تحریر : اوریا مقبول جان تاریخ اشاعت     06-01-2014

سیکولر ڈکٹیٹر اور اس کے حلیف

پاکستان کی طرز حکمرانی کا مزاج ازل سے ہی آمرانہ رہا ہے۔ کوئی بیرکوں سے اٹھ کر آئے یا کچی بستیوں کے مکینوں کو خواب دکھا کر ان کے ووٹوں سے مسند اقتدار پر بیٹھے‘ ان سب کو آمر کے لہجے اور رنگ روپ میں ڈھلتے دیر نہیں لگتی۔ سبھی کے ہاتھ عوام کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ ہر کسی کا دامن بددیانتی، بدعہدی، دھوکہ دہی اور فریب کی سیاہی سے داغدار ہے۔ لوٹ مار کے بازار میں سبھی نے جی بھر کر لوٹا اور سیاسی شعبدہ بازی کی سٹیج پر ہر کسی نے فنکاری دکھائی۔ لیکن ہمارے ''مبلغ علم‘‘ اور ''مروجہ دانش‘‘ کے اصول نرالے ہیں۔ یہاں ڈکٹیٹر یا آمر صرف وہی ہوتا ہے جو بندوق لے کر آئے لیکن جو ووٹ لے کر آئے اور آ کر بندوق چلائے اسے ڈکٹیٹر نہیں کہہ سکتے۔ وہ تو ایک جمہوری رہنما ہے جسے عوام نے اپنا گلا کاٹنے کے لیے خود منتخب کیا ہے۔ اب اگر عوام خود اپنا گلا کٹوانے کے لیے کسی ایسے شخص کو ووٹ دیتے ہیں جس کی آستین میں خنجر چھپا ہے تو اسے پورا حق حاصل ہے کہ وہ ''جاہل اور بے وقوف عوام‘‘ کو ان کے اس فعل کی بدترین سزا دے۔ وہ اس سزا کے مستحق ہیں‘ اس لیے کہ انہوں نے ایسے ظالم کو خود اقتدار کی مسند پر بٹھایا۔ اس تعریف کو مان لیا جائے تو پاکستان میں چار ڈکٹیٹر برسراقتدار آئے اور چاروں بندوق کے زور پر اقتدار پر قابض ہوئے۔ ان میں سے تین ڈکٹیٹر سیکولر تھے۔ اگرچہ ایوب خان اور یحییٰ خان سیکولر طرز حکومت کے حامی اور سیکولر طرز زندگی یا لائف سٹائل رکھتے تھے لیکن سیکولرازم کو مکمل طور پر اوڑھنا بچھونا بنانے والے پرویز مشرف تھے‘ جنہوں نے اپنے سارے دور میں ملک پر سیکولر اخلاقیات کو نافذ کرنے کے لیے پوری توانائیاں صرف کیں۔ ان کی آمد کے ہنگام انہیں کمال اتاترک کا پاکستانی ایڈیشن ثابت کیا گیا۔ کتّوں کے ساتھ تصویروں سے لے کر راگ رنگ اور عیش و عشرت کے نام نہاد ''عالمی معیار‘‘ پر پوری اترتی ہوئی ان کی زندگی کو سراہا جانے لگا۔ یہ عالمی معیار بھی ہمارے ہاں عجیب ہے۔ ہم سچ، ایمانداری، قانون کی پاسداری، انصاف، احترام انسانیت کو اپنے اوپر لاگو نہیں کرتے جو دنیا بھر میں عالمی اخلاقیات کے معیار ہیں لیکن مخلوط ماحول، رات کی محفلیں، جنسی آزادی اور شراب و شباب کو اپنانا ہی ترقی کی منزلیں طے کرنے کا معیار سمجھا جاتا ہے۔ پرویز مشرف کے دور اقتدار میں ان تمام اخلاقیات کو زبردستی اس ملک میں نافذ کرنے کی کوشش کی گئی۔ میراتھن دوڑ سے لے کر بسنت کے ہنگاموں اور فن اور آرٹ کے نام پر فحاشی کی سرپرستی کو عام کیا گیا۔ یہ وہ زبردستی نافذ کی جانے والی لذت پرستی ہی تھی جس نے اس ملک کی اکثریت کو ایک شدید کرب اور رنج میں مبتلا کر دیا۔ ول ڈیورانٹ نے دنیا بھر کی تاریخ کا جب تجزیہ کیا تو اس نتیجے پر پہنچا کہ معاشرے میں شدت پسندی اس وقت جنم لیتی ہے جب کوئی آمر یا ڈکٹیٹر وہاں معاشرتی اخلاقیات کے مقابلے میں زبردستی لذت پرست اقدار کو نافذ کرنے لگتا ہے۔ وہ اپنی کتاب ''Heroes of History‘‘ میں لکھتا ہے: ''نیرو، کوموڈس اور بعد کے شہنشاہوں کے ماتحت قدیم روم کے اخلاقی انحطاط نے عیسائیت کے لیے راستہ ہموار کیا۔ شہنشاہ قسطنطین نے عیسائیت کو سرکاری طور پر اپنایا اور تحفظ دیا اور وہ نظم وضبط اور شائستگی کو قائم رکھنے والی قوت بن گئی۔ کرائے کے فوجیوں کا تشدد اور اطالوی نشاۃ ثانیہ کے دوران بورجیائوں کے ماتحت کھلی لذت پرستی کا نتیجہ کلیسا کی صفائی اور اخلاقیات کی بحالی کی صورت سامنے آیا۔ ایلزبتھ کے انگلینڈ کی بے خطر تلذذ پسندی نے کروم ویل کے عہد میں پیوریطان غلبے کی راہ ہموار کی اور نتیجتاً چارلس دوم کے دور میں انگلینڈ پاگان ازم تک پہنچا۔ انقلابِ فرانس کے دس برس کے دوران حکومت، شادی اور خاندان کی ٹوٹ پھوٹ کا خاتمہ قانون، نظم وضبط اور نپولین اول کی حاکمیت کی بحالی کے ذریعے ہوا۔ بائرن اور شیلے کے رومانوی پاگل پن اور جارج چہارم کے نشاط پرست رویے کے بعد وکٹوریائی انگلینڈ کی عوامی سماجی شائستگی آئی‘‘۔ ول ڈیورانٹ نے اس میں پوری تاریخ کا احاطہ کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ اگر کوئی آمر معاشرے میں زبردستی نشاط پرستی، بے راہ روی اور مردوزن کے اختلاط کو عام کرتا ہے اور اس کی فوجی طاقت کے سامنے عوام خود کو بے بس محسوس کرنے لگتے ہیں تو ایسے معاشرے میں اخلاقی اقدار کی پاسداری اور تحفظ کے لیے شدت پسند اور لٹھ بردار گروہ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ چونکہ یہ گروہ لوگوں کے جذبات کی ترجمانی کر رہے ہوتے ہیں‘ اس لیے ان کے لیے لوگوں کے دلوں میں نرم گوشہ بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ تاریخ کا یہی ردعمل پرویز مشرف کے دور میں سامنے آیا۔ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کا المیہ ایک علامت کے طور پر ابھرا اور پھر اس جگہ پر تشدد اور بربریت نے پورے ملک کو ایک رزم گاہ میں تبدیل کر دیا۔ مشرف کے سیکولر ازم کے ساتھ ایک اور رویہ بھی نتھی ہو گیا اور وہ مغرب کا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اعلان جنگ اور اس میں پاکستان کی حکومت اور افواج کا حصہ ڈالنا تھا۔ پرویز مشرف کو وہ دور نصیب ہوا جب دنیا کے اڑتالیس ممالک نے مل کر نہتے مسلمان پڑوسی افغانستان پر حملہ کیا اور جارحیت کے لیے پاکستان کی سرزمین کو استعمال کیا گیا۔ پاکستان کے ہوائی اڈوں سے ستاون ہزار دفعہ جنگی طیارے اڑے اور انہوں نے مسلمانوں کے پرخچے اڑائے۔ اس کامیابی پر اس سیکولر ڈکٹیٹر کا فاتحانہ رویہ ویسا ہی تھا جیسا دنیا کے کسی بھی مسلمان دشمن سربراہ کا ہو سکتا ہے۔ اسے امت مسلمہ سے اس غداری پر تعریف و توصیف بھی ملی اور اس کے بقول پاکستان کا اس غنڈہ گرد عالمی برادری میں وقار بھی بلند ہوا۔
آج یہ سیکولر ڈکٹیٹر مغربی تہذیب کی ایک دوسری قدر یعنی جمہوریت کے کٹہرے میں کھڑا ہے۔ سیکولرازم بھی جدید مغربی تہذیب کا شاخسانہ ہے اور سرمایہ دارانہ جمہوریت بھی۔ دونوں کے مداح ایک ہی گروہ کے دانشور ہوتے ہیں۔ ان کے خواب جمہوری طور پر پورے نہ ہوں تو یہ کسی ایسے ڈکٹیٹر کا خواب دیکھتے ہیں جو ان کی اخلاقیات زبردستی معاشرے میں نافذ کر دے۔ اللہ کے راستے پر چلنے والوں کو شدت پسند کہہ کر قتل کرے اور عالمی برادری میں وقار بلند کرے۔ لیکن جیسے ہی اس سیکولر ڈکٹیٹر کی گرفت کمزور ہونے لگتی ہے تو یہ اس درخت سے اڑ کر جمہوریت کے درخت پر آ بیٹھتے ہیں، ایسے میں وہ سیکولر ڈکٹیٹر قید تنہائی میں سوچتا ہو گا کہ یہ کس قدر بے مروت اور بے وفا لوگ ہیں۔ کل تک یہ لوگ میری پالیسیوں کے بارے میں رطب اللسان تھے۔ مجھے پاکستان کے ''سافٹ امیج کا نمائندہ‘‘ کہتے تھے۔ جامعہ حفصہ ہو یا قبائلی علاقے، ہر جگہ میرے قتل و غارت کا دفاع کرتے تھے۔ میری سجائی محفلوں اور برپا کی گئی ثقافتی رنگا رنگی میں مست ہو کر جھومتے تھے۔ آج انہیں کیا ہو گیا ہے؟ ایسے ہی ہوتا ہے۔ یہ بندوق کے زور پر قائم آمریت یا ووٹ کے نتیجے میں قائم آمریت دونوں گھروں میں رہتے ہیں۔ چند سال ایک گھر کو آباد کرتے ہیں اور دوسرے گھر کو اجاڑتے ہیں۔ پھر دوسرے کو اجاڑ کر پہلے کو آباد کرتے ہیں۔ یہی کھیل ہے جسے اقبال نے ''ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ میں واضح کیا۔ ابلیس اپنے مشیروں سے کہتا ہے۔ ؎
ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر
اور ابلیس کے حوالے سے ایک دوسری نظم میں آمریت اور جمہوریت کی آنکھ مچولی کو کیا خوب واضح کیا۔ ؎
تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام 
چہرہ روشن، اندروں، چنگیز سے تاریک تر

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved