صوفی تو کیا، شاعر وہ خوب تھا۔ حسین بن منصور حلّاج نے کہا تھا: ان کے لیے میں روتا ہوں ، جو راستوں میں سرگرداں ہیں ، روشنی سے محروم، منزل سے بے خبر۔
یہ عبارت اس حال میں لکھی جا رہی ہے کہ پروفیسر احمد رفیق اختر پندرہ بیس شائستہ سامعین کے مقابل فکر و نظر کے موتی رول رہے ہیں ۔ انہوں نے طلب کیا تھااور اصرار کے ساتھ ۔ادھر ان کے بعض آرزومندوں کا مطالبہ کہ جائو ،حاضری کا وقت طے کرو۔ فون پر گزارش کی تو حکم دیا: چلے آئو۔ ان کے دفتر پہنچا تو ان سامعین کو پایا۔ گوش بر آواز!
ایسا ہی ایک تجربہ تہران میں کیا تھا۔ سالِ گزشتہ موسمِ بہار میں۔ ایران میں نوروز کا جشن ابھی ابھی تمام ہوا تھا اور ہوائیں شہر کے کوچہ و بازار میں ، چشموں اور چنار کے درختوں تلے کہانیاں کہاکرتیں۔ پہلی بار منکشف ہوا کہ موسمِ گل کا مطلب کیا ہے ۔ حافظ شیراز کی شاعری کا ایک اور پہلو بے نقاب ہوا۔ اقبالؔ نے حافظ کو مسترد کر دیا تھااور اگرچہ اپنے عالی قدر والد کی محبت سے متعلق اشعار حذف کر دئیے مگر اپنے موقف پر ان کا یقین برقرار تھا۔ وہ عمل کے علمبردار تھے اور حافظ حسنِ فطرت کا اسیر ایک سرمست۔وہ ایک غالب قوم کا شاعراور اقبالؔ زخموں سے چور چور ملّت کا نوحہ خواں ۔ حافظ نے کہا: فراغتے و کتابے و گوشۂ چمنے۔ اقبالؔ کا عزم یہ تھا ۔
میں ظلمتِ شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شرر فشاں ہوگی آہ میری، نفس مرا شعلہ بار ہو گا
عجیب بات یہ ہے کہ دونوں پر بھید ایک ہی عمر میں کھلا اور ایک ہی طرح۔ حافظ ؔ ایک تُک بند تھا۔ مشاعروں میں ، ایرانی جس کا غیر معمولی اہتمام کرتے ،سامعین کا حسنِ سماعت حافظ کے لیے برسوں ایک حسرت ہی رہا۔ پھر وہ واقعہ رونما ہوا ، جس نے تاریخ کی عظیم ترین شاعری کو جنم دیا ۔ بابا کوہی کے مزار پر وہ رویا اور فریاد کرتا رہا۔ یارب! ایک ذرا سی روانی ء طبع کے سوا میں نے کیا مانگا تھا۔ پھر وہ گداز اسے بخشا گیا کہ باقی ہے اور باقی رہے گا۔
قصّۂ سکندر و دارا نہ خواندہ ایم
از ما بجز حکایت مہر و وفا مپرس
( سکندر و دارا کی داستانوں سے میں واقف نہیں ۔ مہر و محبت کی حکایت کے سوا، مجھ سے کچھ بھی نہ پوچھ )۔
کچھ ہیں ، جنہوں نے واردات بیان کی اور کچھ ایسے ہو گزرے ہیں‘ جنہوںنے کہانی کبھی نہ کہی ۔ امام غزالیؒ دس برس کے بعد‘ وہ لوٹ کر آئے تو پانچ سو دینار کے جبّے اور عربی گھوڑے کی بجائے ، دو دینار کی قمیض پہنے ، ایک خچر پہ سوار تھے ۔ ہجرت اس حال میں کی تھی کہ استادِ زمانہ تھے ۔ گھر سے نکلتے تو دو اڑھائی سو طالبِ علم اور استاد ہم قدم ہوتے۔ واپس آئے تو فقر ہی شعار تھا۔ پہلی بار اپنی کتاب عوامی زبان ، فارسی میں لکھی... احیاء العلوم... اب اپنے عہد میں اٹھنے والے ہر سوال کا انہوںنے جواب دیا۔ طوس کے ایک چھوٹے سے گھر میں بچوں کو پڑھایا کرتے مگر امام کہلائے۔ا ٓنے والے زمانوں کے امام بھی۔ ماہیتِ قلب پہ کبھی کوئی سوال کرتا تو عربی کا ایک شعر پڑھا کرتے: جو گزر گیا ، سو گزر گیا۔ اپنی ذات سے انہیں اب کوئی غرض نہ تھی بلکہ پیغام سے ۔ مقصد اولیٰ سے ، مالک سے اور مالک کی مخلوق سے۔
دیارِ دل کے کلس پہ ستارہ جُو ترا غم
تری طلب، تجھے پانے کی آرزو، ترا غم
آخری ایام میں اقبالؔ کی تمنا تھی کہ اپنے قلب و دماغ کی سرگزشت لکھیں ۔ لکھ ڈالتے تو دنیا ہمیشہ باقی رہنے والی ایک دستاویز کو دیکھتی مگر وہ سرکارؐ کی امت ، خاص طور پہ مسلم برصغیر کے مستقبل پہ غور وفکر میں غلطاں رہے ۔ ایسی برکت اللہ نے انہیں عطا کی کہ باید و شاید۔ کبھی کسی شاعر نے کسی سماج کو اس طرح نہ بدلا تھا، جس طرح انہوںنے ۔ جوانی میں ایک اور طرح کی شاعری وہ کیا کرتے ، پھر ان موضوعات کو اجاگر کیا ، جو کبھی شاعری کا عنوان تھے ہی نہیں ۔ اوّل وہ داغ ؔ کے شاگرد تھے۔ فارسی اور جدید انگریزی شعرا سے متاثر ، مناظرِ فطرت کے مصور۔
اے ہمالہ اے فصیلِ کشورِ ہندوستاں
چومتا ہے تری پیشانی کو جھک کر آسماں
پھر اس مقام پہ پہنچے کہ خود بھی حیران ہوئے ۔
سرود رفتہ باز آید کہ ناید
نسیمے از حجاز آید کہ نیائد
سر آمد روزگارِ ایں فقیرے
دگر دانائے راز آید کہ نیائد
اب میںزندگی کو الوداع کہتا ہوں ۔ فکر مند ہوں کہ نسیمِ حجاز اب اس دیار کو آئے گی یا نہیں ۔ دوسرا دانائے راز ہندوستان کے بت کدے کو نصیب ہو گا یا نہیں ؟
عمر ہا در کعبہ و بت خانہ می نالد حیات
تا ز بزمِ عشق یک دانائے راز آید بروں
(زمانوں تک زندگی عبادت گاہوں میں روتی رہتی ہے ، تب آسمانوں سے ایک رازداں اہلِ زمیں کو نصیب ہوتاہے )۔
وجدان کہتاہے اور قرائن یہ بتاتے ہیں کہ کبھی کوئی واقعہ رونما ہوا ۔ کسی شب شاعر نے حضورِ پروردگار میں گریہ کیا ۔تب فکر و نظر کے آفاق روشن ہو گئے ۔ ایسی روانی کہ کوئی نظیر نہیں ملتی ۔ نصف شب کو جاگ اٹھتے ، علی بخش کو متوجہ کرنے کے لیے تالی بجاتے۔ کاغذ اور قلم منگاتے ۔ ایک ذرا سے تردّد اور تامّل کے بغیر ،اوراق پہ روشنی اترنے لگتی ۔ آدمی کا کوئی ہنر ہے اور نہ کوئی کامرانی ۔ عطا و بخشش ہوتی ہے، عطا و بخشش۔ چرواہے بادشاہ ہو جاتے ہیں بلکہ بادشاہوں سے بڑھ کر ۔ عمر فاروقِ اعظم ؓنے کہا تھا: ہم کیاتھے ؟ اسلام نے ہمیں عزت بخش دی ۔ کہا: اونی چولا پہنے ، میں اونٹ چرایا کرتا اور میرا باپ مجھے مارتا کہ سلیقہ نہیں ۔ اپنے ایک گورنر کو معزول کرتے ہوئے رنج سے ارشاد کیا تھا: تیری ماں تجھے روئے ، وہ تجھے چرواہے کے سوا کیا بناتی ۔
آدمی نہیں جانتا اور غور نہیں کرتا۔ راولپنڈی کی ایک محترم خاتون ، جو ایک ممتاز کشمیری لیڈر کی خوش دامن ہیں ، میاں محمد نواز شریف کے ہاں تشریف لے گئیں ۔ وضع داری کا انہوں نے مظاہرہ کیا۔برائے احترام محترمہ کلثوم نواز اور محترمہ مریم نواز بھی کھانے کی میز پر موجود تھیں۔ اچانک وہ بولے: کشمیریوں کی پوری تاریخ نے مجھ سے بڑا لیڈر پیدا نہیں کیا ۔ وہ اکل کھری، بڑبولی خاتون۔ تاب اس میں کہاں تھی ۔ بولی : میاں صاحب، آپ کو یہ بات نہ کہنا چاہیے تھی ۔ کشمیر میں اقبالؔ ہوگزرے ہیں ۔
میاں صاحب حکم لگانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ علم اور ادراک کے بغیر ۔ اہلِ علم کی صحبت کبھی نصیب نہ ہوئی ۔ زیادہ سے زیادہ ڈاکٹر طاہر القادری، شریف خاندان کی مدد سے جو اجاگر ہوئے۔ سنسنی پھیلانے کا، چندہ جمع کرنے کا فن سیکھا۔ ارب پتی بنے تو شیخ الاسلام ہو گئے اور اب نیلسن منڈیلا کے مقام پر فائز ہونے کے آرزومند ہیں ۔ سیّد ابو الاعلیٰ مودودی کبھی ان کے لیے نمونہ ء عمل تھے،پھر آیت اللہ خمینی اور اب نیلسن منڈیلا۔ ارے بھائی ، ہیرو وہ آدمی ہوتاہے ، جو خدمت میں یکسو ہو جائے ، عظمت کا آرزومند نہیں۔ اہلِ عظمت چیختے کبھی نہیں ۔ ہیجان کا شکار نہیں ہوتے ؎
سودائے عشق اور ہے، وحشت کچھ اور شے
مجنوں کا کوئی دوست فسانہ نگار تھا
فرمایا: اب فیصلہ ہو گا کہ یہ جمہوری ملک ہے یا نہیں ؟ پرویز مشرف سے آپ کا تنازع برحق۔ بے شک وہ کٹہرے کا مستحق ہے مگر جمہوری ملک ؟ کیا یہ جمہوری پولیس ہے ؟ جمہوری عدالتیں ؟ سیاسی جماعتیں ؟ سرکاری افسر؟ لیڈر دیوتا اور بادشاہت خاندانوں کی۔ بلاول زرداری ،ذوالفقار علی بھٹو کے مجاور ہیں ، اسفند یار باچا خان کے ۔ مولانا فضل الرحمٰن مفتی محمود کے وارث ۔ سمیع الحق اور محمود اچکزئی اپنے آبا کے ۔ حمزہ شہباز اور محترمہ مریم نواز ؟جنرل پرویز مشرف اپنے انجام کو پہنچے ۔ جنابِ زرداری اور میاں صاحب چند برسوں میں جا پہنچیں گے ۔صوفی تو کیا، شاعر وہ خوب تھا۔ حسین بن منصور حلّاج نے کہا تھا: ان کے لیے میں روتا ہوں، جو راستوں میں سرگرداں ہیں ، روشنی سے محروم، منزل سے بے خبر۔