حیرت ہے کہ آج مورخہ7جنوری کو مجھ سے تبصروں کی فرمائش کرنے والے خواتین وحضرات ابھی تک یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ'' کیا پرویز مشرف بیرون ملک چلے جائیں گے؟‘‘اور مہمان سعودی وزیر خارجہ سے‘ پاکستان کے باخبر ترین صحافی خواتین و حضرات کے اجتماع میں ایک سنیئر صحافی نے دریافت کیا کہ'' کیا آپ نے پرویز مشرف کے معاملے میں کوئی بات کی‘‘؟اور پھر موازنہ بھی کیا جا رہا ہے کہ ایک آمر حکمران اور منتخب لیڈروں میں کیا فرق نظر آتا ہے۔ ان سارے سوالوں کے جواب آوازوں کی لہروں پر لکھے جا چکے ہیں۔ ایک سرسری نظر ڈال کا یہ جواب پڑھے جا سکتے ہیں۔ جہاں تک سعودی عرب کی جانب سے پرویز مشرف کے معاملے پر بات کرنے کا سوال ہے‘ انہوں نے اپنی بریفنگ میں خود ہی فرما دیا تھا کہ ''میں سعودی سربراہ مملکت کی طرف سے‘ صدر ممنون حسین کے لئے ایک خصوصی پیغام لے کر آیا ہوں‘‘۔ اس سے زیادہ وہ کچھ کہہ بھی نہیں سکتے تھے‘ ورنہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہو جاتی مگر صدر مملکت کے نام خصوصی پیغام کے دو لفظوں میں پورا پیغام ظاہر ہو گیا تھا۔ پاکستان کے نظام حکومت میں تمام اختیارات وزیراعظم کے پاس ہیں‘ صدر مملکت کی حیثیت علامتی سربراہ کی سی ہے مگر ایسی چیز کون سی ہے؟ جو وزیراعظم کے پاس نہیں اور صدر کے پاس ہے‘ وہ ہے‘ ان کا پھانسی اور سزائے عمر قید معاف کرنے کا اختیار۔اس کے سوا صدرکے پاس ایسا کوئی اختیار ہی نہیں‘ جس کی خاطر سعودی عرب کے سربراہ کو خصوصی پیغام بھیجنا پڑا۔
جب سے سابق صدر پرویز مشرف پر‘ آئین کے آرٹیکل6کے تحت مقدمہ قائم کرنے کا سلسلہ شروع ہوا ہے میں نے اسی دن سے کہنا شروع کر دیا تھا کہ جب دو فریقوں کے درمیان ثالثی ہوتی ہے تو ثالث کو ضمانتی بنانے والے دونوں فریق عہد کرتے ہیں کہ جس وعدے پر وہ سمجھوتہ کرا رہے ہیں‘دونوں فریق اسے پورا کرنے کے پابند ہوں گے۔ معاہدے کے و قت پرویز مشرف کی پوزیشن مضبوط تھی‘ ظاہر ہے انہوں نے اپنے لئے جو کچھ مانگا تھا وہ نوازشریف کی سیاسی سرگرمیوں سے تعلق رکھتا تھا جیسے یہ کہ وہ ملکی سیاست سے کب تک دور رہیں گے؟ سعودی عرب میں رہتے ہوئے پاکستان کے سیاسی معاملات میں دخل نہیں دیں گے وغیرہ وغیرہ اورسعودی حکمرانوں نے اس وعدے کی سختی سے پابندی کرائی۔علاج وغیرہ کے لئے جو نرمی روا رکھی گئی ‘وہ حکومت پاکستان کی سفارش کے نتیجے میں تھی جو ہمارے سعودی دوست اپنے وعدے پر سختی سے کاربند رہے۔اب پرویز مشرف کا وقت آیا ہے تو ظاہر ہے کہ کچھ ایسے اقدامات شروع ہو گئے جو ثالثی کے تحت ہونے والے سمجھوتے سے مطابقت نہیں رکھتے ہوں گے اور جب معاملہ پرویز مشرف کی زندگی تک آگیا تو سعودی سربراہ مملکت کی طرف سے پیغام آنا ضروری تھا ۔ظاہرہے‘ پرویز مشرف نے ثالثی کے معاملات طے کرتے ہوئے ‘اپنے لئے موت تو مانگی نہیں ہو گی‘ دوسری کیا بات ہو سکتی ہے جو انہوں نے منوائی؟ ظاہر ہے وہ زندگی کے تحفظ کا وعدہ ہو گا۔ اتناتو ہم سب جانتے ہیں کہ سعودی عرب کا حکمران خاندان قبائلی روایات کی سختی سے پابندی کرتا ہے اور ثالثی کرتے ہوئے فریقین سے جو پابندیاں منواتا ہے‘ اسے ان پر عمل درآمد کرانے کے طور طریقے بھی معلوم ہیں‘ جن کے بارے میں ہمیں جلد ہی سب کچھ معلوم ہو جائے گا۔
پرویز مشرف کو بھی چلا ہوا کارتوس نہیں سمجھنا چاہئے‘ وہ پاک فوج کے سربراہ رہ چکے ہیں اور فوج میں جنرل اور سپاہی کا رشتہ محض نوکری کا نہیں ہوتا‘ سب کے سب وطن پر جان قربان کر دینے کے عہد میں پروئے ہوتے ہیں۔ایک دوسرے کی خاطر جانیں قربان کرنے کی روایت رکھتے ہیں اور دفاع وطن کے لئے مل کر خون بہانے والے‘ خون کے جس رشتے میں بندھتے ہیں وہ ایک اور ہی طرح کا رشتہ ہوتا ہے۔سپاہی کے لئے سب سے محترم چیز اس کی عزت او ر وقار ہے‘ وہ اپنے وقار پر آنچ نہیں آنے دیتا۔ پرویز مشرف کے ساتھ چند ماہ سے جو کچھ ہو رہا ہے وہ یقیناً کسی فوجی کے لئے قابل برداشت نہیں۔ فوجی قیادت آئین کی پابندی کا عہد سختی سے نبھانے کا کتنا بھی مضبوط عزم رکھتی ہو؟ مگر اس کی آن اور اس کے وقارکو امتحان میں ڈال دیا جائے تو جذبات پر قابو رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ میرا خیال ہے خصوصی عدالت میں ان کے بارے میں جو کچھ کہا گیا اور خود فوج کے ادارے پر جو بدگمانی ظاہر کی گئی‘ اس کے بعد ڈسپلن برقراررکھنے کے لئے قیادت کی طرف سے کوئی نہ کوئی فو ری اقدام ضرو ری تھا اور میرے خیال میں پرویز مشرف کو ہنگامی طور پر ملٹری ہسپتال لے جا کر‘ بے قابو ہوتے ہوئے جذبات کو کنٹرول کیا گیا مگر جب حکومت کے وکیل نے اس طرح کا جملہ کہا کہ ''پرویز مشرف بھگوڑا ہے‘ جو فوجی ہسپتال میں پناہ لئے بیٹھا ہے‘‘۔تو حد ہو گئی۔نہ تو پرویز مشرف ایک مفرور کی حیثیت میں ہسپتال گئے تھے‘ نہ وہ بھگوڑے تھے‘ انہیں جائز اور قانونی طریقے سے مجاز اتھارٹی نے ہسپتال پہنچایا تھا اور پرویز مشرف چھپ کر نہیں بیٹھے تھے‘مستند ڈاکٹروں کے زیرعلاج تھے اور طبی مشورے پر ہی ہسپتال میں داخل ہوئے تھے۔سب کچھ سامنے ہونے کے باوجود فوج پر یہ الزام لگانا کہ اس نے ایک بھگوڑے کو پناہ دے رکھی ہے یا فوج کا سابق سربراہ بھگوڑا ہے تو اس طرح کی باتیں سن کر کون بدمزہ نہیں ہوگا؟فوج کی بات تو الگ ہے حکومت کے سربراہ وزیراعظم نوازشریف بھی اس طرز گفتگو پر خوش نہیں ہو سکتے۔ وہ تو چھوٹے سے چھوٹے آدمی کی بھی توہین سے گریز کرتے ہیں‘ انتہائی اشتعال کے عالم میں اپنے آپ پر قابو رکھتے ہیں اور الفاظ کا استعمال نہایت احتیاط سے کرتے ہیں۔مجھے یاد ہے لیبیا کے دورے میں کرنل قذافی نے جان بوجھ کر‘اپنے مہمان وزیراعظم نوازشریف کو سفری بے آرامی پر مجبور کیا‘ ایئرپورٹ کے لائونج میں جہاز کے انتظار میں بٹھایا۔ طویل تکلیف دہ انتظار کے بعد جب ہم لائونج سے نکل رہے تھے تو نوازشریف کا چہرہ سرخ تھا اور انہوں نے دھیمی سی آواز میں غصے کا اظہار کرتے ہوئے کرنل قذافی کے بارے میں کہا''گندہ‘‘ ۔ قریب ہونے کی وجہ سے مجھے میاں صاحب کے غصے کا کلائمیکس دیکھنے کا موقع مل گیا۔حکومت کے وکیل استغاثہ اپنی پیشہ وارانہ قابلیت اور حیثیت میں تو عظیم ہو سکتے ہیں مگر میاں صاحب کے وکیل نہیں کہلوا سکتے۔جب وکیل صاحب فوج کے بارے میں ‘اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ملزم پرویز مشرف کو نشانہ بنا رہے تھے‘ عین اسی وقت کراچی میں تین کروڑ سے زیادہ کی آبادی کی نمائندہ جماعت‘ پرویز مشرف کے ساتھ اپنے جذباتی رشتوں کا اظہار کر رہی تھی اور اس کے رہنما الطاف حسین کہہ رہے تھے کہ ''پرویز مشرف کی توہین کرنے والے ان کے تین کروڑ بھائی بہنوں کے دل دکھا رہے ہیں‘‘۔جس مقدمے میں موصوف وکالت کر رہے ہیں‘ اس کا انجام تو سب کو معلو م ہے۔عدالت جو بھی فیصلہ سنائے‘ پرویز مشرف کو پھانسی چڑھانے کا حوصلہ شاید ہی کوئی حکومت کر سکے اور رہ گئی عمر قید کی سزا تو اس پر عمل درآمد کرنے کا حوصلہ کسی میں ہے تو انہیں جیل میں ڈال کر دیکھ لے۔جہاں تک آصف زرداری کا عدالت میں پیش ہونے کا سوال ہے‘ وہ جیل میں داخل ہونے اور باہر نکلنے کے سارے انداز جانتے ہیں اور نو سال کی قید کاٹ کران کی جسم و جان میں صبر اور دکھ برداشت کرنے کی جو طاقت آچکی ہے ‘اس کے سامنے اب کوئی بھی سزا بے معنی ہے۔ نوازشریف کی قید تو طویل نہیں مگر ان کی اذیتوں کا شمار بہت زیادہ ہے۔تنگ و تاریک کوٹھڑی میں‘ ان پر سانپ اور بچھو چھوڑ ے گئے‘ عذاب ناک قید تنہائی میں رکھا گیا۔ان کے تنگ کمرے میں روشنی کی ایک کرن تک آنے کی جگہ بھی نہیں چھوڑی گئی۔قلعے کے ملازمین کو حکم تھا کہ ان کے ساتھ بات تک نہ کی جائے مگر پاکستان کے سابق اور موجودہ وزیراعظم ‘یہ سب کچھ صبر و سکون سے برداشت کرتے رہے۔ پرویز مشرف پہلے فوجی حکمران ہیں‘ جنہیں عدالت اور جیل میں جانا پڑا ۔ پرویز مشرف ابھی ابتدائی مراحل میں ہیں‘ ان کی حالت کا‘ سیاست دانوں کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے‘ لوگوں کو فیض کا یہ مشہور شعر یاد تو آتا ہو گا۔
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا‘وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے‘ اس جان کی کوئی بات نہیں