سندھ ٹو حقیقت بن چکا‘ ایک دن
سامنے آ جائے گا... الطاف حسین
ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے کہا ہے کہ ''سندھ ٹو حقیقت بن چکا ہے‘ ایک دن سامنے آ جائے گا‘‘ لیکن میرے اس بیان کو سیاق و سباق کے بغیر نہ لیا جائے جو تین چار روز کے اندر اندر ظاہر ہو جائے گا کیونکہ میری تقریر پہلے ہوتی ہے اور اس کے سیاق و سباق اس کے بعد طے کیے جاتے ہیں‘ ورنہ گزشتہ سیاق و سباق تو موجود ہی ہیں جس پر میں نے اپنی گزشتہ تقریر کے بعد کہا ہے کہ سندھ دھرتی ماں ہے‘ اسے کوئی تقسیم نہیں کر سکتا‘ ویسے بھی جب تک ہمارے حقوق ہمیں نہیں دیئے جاتے مختلف سیاق و سباق پیدا ہوتے رہیں گے جبکہ اوپر سے حکومت نے پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ شروع کردیا ہے اور یہ بھی خیال نہیں کیا کہ بے چارہ مہاجر ہے‘ اس پر کیا مقدمہ چلانا ہے‘ حتیٰ کہ برطانوی حکومت نے بھی اس بات کا لحاظ نہیں رکھا اور اس کے بینک اکائونٹ منجمد کر دیئے ہیں بلکہ میرے خلاف بھی انتقامی کارروائی کرنے والی ہے؛ تاہم یہ سارے سیاق و سباق بھی وقت کے ساتھ ساتھ منظرِ عام پر آتے جائیں گے۔ آپ اگلے روز کراچی میں پارٹی ارکان سے فون پر گفتگو کر رہے تھے۔
انسداد پولیو والے علاقوں میں ٹیموں کو مکمل
سکیورٹی فراہم کی جائے... آصفہ زرداری
سابق صدر آصف علی زرداری کی صاحبزادی آصفہ زرداری نے کہا ہے کہ ''انسداد پولیو والے علاقوں میں ٹیموں کو مکمل سکیورٹی فراہم کی جائے گی‘‘ جس کی کوئی خاص امید نہیں ہے کیونکہ حکومت نے ہمیں بھی مقدمات سے مکمل سکیورٹی فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن رفتہ رفتہ یہ گڑے مردے پھر اُکھاڑے جا رہے ہیں حتیٰ کہ سوئس عدالت سے بھی رجوع کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے جس کے زائد المیعاد ہونے کے انتظار میں خط کو لٹکانا پڑ گیا تھا اور اس طرح ایک وزیراعظم کی قربانی بھی دینا پڑ گئی تھی اور جہاں تک 60 لاکھ ڈالر کی رقم کا تعلق ہے تو یہ ہمیں بھی معلوم نہیں کہ انہیں آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی؛ چنانچہ اب حکومت ہوا میں تیر چلا رہی ہے حالانکہ اسے اچھی طرح سے علم ہے کہ تیر ہمارا نشان ہے اور کسی اور کے کام نہیں آ سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ''پاکستان میں پولیو کے خلاف ہماری جدوجہد ہمیشہ جاری رہے گی‘‘ کیونکہ پولیو نے یہاں ہمیشہ ہی رہنا ہے جس طرح پیپلز پارٹی نے اس ملک میں ہمیشہ رہنا ہے بلکہ دونوں نے مل کر رہنا ہے اور دونوں کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ آپ اگلے روز کراچی میں بچوں کو پولیو کے قطرے پلاتے ہوئے اظہارِ خیال کر رہی تھیں۔
مشرف پر دل کا نہیں‘ ذہنی تنائو کا
حملہ ہوا... بلاول بھٹو زرداری
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''مشرف پر دل کا نہیں‘ ذہنی تنائو کا حملہ ہوا‘‘ جبکہ گزشتہ دور میں ہمارے زعماء نے کسی تنائو وغیرہ کا کوئی اثر نہ لیا اور جو ان کا کام تھا‘ سر نیہوڑائے اسی میں لگے رہے بلکہ دوسروں کو ذہنی تنائو کا شکار کرتے رہے کیونکہ آدمی کے اعصاب بہت مضبوط ہونے چاہئیں ورنہ اس کے بغیر سیاست اور حکومت ہو ہی نہیں سکتیں جس کے لیے میں بھی روزانہ ورزش کرتا ہوں اور پہلے سے کافی فرق پڑ رہا ہے جبکہ چچا گیلانی‘ راجہ پرویز اشرف اور ماموں وٹو کی ہدایات پر بھی سختی سے عمل کر رہا ہوں اور ان کے علاوہ بھی دیگر پہنچے ہوئے بزرگوں سے مسلسل رابطے میں رہتا ہوں جس کے نہایت مثبت نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''مجھے یقین نہیں آتا کہ مشرف نے کبھی فوجی کی وردی پہنی ہوگی‘‘ جبکہ ہمارے بزرگوں نے وردی کے بغیر بھی اپنے کمالات ایسے دکھائے کہ دنیا حیران و پریشان ہو کر رہ گئی اور ایک بار پھر یہ ہُنر آزمانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ آپ اگلے روز ٹویٹر پر ایک پیغام جاری کر رہے تھے۔
الطاف حسین ملک میں آئیں اور
حالات کا سامنا کریں... منظور وٹو
پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر میاں منظور احمد خاں وٹو نے کہا ہے کہ ''الطاف حسین ملک میں آئیں اور حالات کا سامنا کریں‘‘ جس طرح ہم نے اپنے دور میں حالات اور عوام‘ دونوں کا سامنا نہایت جرأت اور دلیری کے ساتھ کیا اور اپنا بال تک بیکا نہ ہونے دیا اور ملک کو ایک فلاحی مملکت بنا کر دم لیا‘ اگرچہ یہ فلاح و بہبود صرف ہم شرفاء تک ہی محدود تھی اور جو بارش کا پہلا قطرہ تھا اور ابھی یہ بارش اور بھی موسلادھار ہو سکتی تھی لیکن افسوس کہ ہماری میعاد ہی ختم ہو گئی یعنی ع
روئے گُل سیر ندیدیم و بہار آخر شُد
انہوں نے کہا کہ ''وہ سندھ کو تقسیم کرنے کی بات کر کے کس کا ایجنڈا پورا کر رہے ہیں‘‘ اگرچہ ایجنڈا تو اپنا اپنا ہی ہوتا ہے جیسا کہ ہم نے متفقہ طور پر اپنے ایجنڈے پر عمل کیا اور متعدد حضرات کے وارے نیارے ہو گئے کیونکہ یہ ملک ہی ایسا ہے کہ اس میں وارے نیارے ہوتے کوئی دیر نہیں لگتی اور اس ملک کا مقصد ہی یہ تھا جسے یہ خوب پورا کر رہا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
تجاویز مطلوب ہیں!
ہرگاہ بذریعہ اشتہار ہٰذا جملہ محبِ وطن شہریوں سے اپیل کی جاتی ہے کہ چونکہ حکومت کے پاس اب جنرل مشرف کو رہا کرنے کے علاوہ کوئی چارۂ کار نہیں رہا کیونکہ فوج کا موڈ بھی سخت خراب ہے اور سعودی و اماراتی مہربانوں کے احکامات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور حکومت کو سب سے بڑا مسئلہ یہ درپیش ہے کہ اب اس کے بعد وہ قوم کے سامنے کس منہ سے جائے گی جس کے سامنے صاحبِ موصوف کو ان کے منطقی انجام تک پہنچانے کے بلند بانگ دعوے ابھی کل تک کیے جاتے رہے تھے۔ اگرچہ جملہ حلقوں کو یقین دلایا گیا ہے کہ ہم نے مقدمہ ہی اس انداز میں شروع کیا ہے اور اس کی پیروی بھی انشاء اللہ اس طرح سے کی جانے والی ہے کہ حضرت صاحب بہت جلد باعزت بری ہو جائیں گے لیکن ان حضرات کا کہنا ہے کہ ان محترم کے خلاف اب تک جو کچھ ہو چکا ہے وہ کس خوشی میں کیا جا رہا ہے۔ لہٰذا اس سلسلے میں فوری تجاویز درکار ہیں کہ قوم کے سامنے کیا بہانہ پیش کیا جائے کہ آئندہ بھی منہ دکھانے کے قابل ہو سکیں۔
المشتہر: حکومت پاکستان عفی عنہ
آج کا مقطع
لے چلا خطۂ اوکاڑہ میں مجھ کو کہ ظفرؔ
مرضِ غم میں وہی خاک ہے اکسیر مجھے