پاکستان میں کسی بھی حوالے سے پورے یقین کے ساتھ کچھ کہنا انتہائی دشوار ہے مگر اس معاملے میں مرزا تنقید بیگ نے ہماری مشکل بہت حد تک آسان کر دی ہے۔ کم از کم ایک بات پورے یقین سے کہی جا سکتی ہے... یہ کہ جب بھی ملئے‘ مرزا حالات اور لوگوں سے نالاں ہی ملیں گے۔
کل بھی یہی ہوا۔ ہم خاصے طویل بریک کے بعد ان سے ملنے گئے تاکہ ان کے خیالات میں تھوڑی بہت تبدیلی کی راہ تو ہموار ہو اور کچھ فرق دیکھنے کو ملے۔ مگر مرزا بھی تو اسی معاشرے کے پروردہ ہیں‘ کیوں اور کیونکر بدلیں گے! جس وقت ہم ان کی بیٹھک میں پہنچے‘ ان کا ذہن اچھی خاصی اٹھک بیٹھک کی حالت میں تھا۔
مرزا سے کسی بھی معاملے میں ان کی پریشانی کا سبب معلوم کرنا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہے۔ وہ بات بات پر ایسے ڈنک مارتے ہیں کہ کم ہی لوگ تاب لا پاتے ہیں۔ حق یہ ہے کہ مرزا جب زورِ کلام دکھانے پر کمربستہ ہوں تو انہیں لگام دینا محض خواب و خیال کا معاملہ معلوم ہوتا ہے! ہم نے جب بھی ایسی کوئی کوشش کی ہے‘ ان کی منہ زوری کے ہاتھوں منہ کی کھائی ہے۔
کون سا معاملہ ہے جس سے مرزا نالاں نہیں؟ کون سی چیز ہے جو مرزا کو پیہم‘ دم بہ دم پریشان نہیں رکھتی۔ کبھی تو مرزا کا موازنہ حکمرانوں سے کر کے حیرت ہوتی ہے کہ جنہیں ملک اور معاشرے کی فکر لاحق ہونی چاہیے وہ تو مزے میں ہیں اور مرزا ہیں کہ قاضی کی طرح ہر غم میں دُبلے ہوئے جا رہے ہیں۔ حالات کے ہاتھوں مرزا پر دبلا پن اس تیزی سے سوار ہو رہا ہے کہ شاید دو چار برس بغور دیکھنے پر وہ دکھائی دے سکیں گے۔
مرزا کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اس آوے کو درست دیکھنے کے خواہش مند ہیں جسے بڑی مشکل سے بگاڑا گیا ہے۔ ان کا بنیادی استدلال یہ ہے کہ جتنی محنت معاملات کو بگاڑنے پر صرف کی گئی ہے‘ اتنی محنت اگر معاملات کو درست کرنے پر کی گئی ہوتی تو آج سب کچھ درست ہوتا۔ ہم نے بھی انہیں یہ سمجھانے کی بارہا کوشش کی ہے کہ جب معاملات بگڑے ہی نہیں تھے تو انہیں درست کرنے پر محنت کیوں کی جاتی؟ کسی بھی معاملے کو درست کرنے کے لیے پہلے اسے بگاڑنا بہت ضروری ہے! اور ظاہر ہے کہ یہ بات مرزا کی سمجھ میں کبھی نہیں آئی۔ آئی ہوتی تو وہ مرزا کیوں ہوتے؟
مرزا چاہتے ہیں کہ کرکٹ کے میدان میں کرکٹ کھیلی جائے‘ سیاست کے نام پر جیبیں اور تجوریاں نہ بھری جائیں۔ ان کی ایک تمنا یہ بھی ہے کہ میڈیا حقائق بیان کرے۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ لوگ سچ بولیں‘ حرام و حلال میں تمیز کا شعور پیدا کریں اور ایک دوسرے کے حقوق پر ڈاکے ڈالنا چھوڑ دیں۔ ہم بارہا دیوار سے سر پھوڑ چکے ہیں یعنی انہیں سمجھانے کی ان گنت کوششیں کر چکے ہیں کہ سب کچھ درست ہو جانے سے تو معاملات مزید الجھ اور بگڑ جائیں گے! جہاں سب کچھ الٹ پلٹ چکا ہو وہاں اچانک بہت کچھ درست ہو جانے سے لوگ حواس باختہ ہو جاتے ہیں! مرزا خیالی جنت میں رہتے ہیں۔ سادہ لوحی کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ چاہتے ہیں کہ کوئی معاملہ خرابی کی حالت میں نہ رہے‘ درستی کی راہ پر گامزن ہو۔ اس کے مضمرات پر ان کی نظر کبھی نہیں گئی!
سیاست اگر وہ نہ رہے جو کہ وہ ہے تو کیا ہو؟ سارا لطف ہی غارت ہو کر رہ جائے۔ ذرا سوچیے کہ ہماری سیاست سنجیدہ ہو کر کتنی بھونڈی اور پھیکی لگے گی۔ ایسے سیاسی جلسے کس کام کے جن میں نعرے اور بڑھکیں نہ ہوں؟ سیاسی رہنمائوں کی ایسی تقاریر کیا خاک لطف دیں گی جن میں ایک دوسرے پر کیچڑ نہ اچھالا گیا ہو؟ سیاسی جلوسوں کا کیا مزا اگر ان میں میلوں کا ماحول نہ پایا جائے؟ کبھی آپ نے کسی ایسی پریس کانفرنس کا تصور کیا ہے جس میں کسی پر تنقید نہ کی گئی ہو‘ کسی کو نیچا دکھانے اور بے لباس کرنے کی کوشش نہ کی گئی ہو؟ آپ کا جواب نفی میں ہو گا اور ہونا بھی چاہیے۔
ذرا سوچیے‘ اگر میڈیا پر سب کچھ سچ سچ بیان کیا جانے لگے تو؟ لینے کے دینے پڑ جائیں گے! جن لوگوں کو مسالے دار جھوٹ میں لطف محسوس ہونے لگا ہے وہ بھلا اس چٹخارے سے کیوں محروم ہونا چاہیں گے؟ ایک زمانہ تھا جب جھوٹ برا لگتا تھا۔ اب تو یہ انجوائے کرنے کا معاملہ ہے! کون ہے جو یہ مزا ترک کرنے پر آمادہ ہو گا؟ اور یہ بھی سوچیے کہ لوگ جھوٹ کی تاب مشکل سے لا پاتے ہیں تو سچ کو کس طور جھیلیں گے؟ مگر مرزا کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی۔
مرزا کی خواہش ہے کہ کھیل کو کھیل رہنے دیا جائے‘ سیاست اور مادی مسابقت و منفعت کا میدان نہ بنایا جائے۔ مگر افسوس کہ یہ معاملہ بھی اب ان کی سادہ مزاجی سے بہت آگے جا چکا ہے۔ کھیلوں کی دنیا میں اتنی دنیائیں بس گئی ہیں کہ انہیں اُجاڑا نہیں جا سکتا۔ ایک آوے کو درست کرنے کی کوشش میں کئی آوے ایسے بگڑیں گے کہ پھر ہاتھ نہ آئیں گے۔ وہ زمانہ بھی اب لد گیا ہے جب لوگ کھیلوں سے کھیلوں ہی کا مزا پایا کرتے تھے۔ آج ہر کھیل کئی کھیلوں کا مجموعہ ہے بلکہ کھلواڑ کا ڈھیر ہے! کرکٹ ہی کو لیجیے۔ آج گرائونڈ میں کھیلی جانے والی کرکٹ کتنے اور کیسے کیسے کھیلوں کا مجموعہ ہے۔ اس ایک کھیل نے خدا جانے کتنے میدانوں میں عجب طرز کے مقابلوں کو جنم دیا ہے۔ بہت سے حسابات کرکٹ پر رائے زنی کی آڑ میں بے باق کیے جا رہے ہیں اور مرزا ہیں کہ کرکٹ کی اصلیت بحال کر کے کئی کھیلوں کی راہ مسدود کرنا چاہتے ہیں۔
مرزا کی خواہش ہے کہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ ہو۔ اب آپ ہی بتائیے کہ کرپشن نہ رہی تو کیا کیا نہ رہے گا۔ بہت سے دھندے چل ہی کرپشن کے بل پر رہے ہیں۔ اس ایک چراغ سے سو چراغ جلے ہیں! اِدھر کرپشن کا سوئچ آف ہوا اور اُدھر بہت سے معاملات کا بریک ڈائون شروع ہو جائے گا۔ کرپشن ہے تو کئی میلوں کی ''رونق‘‘ ہے! اور مرزا ہیں کہ اس شغل میلے کی جان کے در پے ہو گئے ہیں۔
پاکستانی معاشرے کی ساخت اب کچھ ایسی ہے کہ ہر سیدھی چیز الٹی نظر آتی ہے۔ نیکی کیجیے تو لوگ شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ کسی کی مدد کا قصد کیجیے تو ذہن میں شبہات جنم لیتے ہیں۔ کسی معاملے کو درست کرنے کی کوشش کیجیے تو لوگ حیرت کی تصویر بن کر دیکھتے ہیں اور کیوں نہ دیکھیں کہ اب درستی کی راہ پر گامزن ہونا لوگوں کو حیرت میں مبتلا کرنے کے لیے انتہائی کافی ہے!
ہم تو اس بات پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ مرزا جیسے لوگوں کی خواہشیں پوری نہیں ہوتیں اور معاملات درست نہیں ہوتے۔ ورنہ خدا جانے کیا ہو۔ پھر تو اپنے ہی معاشرے اور ماحول کو پہچاننا مشکل ہو جائے! اگر مرزا کی خواہشیں پوری ہوں تو پھر کیفیت یہ ہو کہ ع
... پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی
مرزا ہر معاملے کو درست دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اس ایک خواہش میں ان گنت خواہشیں چھپی ہوئی ہیں‘ بسی ہوئی ہیں اور ہر خواہش پر (معاشرے کا) دم نکلے اور ہمیں یقین ہے کہ تمام خواہشیں پوری ہونے پر بھی مرزا یہی کہیں گے کہ ع
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے