پرانا سال 2013ء اپنے ساتھ بہت کچھ لے گیا ہے۔سپریم کورٹ چیف جسٹس افتخار چودھری ، جی ایچ کیو جنرل اشفاق پرویز کیانی اور ایوان صدر جناب آصف علی زرداری کے بغیر اپنے آپ میں مگن ہیں۔وہی رنگ ہے بزم کا وہی روز جام چھلکے...جانے والے خیالوں اور خوابوں میں اپنے وجود کا احساس دلاتے ہیں، جبکہ آنے والوں کا سکہ چلتا ہے۔اب انہی کے خیالات اورترجیحات کو ان کے دائرے میں ترجیح حاصل ہے۔علی الترتیب جسٹس تصدق جیلانی، جنرل راحیل شریف اور صدر ممنون حسین کی شخصیات اپنی ہیں۔ ان کا نقش اپنا ہے۔جسٹس افتخار چودھری نے تاریخ میں اپنا نام جنرل پرویز مشرف کے منہ زور اقتدار کے مقابل کھڑے ہو کر لکھوایا۔ان کو پاکستان کا پہلا عوامی چیف جسٹس کہا جاتا تھا۔ کئی مداح تو انہیں باقاعدہ منتخب قرار دیتے کہ اپنے منصب پر وہ دو مرتبہ بحال ہوئے ایک بارسپریم کورٹ نے ان کے خلاف ریفرنس کو داخل دفتر کرایا تو دوسری بار وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے انہیں اور ان کے رفقاء کو اس طرح انصاف کے ایوانوں میں لابٹھایا کہ پی سی او کے تحت ان کے خلاف اقدام کے سارے اثرات ختم کردیئے۔ایوان عدل سے باہر گزارا ہوا وقت بھی ''عہد افتخار‘‘ کا حصہ قرار پایا اور عرصہ ٔملازمت میں تسلسل قائم کردیا گیا۔ہر دو بار رائے عامہ ہی کی طاقت نے اپنے آپ کو منوایا۔ اگر وکلاء، میڈیا اور اہلِ سیاست یک زبان نہ ہوتے تو نہ سپریم کورٹ سے بحالی کا پروانہ جاری ہوتا اور نہ ہی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اس حرکت کا ارتکاب کرسکتے، جس کے نتیجے میں ان کے ہاتھ پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں آیا۔ بحال شدہ چیف جسٹس اور ان کے رفقا کے ہاتھوں وہ بے حال ہوئے اور دنیا کی تاریخ میں توہین عدالت کی پاداش میں ڈس کوالی فائی ہونے والے پہلے وزیراعظم قرار پائے۔کہا جا سکتا ہے کہ انصاف اندھا ہوتا ہے، لیکن یہ بھی تو کہا جاتا ہے کہ انصاف بھلے اندھا ہو، جج کو اندھا نہیں ہونا چاہیے۔مزید یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اہل سیاست کو بھی آنکھیں بند نہیں کر لینا چاہئیں، اگر وہ اندھا دُھند دوڑیں گے تو محض گڑھے کو کوس نہیں سکیں گے۔بہرحال یہ وہ نکات ہیں جن میں مزید نکتہ آفرینی کی گنجائش موجود ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جسٹس افتخار چودھری نے اپنی اننگ خوب کھیلی، انہیں جسٹس ثاقب نثار نے ''ٹنڈولکر‘‘ آف دی ریکارڈ کہا ہو یا آن دی ریکارڈ، ان کی طویل اننگز پر یہ ''پھبتی‘‘ کسی جا سکتی ہے۔ٹنڈولکر دنیا کی تاریخ کے کامیاب ترین بیٹسمین سمجھے جاتے ہیں۔200ٹیسٹ کھیلے، جن میں 15921رنز حاصل کئے۔وہ دنیا کے واحد کھلاڑی ہیں، جنہوں نے سو سنچریاں بنائیں، ایک روزہ میچوں میں ڈبل سنچری کا ریکارڈ قائم کیا۔جسٹس افتخار چودھری نے بھی چوکے چھکے خوب لگائے، لیکن انہیں ٹنڈولکر کی طرح کی رخصتی میسر نہیں آ سکی۔جاتے جاتے وکلاء تنظیموں سے ان کی ایسی ٹھنی کہ بار ایسوسی ایشنز کی طرف سے ان کے اعزاز میں الوداعی تقریبات منعقد کرنے سے انکار کر دیا گیا۔ سپریم کورٹ بار کے نائب صدر نے ہمت کی تو اسے ان کا ذاتی فعل قرار دے کر ان کی گوشمالی کر ڈالی گئی۔میڈیا سے تعلق میں کھٹاس اس طرح پیدا ہوئی کہ سپریم کورٹ میں ان کے اعزاز میں دیئے جانے والے ریفرنس کی تقریب کی وڈیو ایک چینل لے اُڑا۔ اس پر باقی چینلز شدید ناراض ہو گئے، انہیں اپنے ساتھ اس ''امتیازی سلوک‘‘ کی توقع نہیں تھی، وڈیو اُڑانے والے رپورٹر اسے اپنا ''سکوپ‘‘ قرار دیتے رہے، لیکن جسٹس افتخار چودھری سے میڈیا کے تعلقات کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ گیا۔چند ایک نے دل کی بھڑاس ایسے نکالی کہ فضا میں تعفن پھیل گیا۔
ٹنڈولکر کی شاندار کارکردگی کو البتہ خوب خراج تحسین پیش کیا گیا۔جہاں جہاں کرکٹ کھیلی جاتی ہے، وہاں وہاں ان کے لئے پھول کھلے ہوئے تھے۔پہلی بار بھارت کا سب سے بڑا اعزاز ''بھارت رتنا‘‘ کسی کھلاڑی کو عطا ہوا اورراشٹرپتی بھون ان کے لئے سراپا سپاس بن گیا۔جسٹس افتخار اس طرح رخصت ہوں گے، یہ کسی کے سان گمان میں بھی نہ تھا۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے کئے کرائے پر پانی پھیر دیا جائے، یقینا انہوں نے یادگار فیصلے کئے ہیں اور عدلیہ کا رعب بٹھانے میں ہر حد سے گزرے ہیں۔ عام آدمیوں کی فریادیں سنی ہیں، اور سپریم کورٹ کے انسانی حقوق سیل نے ہزاروں کیا لاکھوں کے زخموں پر مرہم رکھی ہے، لیکن کچھ نہ کچھ ایسا بھی ہوا ہے ،جس کی وجہ سے ''چیف تیرے جاں نثار بے شمار ،بے شمار‘‘ کے نعرے فضا میں نہیں گونج رہے۔
نئے چیف جسٹس کا اسلوب مختلف ہے، ان کے پاس چند ماہ ہیں۔ وہ جس توازن اور اعتدال کے ساتھ کام کرنے کے عادی ہیں، اس سانچے میں رہتے ہوئے وہ عوام کی توقعات پر کس طرح پورا اترتے ہیں، یہ آنے والے دنوں میں واضح ہو گا۔
ایوان صدر کا رنگ بھی مختلف ہے۔ آصف علی زرداری کے جاہ و جلال کی جگہ ممنون حسین کے جمال وکمال نے لے لی ہے۔ زرداری اونٹنی یا بکری کا دودھ پیتے اور پرہیزی کھانا کھاتے تھے۔ اُن کے رہائشی علاقے میں ملاقات اور خواب گاہ کے باہر بھی اُن کے ذاتی محافظ چوکس رہتے تھے۔ رات بھر ملاقاتیں کرتے اور احکامات جاری ہوتے اور دن کے پہلے پہر میں سونا نصیب ہوتا۔ ممنون حسین آئینی صدر ہیں، لذیذ کھانے کھاتے( اور کھلاتے) شاعروں، کالم نگاروں اور سیاسی دانشوروں سے گپ شپ کا لطف اٹھاتے ہیں۔ ان کے سر پر حکومت کا بار ہے نہ جماعت کا۔ اس لئے ان کی صحت کے بہتر ہونے(یا بہتر رہنے) کے امکانات روشن ہیں۔
جنرل اشفاق پرویز کیانی چھ سال گزار کر فوج کو خداحافظ کہہ چکے۔ وہ بھی تھکن اتار رہے ہیں۔ سنا ہے کہ اُن کے جانشین کا تقرر کرتے ہوئے اُن کو اعتماد میں نہیں لیا گیا، یعنی ''وچلی گل‘‘ نہیں بتائی گئی۔ اب وہ اپنی یادوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، اگر انہیں کتابی شکل بھی دے دیں تو غیر مناسب نہیں ہو گا۔
کیانی صاحب اپنے جانشین کو اپنے پیشرو کی شکل میں ایک ایسی الجھن کے سپرد کر گئے ہیں، جس سے نبٹنا آسان نہیں ہے۔ جنرل پرویز مشرف پر3 نومبر 2007ء کے بالا تراز آئین اقدام، جسے وہ ایمرجنسی پلس کا نام دیتے تھے، کی وجہ سے مقدمہ قائم کیا جا چکا ہے۔ خصوصی عدالت نہ صرف تشکیل دی جا چکی، بلکہ اس نے کام بھی شروع کر دیا ہے۔ پرویز مشرف پاکستان کی تاریخ کے پہلے جنرل قرار پائے ہیں جن کے خلاف دستور کی دفعہ6کی خلاف ورزی کا مقدمہ چلنا ہے۔ اب ان کو بھی دن میں تارے نظر آ رہے ہیں۔ وہ عدالت جانے کے لئے گھر سے نکلے تو ہسپتال پہنچ گئے، ان کے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہو گئی تھیں۔ یہ خبر بھی اڑی ہوئی ہے کہ پار کنسن ان کے تعاقب میں ہے۔ وہ فوجی قیادت کی دہائی دے رہے ہیں۔ چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ فوج ان کے ساتھ ہے۔ اگر جنرل کیانی ان کا راستہ سختی سے روک لیتے، وہ بیرون ملک سے واپس تشریف نہ لا سکتے، تو آج جنرل راحیل آزمائش سے دوچار نہ ہوتے۔ وفاقی حکومت کا ہاتھ (مقدمہ قائم کرنے سے پہلے) زیادہ آسانی کے ساتھ روکا جا سکتا تھا۔ انہیں بیرون ملک واپس بھجوانا محال نہ ہوتا۔ اب کمانڈو جرنیل کا قضیہ کیسے نبٹایا جائے؟ خاموش رہ کر تماشہ دیکھا جائے یاکوئی دوسرا تماشہ دکھایا جائے۔سمجھ میں یہی آ رہا ہے کہ کچھ بھی سمجھ میں نہیں آ رہا... کچھ کہنا بھی مشکل ہے اور چپ رہنا بھی آسان نہیں ہے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)