کہتے ہیں کہ ایک دادا (میراثی) کی سزائے موت پر عمل درآمد کا وقت آیا تو اُس سے اس کی آخری خواہش پوچھی گئی۔ پہلے زمانوں میں یہ تصور تھا کہ پھانسی کی سزا پانے والے شخص کی آخری خواہش کو ممکنہ حد تک پورا کیا جاتا تھا اور ریاست کی جانب سے اُس کی آخری خواہش پوری ہونے تک سزائے موت پر عمل درآمد موخر کر دیا جاتا۔ دادا سے بھی اس کے آئینی اور قانونی استحقاق کے مطابق آخری خواہش دریافت کی گئی۔ دادا ُبزدل لیکن چالاک تھا؛ چنانچہ اس نے اپنی پھانسی کی سزا ٹالنے کے لئے پچیس سالہ منصوبے پر عمل درآمد کی اپیل کر دی۔ دادا نے اپنی آخری خواہش یہ بتائی کہ مرنے سے پہلے وہ سارنگی بجانا سیکھنا چاہتا ہے۔ سارنگی کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ ایک مشکل ساز ہے‘ اس لئے اسے سیکھنے کے لئے کم از کم 25 سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ یقیناً دادا کے وکلا کا بورڈ بڑا ذہین ہو گا جس نے اسے سارنگی سیکھنے کا آئیڈیا دیا یعنی نہ وہ سارنگی سیکھ پائے اور نہ پھانسی چڑھے۔
پاکستان کی کہانی میں بھی ''سارنگی سیکھنے‘‘ کی فرمائش کر دی گئی ہے۔ میرا ماننا ہے کہ جب تک پاکستان میں قانون کی بالادستی قائم نہیں کی جائے گی ہماری تقدیر نہیں بدلے گی۔ گزشتہ روز عتیقہ اوڈھو، احمد رضا قصوری ایڈووکیٹ اور ایم کیو ایم سمیت بعض دوسری جماعتوں کے قائدین کو جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی صحت کے لئے دعائیں کرتا دیکھا۔ عتیقہ اوڈھو کا کہنا تھا کہ جنرل صاحب کا دل ٹوٹ گیا ہے‘ اس شخص نے پاکستان کے لئے اتنا کچھ کیا اور ہم اسے ملزم بنا کر عدالتوں میں پیش کرنا چاہتے ہیں‘ اسے سزا دلوانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ عتیقہ اوڈھو نے بتایا کہ وہ تین روز پہلے جنرل مشرف سے مل کر آئی تھیں۔ پاکستان میں ہونے والے سلوک سے ان کا دل ٹوٹ چکا ہے، اچھے وقتوں میں مشرف بہت سارے لوگوں کے کام آئے لیکن جب ان پر برا وقت آیا تو سب نے ساتھ چھوڑ دیا۔
پاکستان میں ایک بار پھر ''سب سے پہلے پاکستان‘‘ والی فلم کی نمائش کر دی گئی ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے 12 اکتوبر 1999ء کے دن ملک کا آئین توڑا تھا۔ انہوں نے جس وقت حکومت کو برطرف کیا‘ پاکستان کے معاشی حالات تسلی بخش تھے۔ وزیر اعظم نواز شریف کی خارجہ پالیسی کے باعث ملک میں معاشی سفر سرعت سے جاری تھا کہ جنرل مشرف نے طیارہ ہائی جیکنگ کا ڈرامہ کر ڈالا۔ جنرل مشرف سے پہلے جنرل محمد ضیاالحق نے بھی پاکستان کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا تھا۔ یہ ست رنگی قسم کا نقصان تھا جس میں معاشی، ثقافتی، معاشرتی، اخلاقی، عسکری، نظریاتی اور روحانی سمیت خسارے کا ہر رنگ شامل تھا۔ جنرل محمد ضیاالحق کی پالیسیوں نے پاکستان جیسے پُرامن ملک میں دہشت گردی کے راستے کھولے۔ اس دور میں ہماری ریاست نے ایسی پالیسیاں وضع کیں‘ جن کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔
جیسا کہ تسلسل کے ساتھ کہا جا رہا ہے کہ ہمیں اپنے ہاں قانون کی بالادستی کا رواج ڈالنا ہو گا‘ بعض دوست سوال کرتے ہیں کہ جنرل مشرف کو سزا دینے سے ہمارے ُبرے حالات کیسے سدھر سکتے ہیں؟ میرا جواب یہ ہے کہ ہمارے ہاں 35 سال تک براہ راست اور لگ بھگ 31 سال تک بالواسطہ عسکری قوتوں کا راج رہا ہے‘ لیکن اب وقت آگیا ہے کہ آئین کی بالادستی کا رواج ڈالا جائے۔ ریاست کے تمام ستون اپنے اپنے آئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے خود کو جمہوری حکومت کو سامنے جوابدہ سمجھیں، کرپشن کا خاتمہ کیا جائے، ٹیکسوں کی وصولی کے نظام میں انقلابی تبدیلیوں کے ساتھ اپنی خارجہ پالیسی کا قبلہ درست کیا جائے تو پاکستانی عوام کے دن بدل سکتے ہیں۔ لیکن یہ سب اس وقت ہو گا جب آئین اور قانون پر عمل درآمد شروع ہو گا۔ کتنی عجیب بات ہے کہ بعض لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ عوام کو جنرل مشرف سے کوئی سروکار نہیں‘ انہیں اپنے مسائل کا حل چاہیے۔ میں اپنے ان ''قومی ہمدرد‘ دواخانوں اور ماہرینِ پوشیدہ امراض‘‘ سے سوال کرتا ہوں کہ یہ نسخہ ہائے وفا کہاں تحریر ہے کہ قانون پر عمل درآمد کرنے سے قبل بحرانوں پر قابو پانا چاہیے؟ یاد رکھیے! قانون شکنی بحرانوں اور مسائل کو جنم دیتی ہے۔ دنیا میں کوئی ریاست ایسی نہیں جہاں قانون شکنی سے بہتری واقع ہوئی ہو۔
بلاول بھٹوکے ساتھ دو ٹویٹ منسوب کئے گئے ہیں۔ اول یہ کہ ''یقین نہیں آتا کہ مشرف ڈرپوک نے کبھی وردی پہنی ہوگی‘‘ دوم یہ کہ ''مشرف کے چیک اپ کے لئے آزاد میڈیکل چیک اپ بورڈ بنایا جائے‘‘ بلاول کے درج بالا دو عدد ٹویٹ کے حوالے سے ''بزدل والے‘‘ ٹویٹ کی تردید کردی گئی ہے۔ کہا گیا ہے کہ مذکورہ ٹویٹ
بلاول نے نہیں کیا۔ بلاول کے ٹویٹ کے حوالے سے متحدہ کے حیدر عباس رضوی، فیصل سبزواری اور بابر غوری کا ردعمل میں نے سنا ہے۔ ان صاحبان کا کہنا ہے کہ بلاول کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ عدالت میں حاضر ہونے سے عذر ظاہر کرتے ہوئے ان کے والد آصف علی زرداری نے نیم پاگل ہونے کے سرٹیفکیٹس پیش کیے تھے۔ بعض لوگوں نے بلاول کی نانی اماں بیگم نصرت بھٹو کے حوالے سے بھی ایسی کسی عذرداری کا تذکرہ کیا ہے۔ یہ صاحبان شاید یہ بھول رہے ہیں کہ بلاول کے والدِگرامی مذکورہ تمام سرٹیفکیٹس کے باوجود پاکستان میں طویل ترین عرصہ تک سیاسی اسیر ہونے کا اعزاز رکھتے ہیں۔ انہیں دائیں بازو کی صحافت کے سرخیل نے ''مردِ حُر‘‘ کا خطاب دیا تھا۔ بلاول کے نانا سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اپنے خلاف قائم کئے گئے قتل کے جھوٹے مقدمہ میں کئی ماہ تک لاہور ہائی کورٹ میں پیش ہوتے رہے۔ بھٹو ہر بار شان کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئے۔ وہ قانون کا احترام کرتے تھے۔ ان کا ہر عمل قانون کے تابع تھا۔ وہ ایک بہادر لیڈر تھے۔ بھٹو جس سج دھج سے مقتل میں گئے، وہ شان ہمیشہ سلامت رہے گی ؎
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے، اس جاں کی توکوئی بات نہیں
روزنامہ ''دنیا‘‘ کے نمائندگان (اظہر جاوید اور رانا عظیم ) نے خصوصی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ ''پرویز مشرف کو بیرون ملک بھیجنے کی تیاریاں ہیں‘‘۔ بیان کیاگیا ہے کہ لندن کے ہسپتالوں سے رابطہ کیا گیا ہے، ڈاکٹر ان کی حالت دیکھ کر تجویز کریں گے کہ مشرف کا علاج اندرون ملک ہو گا یا بیرون ملک۔ اس پر عدالت اپنا فیصلہ دے گی۔ جنرل مشرف سے پہلے ان کے تین عدد پیشروئوں میں سے کسی نے بھی عدالت کا سامنا نہیں کیا۔ جنرل ریٹائرڈ مرزا اسلم بیگ پہلے سابق آرمی چیف ہیں‘ جنہیں اپنے پیروں پر چل کر عدالت میں آنے کی زحمت گوارا کرنی پڑی۔ جنرل مشرف کمانڈو جرنیل رہے ہیں‘ ان کا دعویٰ ہے کہ ''میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں ہوں‘‘۔ کیسی عجیب بات ہے کہ جمعرات کی صبح جب جنرل مشرف اپنی غیرمعمولی سکیورٹی کے ہمراہ پیشی کے لئے عدالت آرہے تھے تو انہیں دل کی تکلیف ہوئی جس کے باعث قافلے کا رُخ عدالت سے فوجی ہسپتال کی طرف موڑ دیا گیا۔ یہ بات طے ہے کہ ہمارے دل کے ڈاکٹر ''ورلڈ چمپئن‘‘ ہیں لیکن جنرل صاحب کو ملک سے لے جانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ جس روز ہمارے بہادر کمانڈو عدالت کا سامنا کرتے ہوئے گھبرا گئے اور عدالت میں حاضر ہونے کے بجائے فوجی ہسپتال پہنچ گئے‘ ملتان میں ایک ڈھائی سالہ مبینہ ''ڈکیت بچہ‘‘ عدالت میں پیش ہوا۔ ڈھائی سالہ بچے کو ملتان پولیس نے 50 ہزار روپیہ چرا کر بھاگنے کے جرم میں گرفتار کیا تھا۔
ایک ڈھائی سالہ بچہ مبینہ جرم کا ارتکاب کر سکتا ہے یا نہیں؟ اس سوال کے ساتھ ساتھ عدالت کے سامنے سابق صدر اور آرمی چیف کا مقدمہ بھی موجود ہے۔ قوم نے آزاد عدلیہ کے حصول کے لئے ایک طویل جنگ لڑی ہے۔ ایک عرصہ سے ہم اس تفاخرانہ احساس سے جی رہے ہیں کہ آزاد عدلیہ کے زیر سایہ ہیں۔ پروردگار سے دعا ہے کہ ہمارا یہ بھرم قائم رہے اور اب کوئی ''دادا‘‘ سارنگی سیکھنے کی عذرداری پیش نہ کر پائے۔