کیاخبر،کہانی خودالجھی ہے یاالجھائی گئی ہے،مگر یہ طے ہے کہ وقتی طور پر پوری قوم اس سے کہیں زیادہ اہم ایشوزاورمسائل کوچھوڑکرایک ایسے معاملے میںالجھی ہوئی ہے جس سے معیشت کی بدحالی،لوڈشیڈنگ اورغربت سے بلبلاتے اور پسے ہوئے عوام پر ذرا بھی فرق پڑنے والا نہیں۔اور تو اوریہ جو دور کی کوڑیاں لے کر آتے ہیں کہ اس سے آئندہ آمریت کا رستہ رک جائے گا یا آئین کا احترام اورپاسداری شروع ہو جائے گی ، لگتا ہے کہ نہ یہ دنیا کی تاریخ سے آگاہ ہیں نہ اپنی تاریخ سے آشنا۔ آمریت کی روک تھام اورآئین کا احترام صرف اور صرف گڈ گورننس کو یقینی بنانے سے ممکن ہوا کرتا ہے۔ اوپراوپرکے کاسمیٹکس اوردکھاوے کی آڑ میں ذاتی انائوں کی تسکین سے حالات کبھی بہتر نہیں ہوں گے بلکہ بگڑیں گے ہی۔ مجرم کو وہی پتھر مارتا اچھا لگتا ہے جس کا اپنا دامن صاف ہو یا کم ازکم پچھلے داغ دھوکر آئندہ کے لیے دامن کو داغوں سے بچانے کی خواہش رکھتا ہو۔
پسی ہوئے پاکستانی عوام کے لیے اور اس کی خدمت کے لیے وقت جتنا قیمتی،جتنااہم اورجتنا کم مملکتِ خداداد پاکستان میں ہے ، شاید ہی اتنا اہم کسی اورملک میں ہو۔الطاف حسین کے بیان سے لے کر بلوچستان میں سی این جی لینے کے لیے لائنوں میں لگے عوام اور گیس کی شارٹیج کے باعث ڈنڈے لے کر گلیوں میں نکلتی ہوئی خلقت کے مسائل تک اس ملک میں کون سا ایسا مسئلہ ہے جسے حل کرنے ،غور وفکر کرنے کی ضرورت نہ ہو۔ لیکن میڈیا ،حکومت اور ریاست تک ہر شخص کی صلاحیتیںاورذہن مشرف کو پھنسانے یا بچانے میں لگا ہوا ہے۔ مشرف جو اب ایک عضومعطل ہو چکے ہیں ،اس سے بڑی ان کی سزاہوہی نہیں سکتی تھی کہ ان کونظراندازکر دیا جاتا ۔جانے کیوں قابل اجمیری کا شعر یاد آگیا:
جیسے ہم جان ہی نہیں رکھتے
موت کا اجتناب تو دیکھو
قوم کو رسواکرنے والے ، قوم کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالنے والے کے لیے اس سے بڑھ کر اذیت
کیا ہو تی کہ کوئی ان کی طرف نظر اٹھا کر نہ دیکھتا ، کیونکہ ان جیسے غیر اہم ہو جانے والے شخص کو نظر اٹھا کر دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔اپنی انائوںاورذاتی اختلاف کی بلائوں کو پالنے کے بجائے اگر حکمرانوں کے دل میں قوم کا سچا درد ہوتا تو انہیں مشرف کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنے کی فرصت ہی نہ ہوتی ، کیونکہ اٹھارہ کروڑ سے زیادہ عوام کے ایک دو نہیں بیسیوں مسائل ایسے ہیں جو عوام کی گردنوں کا پھندا بنتے جا رہے ہیں۔ تعیشات نہیں جسم وجان کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے جوکچھ ضروری ہواکرتا ہے عوام کو وہ دستیاب نہیں۔ کیا پٹرول کی جگہ مشرف ٹرائل کو ٹینکی میں بھر کرعوام رکشہ، وین، پبلک ٹرانسپورٹ ، موٹرسائیکل چلا سکتے ہیں ؟ کیا ڈھائی ہزار روپے پانے والی معصوم بچی ارم جو اپنی مالکن ناصرہ کے ہاتھوں ماری گئی مشرف ٹرائل کے باعث واپس آسکتی ہے ؟ یا اگر آجائے تو کیا ڈھائی ہزار کی خاطر اس کے جو ماں باپ اسے گھر سے میلوں دور کسی پراڈکٹ کی طرح استعمال کے لیے چھوڑ گئے تھے ، اس قابل ہوجائیں گے کہ بیٹی کو اپنے پاس رکھ سکیں ؟ کیا بارہ کروڑ سے زیادہ عوام جو بمشکل چار پانچ ہزار روپے کما سکتے ہیں مشرف ٹرائل سے ان کی آمدنیاں بڑھ کر چالیس ہزار ہوجائیں گی؟ کیا مشرف ٹرائل سے اندھیروںمیں ڈوبی مملکت میں اجالوں کا سماں ہو جائے گا؟ یقیناً ان سب کا جواب نفی میں ہو گا۔ پہلے بھی لکھا تھا ، پھر عرض کرتا ہوں کہ مجرم کو ہر صورت میں اس کے انجام تک پہنچانے کی کوشش کرنی چاہیے اور مجرم ، مجرم ہی کہلائے گا ، اس کی حمایت کرنی چاہیے نہ اس کا ساتھ دینا چاہیے مگر یہ طے ہے کہ جب کروڑوں عوام غربت کی چکی میں چنوں کی طرح پِس رہے ہوں تو تمام تر صلاحیتیں کسی ایک مجرم کو سزا دلوانے کے بجائے خواہ وہ کتنا ہی بڑا مجرم کیوں نہ ہوکروڑوں عوام کی زندگیوں کو بہتر بنانے میں صرف کر دینی چاہئیں۔افسوس کہ یہ بات تاجرانہ ذہن رکھنے والے سیاستدان کبھی نہیں سمجھ سکتے کہ نظر انداز کردینا دراصل موت سے بھی کہیں بڑی سزا ہوا کرتی ہے۔ موت یا پھانسی کا پھندا تو ایک بار اذیت دے کر مجرم کو ختم کردیتا ہے جبکہ نظرانداز کیا جانا ، غیر اہم ہو جانا کسی بھی شخص کو پل پل میں سو سو بار مرنے کی اذیت سے بڑھ کر محسوس ہوتا ہے ۔ جاتے جاتے پھر کسی کا شعر یاد آگیا:
اس سے بڑھ کر تِری سزا بھی نہیں
جا تجھے تیرے حال پر چھوڑا