اپنے دس سالہ دور اقتدار کی آخری اور چوتھی پریس کانفرنس میں بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے بالآخر پردہ اٹھا ہی دیا کہ پاکستان کے ساتھ تنازعات کے حل کی دہلیز تک وہ پہنچ گئے تھے مگر صد ر پرویز مشرف کی اقتدار سے بے دخلی اور پاکستان کے داخلی مسائل نے اس کونپل کوپھوٹنے سے پہلے ہی مرجھا دیا۔من موہن سنگھ نے پاکستان کے ساتھ امن مساعی کے حوالے سے جو انکشاف کیا وہ خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ اس سے قبل پاکستانی لیڈران خصوصاً سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری اس طرح کے بیانات داغتے رہے ہیں۔ مگربھارت نے سرکاری طور پر ہمیشہ اس طرح کے کسی امکانی سمجھوتہ کی موجودگی سے انکار کیاہے۔ اب پچھلے چند سالوں سے پاکستانی حکمران بھی اس طرح کے کسی معاملہ سے انکاری ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ وزارت خارجہ کی دستاویزات میں بھارت کے ساتھ اس طرح کے کسی سمجھوتہ کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ جانکار حلقوں کا کہنا ہے کہ مئی2004ء میں جب وزیر اعظم من موہن سنگھ عہدے اور رازداری کا حلف اٹھانے کے بعد وزیراعظم آفس چارج لینے پہنچے، تو ان کی میز پر ان کے پیش رو اٹل بہاری واجپائی کے ہاتھ سے لکھا ہوا ایک کاغذ ان کے نام رکھا ہواتھا۔ذرائع کے مطابق اس یک صفحی کاغذ میں ان سے التماس کی گئی تھی کہ وہ بی جے پی کی قیادت والی نیشنل ڈیموکریٹک الائینس حکومت کے ذریعے شروع کی گئی چار پالیسیوں اور سکیموں کو پارٹی اور حکومتی معاملات سے بالاتر ہوکر وسیع قلبی کا مظاہرہ کرکے جاری رکھیں۔ان میں جنوری 2004ء میں واجپائی کے دورہ اسلام آباد کے دوران امن مساعی کے عمل کی شروعات، تنازعات کے غیر روایتی یعنی آئوٹ آف بکس حل کی تلاش، امریکہ کے ساتھ اسٹریٹجک مذاکرات، بھارت کے طول و عرض میں نارتھ ، سائوتھ ،ایسٹ اورویسٹ کوریڈور یعنی ہائی وے کی تعمیر، اور آخر میںپانی کے مسائل کے دیرپا حل کیلئے بھارت میں دریائوں کو جوڑنے کی سکیم شامل تھی۔من موہن سنگھ نے گو کہ پہلے تین امور پر پیش رفت جاری رکھی بلکہ کچھ زیادہ ہی تیزی دکھائی مگر دریائوں کو جوڑنے کی سکیم ان کیلئے ٹیڑھی کھیر ثابت ہوئی، کیونکہ بھارت میں پانی صوبائی سبجیکٹ ہے۔
پاکستان کے ساتھ بھی امن مساعی کو من موہن سنگھ نے بھرپور انداز میں آگے بڑھایا۔2005ء اور 2007ء کے درمیان دونوں ملکوں نے پس پردہ سفارت کاری کے ذریعے 'نان پیپرز‘ کا بھی تبادلہ کیا۔ گو کہ ان پیپرز کی کوئی سرکاری حیثیت نہیں ہوتی ، مگر کسی اہم معاہدہ سے قبل حکومتیں اس طرح کے پیپرز کا تبادلہ کرکے ان میں ایک دوسرے کی پوزیشن اور کسی حد تک فریقین مسئلہ کے حل کے سلسلے میں لچک کا مظاہرہ کرسکنے کا اندازہ کرتے ہیں اور پھر ان امور پر مذاکراتی عمل آگے بڑھتا ہے۔
مجھے یاد ہے کہ جنوری 2006ء میں نئی دہلی میں ہوئے خارجہ سیکرٹریوں کی میٹنگ کے بعد اس وقت کے بھارتی خارجہ سیکرٹری شیام سرن نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ تقریبا آدھی صدی کے بعد دونوں ممالک نے پہلی بارمسئلہ کشمیر کے حل کیلئے با معنی مذاکرات کئے۔گو کہ ان نان پیپرز کی تفصیلات کبھی عام نہیں کی گئیں۔ مگر پاکستانی نان پیپر میں کم وبیش وہی تجاویز تھیں جو مشرف وقتاً فوقتاً انٹرویوز میں عام کر چکے ہیں۔ پاکستانی تجویز میں ریاست جموں کشمیر پر مشترکہ کنٹرول کا ذکر تھا، جبکہ بھارت اس کے بجائے ایک متفقہ یعنی کوآپریٹیو میکانزم پر آمادہ تھا، جسے لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف وسائل کو بروئے کار لایا جاسکے۔
اگر پاکستانی نان پیپر کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مشرف اقوام متحدہ کی قراردادوں اور استصواب رائے سے دستبرداری کی طرف گامزن تھے۔ اور ان کی تجویز تھی کہ خط متارکۂ جنگ (لائن آف کنٹرول )میں کوئی تبدیلی عمل میں نہیں لائی جائے گی، مگر عوام بدوں روک ٹوک اسے پار اور باہم تجارت وغیرہ کرسکیں گے ۔دونوں طرف حق خود اختیاری نہ کہ آزادی کے تحت 'سیلف گورنمنٹس‘ کا قیام ہو اور فوجوں کی تعداد کم کرنے اور ان پر نگرانی کیلئے ایک مشترکہ میکانزم کا قیام ، جس میں بھارت، پاکستان اور کشمیری عوام کی بھی نمائندگی ہو۔
خلاصہ یہ ہے کہ یہ پاکستانی موقف میں ایک بڑی تبدیلی تھی، نہ صرف پاکستان نے کشمیر کے جغرافیہ پر اپنا دعویٰ چھوڑ دیا تھا، بلکہ مذہبی بنیادوں پر کشمیر کی تقسیم کے امکان کو مسترد کرکے بھارت کی اس تجویز کو مان لیا تھا کہ تنازع کشمیر کا حل زمینی (Territory Centric ) کے بجائے عوامی مفاد) (People Centricکو مرکزمان کر ڈھونڈا جائے۔اس کے علاوہ پاکستان پر یہ بھی ذمہ داری عائد کی گئی تھی کہ وہ کشمیر کی آزادی پسند قیادت اور نئی دہلی کے درمیان مفاہمت کی راہ ہموار کرنے کے ساتھ ساتھ ا س قیادت کو مذاکرات کیلئے بھی آمادہ کرنے کیلئے اپنا اثر و رسوخ استعما ل کرے۔
بھارت میں اس عمل میں سرگرم افسران کا کہنا ہے کہ یہ سبھی تجاویز گو کہ قابل عمل تھیں مگر نئی دہلی کی اولیں شرط تھی کہ ان امور پر پیش رفت تبھی ممکن ہے جب پاکستان بھارت کے اندر تخریب کاری اور دہشت گردی کو ختم کرنے میں اس کی مدد کرے۔ دراصل ان دونوں نان پیپرز کا ماڈل شمالی آئرلینڈ تنازع کے حل جسے گڈفرائڈے (بلفاسٹ )ایگریمنٹ کے نام سے جانا جاتا ہے سے لیا گیا تھا۔ امریکہ کے سابق صدر بل کلنٹن نے ، جو خود بھی آئرلینڈ کے مسئلہ میں شامل رہے 2مارچ 2003 ء کو اپنی ایک تقریر میں بھارتی سامعین کو یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ پاکستان سے کشمیر کا تنازع حل کرتے ہوئے شمالی آئرلینڈ کی مثال کو سامنے رکھیں۔
1998ء میں گڈفرائیڈ معاہدے کے بعد برطانیہ اور آئرلینڈ کے درمیان 700 سالہ پرانا تنازع ختم ہوگیا۔اس تنازع کا نقطہ عروج 1916 ء ڈبلن (آئرلینڈجمہوریہ کی موجودہ راجدھانی) میں ایسٹر کے موقع پر رونما ہونے والی زبردست بغاوت تھی۔ جس کے نتیجے میں آئرلینڈ دو لخت ہوگیا۔جنوب کے 26 علاقوں (Counties) پر مشمل ایک علیحدہ مملکت وجود میں آئی جب کہ ملک کے شمال میں واقع چھ کائونٹیز کو برطانیہ نے ضم کرلیا۔لیکن اس کے باوجود شمالی حصے میں بے چینی جاری رہی۔ 16 لاکھ نفوس پر مشتمل اس علاقے کی 45 فیصدآبادی کیتھولک عیسائیوں کی ہے جو خود کو قوم پرست کہتی ہے اورآئرلینڈ جمہوریہ میں شامل ہونا چاہتی ہے۔ جب کہ 55فیصد آبادی پروٹسٹنٹ عیسائیوں کی ہے‘ جنہیں یونینسٹ کہا جاتا ہے اور جو برطانیہ کے ساتھ مکمل انضمام کے حق میں ہیں۔ اس طرح یہ علاقہ دونوں فرقوں کے درمیان کشیدگی کا موجب بنا ہوا ہے۔
ایک دہائی قبل اس تنازع کے حل کے سلسلے میں برطانیہ اور آئرلینڈ نے مذاکرات کا آغاز کیا جس میں اس علاقے کی اس وقت کی دو بڑی اعتدال پسند پارٹیوں پروٹسٹنٹوں کییو یو پی (Ulster Unionist Party) اور کیتھولک فرقے کی سوشلسٹ ڈیموکریٹک پارٹی (SDLP) نے مذاکرات میں کلیدی کردار ادا کیا۔
1998ء کے بلفاسٹ معاہدہ کے تحت آئرلینڈ جمہوریہ کی حکومت شمالی آئرلینڈ پر اپنے دعوی سے سیاسی طور پر دست بردار تو ہوگئی لیکن اس خطے کی ہمہ جہت اقتصادی ترقی میں اسے برابر کاشریک کار تسلیم کیا گیا ہے۔اس معاہدہ میں شمالی آئرلینڈ کے عوام کے برطانیہ کے ساتھ الحاق کو تنسیخ کرنے کا حق بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں اس معاہدے کے تحت برطانوی اور آئرش حکومت کے درمیان ایک بین حکومتی اشتراک بھی عمل میں لایا گیا ہے ۔ نیزشمالی آئرلینڈ کی حکومت اور آئرلینڈ جمہوریہ کے ارکان پر مشمل شمال جنوب وزارتی گروپ قائم کیا گیا ہے جو دونوں خطوںکے درمیان تعاون اور اشتراک پر نظر رکھتا ہے۔یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ شمالی آئرلینڈ اور آئرلینڈ جمہوریہ کے درمیان کوئی سرحدی لائن دکھائی نہیں دیتی اور وہاں برائے نام بھی کوئی پولیس والا نظر نہیں دیتا۔ مزید برآں یہ کہ شمالی آئرلینڈ کے باشندوں کو دوہری شہریت کا حق حاصل ہے۔ وہ برطانیہ اور آئرلینڈ دونوں کا پاسپورٹ حاصل کر نے کے مجا ز ہیں۔اس کے علاوہ معاہدہ کے تحت شمالی آئرلینڈ کی اسمبلی کے لئے منتخب ہونے والے ارکان کے لئے برطانیہ سے اظہار وفاداری کا حلف اٹھانالازمی نہیں ہے ۔ برطانیہ کے ما تحت یہ واحد علاقہ ہے جہاں کی اسمبلی کا اجلاس برطانوی قومی ترانہ Long Live the Queen سے شروع نہیں ہوتا۔ آئرلینڈ کے تنازع کا ایک بڑا سبق یہ بھی ہے کہ تنازعات صرف سیاسی معاہدوں اور مذاکرات سے ہی حل نہیں ہوتے بلکہ امن عمل کو پائیدار بنانے کے لئے وسیع ترمضبوط اداروں کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔