سرزمین سے الگ نہیں مانتا۔ جہاں تک تحریکِ طالبان پاکستان کا تعلق ہے تو وہ آئینِ پاکستان کو سرے سے ہی نہیں مانتے‘ نہ ہی وہ اس کا جمہوری نظام تسلیم کرتے ہیں۔ اس کے دہشت گردوں نے چالیس ہزار سے زیادہ پاکستانیوں اور سکیورٹی فورسز کے جوانوں کو ہلاک کیا ہے۔ اس کے باوجود سیاسی طبقے اور سول سوسائٹی کا اصرار ہے کہ وہ پاکستان کے 'اسٹیک ہولڈرز‘‘ ہیں اور بس پیار سے پچکارنے سے وہ اچھے بچوں کی طرح آکر اپنا اسلحہ حکام کے قدموں میں رکھیں گے اور سلام کرکے محنت مزدوری کرتے ہوئے رزق حلال کمانے میں مصروف ہو جائیںگے۔ اس لیے ان کے خلاف آپریشن کیوںکیا جائے۔۔۔''بجا کہتے ہو، سچ کہتے ہو، پھر کہیو کہ ہاں کیوں ہو؟‘‘۔
تمام قارئین کو نیا سال مبارک ہو!