تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     09-01-2014

پلٹ کے دیکھو

پلٹ کر دیکھو‘ تاریخ کے نشیب و فراز میں چراغ جل رہے ہیں۔ پلٹ کر دیکھو کہ قومیں برباد ہو گئی ہیں اور سرخرو ہیں ماننے والی۔ فرمایا: فسیروا فی الارض فانظرواکیف کان عاقبۃ المکذبین۔ زمین میں گھوم پھر کے دیکھو‘ جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوا۔ 
شاعر نے سوال کیا تھا: کہانی آپ الجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے؟ طبی رپورٹ سے ایک بات تو واضح ہو گئی کہ جنرل پرویز مشرف واقعی بیمار ہیں۔ کنفیوژن باقی ہے کہ فوجی ہسپتال میں لے جانے کا فیصلہ کس نے کیا۔ عسکری حلقوں کا اصرار ہے کہ ہمارا کوئی تعلق اس معاملے سے نہیں۔ ظاہر ہے کہ جنرل کو فوجی ہسپتال ہی جانا تھا جو ملک بھر میں دل کے امراض کی بہترین علاج گاہ ہے۔ ان کا حق ہے کہ فیس ادا کیے بغیر وہ فیض یاب ہو سکیں۔ ان کے لیے بہترین حفاظتی انتظام بھی ممکن ہے۔ ن لیگ کی مرکزی یا صوبائی حکومت کے زیر انتظام اسلام آباد یا راولپنڈی کے کسی ہسپتال کا انتخاب وہ کیوں کرتے۔ کچھ لوگ عدالت میں گھسیٹنے پر تلے ہیں اور کچھ صاف بچا لے جانے پر۔ صورتِ حال ایسی ہے کہ فوری طور پر بات آگے نہیں بڑھ سکتی۔ لندن کے ایک معالج سے ان کے اہلِ خانہ نے وقت لے لیا ہے مگر عدالت کی مرضی ہے کہ رخصت عطا کرے یا نہ کرے۔ قانون کو دیکھنا ہوگا۔ مریض کے استحقاق کو دیکھنا ہوگا۔ ہر کوئی اپنی کوشش میں لگا ہے اور مرضی پروردگار کی ہے۔ فرمایا ''وہ تدبیر کرتے ہیں اور اللہ بھی تدبیر کرتا ہے‘ بے شک اللہ ہی سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے‘‘۔ 
شخصیات اہم ہوتی ہیں اور قدوکاوش بھی۔ آخر کار یہ حالات ہوتے ہیں جو فیصلہ صادر کرتے ہیں۔ ہر مدبر اور فاتح آخری تجزیے میں تقدیر پرست ہوتا ہے۔ درویش نے کہا: دو تین بار ہم دعا مانگتے ہیں۔ اگر قبول نہ ہو تو اللہ پہ چھوڑ دیتے ہیں۔ وہی جانتا ہے کہ ملتجی کے لیے موزوں کیا ہے۔ 
میاں محمد نوازشریف کو اب ادراک ہوا ہوگا کہ ایسی تعجیل روانہ تھی۔ سبکدوش چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی اپنی ترجیحات تھیں۔ انہی کے حرف انکار سے ایک دن طوفان برپا ہوا اور عدلیہ آزادی کی تحریک اٹھی تھی مگر ان کی خود پسندی‘ مگر ہیرو بننے کی ہوس۔ میاں صاحب اور چودھری نثار علی خان کو تامل چاہیے تھا۔ عاقبت اندیشی اسی کو کہتے ہیں۔ کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم نے انگریزی کا ایک مقولہ سنایا: مدبر وہ ہوتا ہے‘ جو گاہے‘ خود اپنی پارٹی کے خلاف‘ ریاست کا مددگار ہو۔ کاش کبھی اس قول پہ وہ عمل بھی فرمائیں۔ اکثر دوسری پارٹیوں کی طرح‘ نون لیگ میں بھی خوشامد سکہ رائج الوقت ہے۔ ؎
معلوم نہیں ہے یہ خوشامد یا حقیقت 
الّو کو کوئی کہہ دے اگر رات کا شہباز 
ججوں کی بحالی کے لیے میاں صاحب کے کامیاب لانگ مارچ کے بعد‘ جس میں عمران خان اور جماعت اسلامی کا کردار کم نہ تھا‘ درحقیقت جو پوری قوم کی تحریک تھی‘ ایک فدائی نے یہ کہا تھا: میاں صاحب اس طرح کے کام تو پیغمبروں کے زمانے میں ہوا کرتے تھے۔ شہباز شریف ایسے موقع پر ٹوک بھی دیا کرتے ہیں‘ میاں صاحب کا معاملہ مختلف ہے۔ عمران خان کا حال بھی یہی ہے کہ 30اکتوبر 2011ء کے تاریخی جلسہ عام کے بعد سے وہ صرف تائید کرنے والوں کی سنتے ہیں‘ میڈیا ٹیم تو مستقل نالاں رہتی ہے۔ اسد عمر تک کو ڈانٹ دیتے ہیں۔ جاوید ہاشمی کے خلاف کارروائی کے لیے مواد جمع کیا کہ جس طرح کرکٹ میں اپنے ماموں زاد کو برطرف کر کے داد پائی تھی‘ اسی طرح سیاست میں بھی ہیرو بنیں۔ ہاشمی بھڑک اٹھا۔ اب انہیں معافی مانگنا پڑی اور کئی بار۔ ایک ایک کر کے پارٹی کے اچھے لیڈر بے دل ہوتے جا رہے ہیں۔ عنان اسد عمر اور جہانگیر ترین کے ہاتھ میں ہے۔ اسد عمر 
نے 70 لاکھ روپے کی افسری سے استعفیٰ نہ دیا تھا بلکہ ادارے نے ان سے معذرت کر لی تھی کہ ان کے بعض بڑے فیصلے نادرست تھے۔ ہوش مند ہیں اور کئی مشکل مراحل سے سلامت گزرے ہیں۔ اس سطح کی سیاست کے لیے مگر تجربہ درکار ہوتا ہے۔ 
میاں صاحب سے مایوس ہو کر لوگ عمران خان کی طرف دیکھتے ہیں۔ پھر ان سے مایوس ہو جاتے ہیں اور قسمت کا ماتم کرتے ہیں۔ کم ہی لوگ اس بات پہ غور کرتے ہیں کہ بحرانوں میں مواقع چھپے ہوتے ہیں اور قومیں اس وقت زندہ ہوتی ہیں‘ جب ان کا وجود خطرے سے دوچار ہو۔ اللہ کو کیا ہے کہ انسانوں کو مشکل میں ڈالے مگر ان کی استعداد بڑھانے کے لیے‘ کہ وہ سیکھیں‘ زندگی کو بالیدگی عطا کریں۔ برصغیر کے مزاج میں مگر خودترحمی ہے۔ شخصیت پرستی‘ احساس کمتری اس کے سوا۔ ملوکیت کی صدیوں نے انحصار کو عادت بنا دیا ہے۔ سائے کی یہ سچائی نظر انداز ہے کہ ایک یا چند افراد‘ کوئی لیڈر یا فوجی قیادت ملک کو بچایا یا سنوارا نہیں کرتی بلکہ عوام کی تعمیر‘ تعلیم اور تربیت۔ خوشامد پسند اور شعبدہ باز لیڈر بھنور میں الجھی کشتی کو ساحل سے ہمکنار نہیں کر سکتے۔ جب تک سیاسی جماعتوں کی تشکیل جمہوری نہ ہو جائے۔ جب تک ایجنڈہ پارٹیوں کی مجالس عاملہ طے نہ کریں۔ جب تک پالیسیاں پارلیمنٹ اور فیصلے کابینہ میں صادر نہ کیے جائیں۔ کل بدھ کی شام ٹی وی کے ایک پروگرام میں اعجازالحق نے بتایا کہ 3 نومبر 2007ء کی ایمرجنسی سے قبل‘ پرویز مشرف نے‘ جن کے وہ وزیر تھے‘ کابینہ سے مشاورت نہ کی تھی۔ شوکت عزیز سے‘ چودھری شجاعت حسین سے اور چودھری پرویزالٰہی سے۔ میں نے یاد دلایا کہ شیخ رشید سے بھی۔ اعلان سے قبل‘ شیخ صاحب نے کہا تھا: ایمرجنسی سے بڑھ کر (Emergency plus)‘ ایک مشہور کاروباری آدمی سے۔ اسی ہنگام چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سے ناچیز کی طویل ملاقات ہوئی تو انہوں نے تصدیق کی تھی۔ وہی آدمی‘ سب جسے جانتے ہیں مگر نام کوئی نہیں لیتا۔ 
جناب زرداری‘ میاں صاحب اور عمران خان سمیت اس بات پر کوئی غور نہیں کرتا کہ عدلیہ اور میڈیا کی آزادی کے بعد کاروبار حکومت اب اسی فرسودہ انداز میں چلایا نہیں جا سکتا۔ دہشت گردی‘ فرقہ واریت‘ ازکار رفتہ پولیس اور نچلی عدالتیں‘ معیشت اور ٹیکس وصولی کا فرسودہ نظام الگ‘ غیر ملکی مداخلت اس کے سوا‘ لیکن اب سبھی کو ساتھ لے کر چلنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ لیڈر کو اس کے لیے بھرپور اخلاقی ساکھ کی ضرورت ہوگی۔ ایئر وائس مارشل شہزاد چودھری کہتے ہیں‘ معیشت نہیں‘ اخلاقی معیشت۔ کوئی اُٹھے گا‘ کوئی لازماً اٹھے گا۔ کنفیوژن جب بہت بڑھ جائے تو مضبوط لیڈر کی آرزو بھی بڑھتی ہے۔ عمران خان اسی خلا میں ابھرے مگر ان کا حال پتلا ہے۔ ذاتی طور پر بھی‘ سیاسی اعتبار سے اور بھی زیادہ ؎
ہم وہاں ہیں‘ جہاں سے ہم کو بھی 
کچھ ہماری خبر نہیں آتی 
اگر وہ ایک چھوٹے سے جہاز اور ایک ذرا سے جلوے کی تاب نہیں لا سکتے تو کس بنا پر ان سے امید وابستہ کی جائے۔ پرعزم ہیں مگر خوش فہم۔ بے شک مالی معاملات میں دیانت دار مگر پارٹی میں ہر بدنام بلکہ لچا لفنگا بھی گوارا۔ اپنی غلطیوں کا ادراک کریں‘ جعلی پیروں سے رابطے کی بجائے‘ خود اپنے حال پہ غور کریں۔ طاہر القادری ایسے رفیق ڈھونڈنے کی بجائے‘ الیکشن سے پارٹی کی تنظیم نو کر کے‘ براہ راست عوام کے پاس جائیں۔ دھرنے بند کریں اور جہانگیر ترینوں کی بجائے ڈاکٹر سڈل ایسے خیرخواہوں سے مشورہ کریں تو چند ماہ میں وہ متبادل بن کے ابھر سکتے ہیں۔ کرکٹ کی طرح‘ جس میں وہ پسپا ہو کر پھر سے بلند ہو جایا کرتے۔ 2014ء میں وسط مدتی الیکشن کا خواب وہ دیکھنا چھوڑ دیں۔ میاں صاحب گرے تو خود اپنے بوجھ سے گریں گے۔ ع
جس طرح سایۂ دیوار پہ دیوار گرے 
کاروباری طبقات‘ فوج‘ عرب ممالک اور امریکہ کو ملحوظ رکھیں۔ ملحوظ! تابعداری کی ضرورت ہے اور نہ جوڑ توڑ مگر حقائق کا ادراک۔ اقتدار اللہ عطا کرتا ہے اور اس کے قوانین ہیں۔ مکہ مکرمہ میں سرکارؐ کی حکمت عملی پہ صبر غالب تھا‘ مدینہ منورہ میں صبر کے ساتھ جارحانہ منصوبہ سازی بھی کہ قوت اب مہیا تھی۔ قائداعظم نے انگریزی حکومت کے خلاف غیر ضروری ایجی ٹیشن کبھی نہ کیا۔ کانگرس‘ احرار‘ خاکسار اور جمعیت علمائے ہند کے برعکس اصل توجہ اپنی تحریک پر دی۔ مہاتیر محمد نے بھی یہی کیا۔ ترکوں پہ اسی تحمل کے ساتھ ظفر مندی کا دروازہ کھلا۔ طیب اردوان نے خود کو ناگزیر سمجھا تو اب لاچار ہونے لگے ہیں۔ زندگی کسی سے سمجھوتہ نہیں کرتی۔ آدمی کو اس سے سمجھوتہ کرنا ہوتا ہے۔ فرمایا: زمانے کو بُرا نہ کہو‘ اللہ ہی زمانہ ہے۔ اقبال نے فرانسیسی فلسفی کو یہ حدیث سنائی‘ تو اس نے کہا: بخدا اللہ کا پیغمبرؐ ہی یہ بات کہہ سکتا ہے۔ 
پلٹ کر دیکھو‘ تاریخ کے نشیب و فراز میں چراغ جل رہے ہیں۔ پلٹ کر دیکھو کہ قومیں برباد ہو گئی ہیں قدرت کے قوانین کا ادراک نہ کرنے والی اور سرخرو ہیں ماننے والی۔ فرمایا: فسیروا فی الارض فانظروا کیف کان عاقبۃ المکذبین۔ زمین میں گھوم پھر کے دیکھو‘ جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved