آدھا اختیار فوج کے پاس تھا اور
آدھا عدلیہ کے پاس...گیلانی
سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ''آدھا اختیار فوج کے پاس تھا اور آدھا عدلیہ کے پاس‘‘چنانچہ میں نے تو وہی کچھ کرنا تھا جو میرے اختیار میں تھا یا دیگر اہل خانہ کے پاس‘اور ہم نے صرف اسی اختیار تک ہی اپنے آپ کو محدود رکھا اور زیادہ لالچ ہی نہیں کیا کیونکہ لالچ کرنا ہم قناعت پسندوں کا کام نہیں ہے یعنی جو روکھی سوکھی مل گئی ‘اسی پر گزارہ کیا کیونکہ ہمارا ماٹو تھا کہ جو دے اس کا بھلا‘اور جو نہ دے اُس کا بھی بھلا‘اور نہ دینے والے یا تو خود ہی ہماری حالت پر ترس کھا لیا کرتے تھے یا ہم اپنا بچا کھچا اختیار استعمال کر کے اُن سے سارا کچھ نکلوا لیا کرتے تھے کیونکہ خدا بھی انہی کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا ''وزیر اعظم گالی کھانے کے لیے تھا‘‘ کیونکہ کھانے کی کوئی چیز ایسی نہیں تھی جو وزیر اعظم کو مرغوب نہ ہو جبکہ راجہ پرویزاشرف صاحب کا بھی یہ عالم تھا اور ان کے اختیار میں بھی وہی کچھ تھا جو وہ پیٹ پر پتھر باندھ کر کر گزرے اور میری طرح تاریخ میں اپنا نام سنہری حروف میں لکھوا گئے بلکہ ہم نے تو ایسے ریکارڈ قائم کئے کہ ہمارا نام تو گنیز بُک آف ورلڈ ریکارڈز میں ہونا چاہیے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل پر بات کر رہے تھے۔
قرضہ سکیم میں مجھ سمیت کسی کی
سفارش نہیں چلے گی...نواز شریف
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''قرضہ سکیم میں مجھ سمیت کسی کی سفارش نہیں چلے گی‘‘کیونکہ اگر دیگر تمام معاملات میں میری سفارش بلکہ اشارہ چلتا ہے تو اس سکیم میں سفارش کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ قرضہ دینے والے خود ہی معلوم کر لیں گے کہ قرضہ لینے والا خود کس حدود اربع کا مالک ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''نوجوانوں کو قرضے دے کر انہیں پائوں پر کھڑا کریں گے‘‘جس طرح قرضے لے لے کر ملک کو پائوں پر کھڑا کر رہے ہیں اور بار بار دھڑا م سے نیچے گرنے کے بعد پھر پائوں پر کھڑا ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ییلو کیب سکیم کی طرح اس سکیم میں بے قاعدگیاں نہیں ہونے دیں گے‘‘اگرچہ وہ سکیم شروع کرنے سے پہلے بھی یہی دعویٰ کیا گیا تھا لیکن کیا کیا جائے کہ یہ ملک خود ہی اتنا بے قاعدہ ہو چکا ہے کہ اس کام کو روکا جا ہی نہیں سکتا‘تاہم اعلان اور دعوے کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے‘ہیں جی‘انہوں نے کہا کہ ''مذہب ‘رنگ‘نسل کی بنیاد پر فیصلے نہیں ہونے چاہئیں‘‘البتہ برادری اور رشتے داری کی بات اور ہے کیونکہ وہ تو کووّں کو بھی پیاری ہوتی ہے اور جس کوّے کو پیاری نہیں ہوتی اُسے برادری سے نکال دیا جاتا ہے۔ آپ اگلے روز حیدر آباد میں ایک جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
روزانہ اربوں روپے کے نوٹ
چھاپے جا رہے ہیں...منظور وٹو
پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر میاں منظور احمد خاں وٹو نے کہا ہے کہ ''روزانہ اربوں روپے کے نوٹ چھاپے جا رہے ہیں‘‘جبکہ ہم اپنے گزشتہ دور میں سٹیٹ بنک سے نوٹ چھپوانے کی بجائے خود ہی نوٹوں سے بھر پور ہو جایا کرتے تھے اور ہم نے سٹیٹ بنک کو یہ زحمت کبھی نہیں دی کیونکہ ہم مزدور آدمی تھے اور سارا کام خود ہاتھ سے کرنے کو ہی ترجیح دیتے تھے اور اپنی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے ہی کھری کر لیا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ''شیر پر مُہر لگانے والے اب پچھتا رہے ہیں‘‘ اور ‘یہ بات اکثر جیالوں نے مجھے خود بتائی ہے جو ناراضی کی وجہ سے شیر کو ووٹ ڈال آئے تھے‘اگرچہ وہ آئندہ بھی ہمیں ووٹ نہیں دیں گے کیونکہ وہ بھی خوب جانتے ہیں کہ ووٹ لے کر ہم نے جو کام کرنا ہے‘پہلے ہی جی بھر کے کر چکے ہیں‘انہوں نے کہا کہ ''سابق صدر مشرف کو بھی دیگر شہریوں کی طرح انصاف ضرور ملنا چاہئے‘‘ کیونکہ انصاف ہو یا کوئی اور چیز ہر شخص کو ضرور ملنی چاہیے کیونکہ ہر شخص ہماری طرح ہر چیز خود حاصل کرنے کے قابل نہیں ہوتا‘نہ ہی ہر شخص اتنا ہنر مند اور کاریگر ہوتا ہے۔ آپ اگلے روز حیدر آباد میں ایک اجتماع سے خطاب کر رہے تھے۔
فخر زمان
متعدد کتابوں کے مصنف‘سابق وفاقی وزیر ‘سینیٹر ‘دو بار اکیڈیمی ادبیات کے چیئرمین اور عالمی پنجابی کانفرنس کے سربراہ فخر زمان کی دو تازہ کتابیں منظر عام پر آئی ہیں جن میں''دھنک رنگ تتلی‘‘ کے نام سے ایک پنجابی ناول ہے جو کلاسیک والے آغا امیر حسین نے چھاپا ہے۔ اس کے علاوہ اردو غزلوں کا مجموعہ''شہر گرہن‘‘ ہے۔ ان کی اردو غزلوں کا ایک مجموعہ ''زہر اب‘‘کے نام سے پہلے ہی شائع ہو چکا ہے۔ شہر گرہن ایک نئی اور خوبصورت ترکیب ہے جو مصنف کے رجحانِ طبع کی بھر پور نمائندگی کرتی ہے۔ انہوں نے ایک دفعہ اعلان کیا تھا جو شاعری مزاحمتی نہ ہو ‘وہ اسے شاعری نہیں سمجھتے۔ تاہم‘موجودہ مجموعے میں زندگی کے سب رنگ دستیاب ہیں۔ کچھ شعر دیکھیے:
کوئی دیتا ‘کوئی نہیں دیتا
سب اُدھار ایک جیسے ہوتے ہیں
ای میل تیرے نام کی میں کیسے کھولتی
تو نے بدل دیا ہوا ہے اپنا پاس ورڈ
کہتے ہیں ساری رات نہیں آتی اُن کو نیند
اک روز اپنے پاس ہم اُن کو سُلائیں گے
انساں کو بھوکا رکھنے کا عمدہ ہے یہ طریق
ایٹم بنائو روز و شب اور کھائو صرف گھاس
جو کھونا تھا کھو بیٹھا ہوں
اس سے بڑھ کر کھو نہیں سکتا
اخبار میں اک گم شدہ انساں کی ہے تصویر
آئینے میں دیکھا ہے کہیں میں تو نہیں ہوں
میں تو عُمر گھٹا نہیں سکتا تُو ہی عُمر بڑھا لے
میں ہوں سُوکھا پیڑ‘تُو مجھ پر اپنی بیل چڑھا لے
شاموں کو پھرنا شہر میں ممکن نہیں رہا
چوڑی ہوئی ہیں سڑکیں تو فُٹ پاتھ گُم ہوئے
جیلیں بھی ہم نے کاٹی ہیں‘کوڑے بھی کھائے ہیں
بیٹھے ہیں تخت پر جو صفِ دشمناں میں تھے
دشمن کو یاد رکھا کہ واضح تھی دشمنی
جو جان سے قریب تھے‘سارے بُھلا دیے
ان کے پنجابی ناول پر بات پھر کبھی ہو گی‘فی الحال تو اس ناول کے چھپنے کی اطلاع دینا تھی اور پنجابی فکشن ‘اور ‘فخر زمان کے پڑھنے والوں کو اس کا انتظار بھی تھا۔ واضح رہے کہ پنجابی زبان میں ان کے پانچ ناول پہلے ہی شائع ہو چکے ہیں جن کا انگریزی اور مختلف زبانوں میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔
آج کا مقطع
اک فتح اور اپنے مقّدر میں ہے‘ ظفر
اک غزوہ اور اپنی رسالت میں آئے گا