تحریر : انجم نیاز تاریخ اشاعت     09-01-2014

ہمارا مسئلہ کیا ہے؟

پاکستانی سیاست دان مشرف ٹرائل جیسی بے بنیادباتوں، میں مصروف ہیں ،دوسری طرف عوام کے مسائل ، جیسا کہ بجلی، پانی اور گیس کی کمی، اور دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ جاری ہے۔سندھ کی فضا میں سیاسی تمازت بڑھ رہی ہے جبکہ خیبر پختونخوا میں عمران خان وفاقی حکومت کی معیشت بحال کرنے کی تمام کوششوں کو سبوتاژ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ صدر مشرف اب فوجی ہسپتال میں ہیں اور ان کے مستقبل کے بارے میں چہ میگوئیاں جاری ہیں اور ہر شخص دوست عرب ممالک کے بارے میں بہت سی باتیں کررہا ہے۔ اس دوران ہمارا اصل مسئلہ کیا ہے؟ کیا یہ دہشت گردی ، مہنگائی، بے روزگاری یا بدعنوانی ہے؟ کیا ہم پاکستان کے مستقبل کے بارے میں سنجیدہ ہیں اور کیا ہماری حکومت کو معاملات کی سنگینی کا رتی بھراحساس ہے؟درست اعداد وشمار تو شاید کسی کے پاس بھی نہیں ہیں لیکن اس وقت پاکستان کی آبادی ایک سو ستر ملین سے تجاوز کرچکی ہے۔ ملک میں تیل کے ذخائر دریافت ہونے کی کوئی توقع نہیںاور گیس کے ذخائر بھی تقریباً ختم ہوچکے ہیں اور بجلی پیدا کرنے کے لیے ڈیم بنانے کی بات کرنا خو د کو صوبوں کا ''غدار ‘‘ کہلانے کے مترادف ہے ، پہاڑوں اور میدانوں میں اُگے ہوئے درخت نہایت کامیابی سے کاٹے جاچکے ہیںاور خزانہ خالی ہے لیکن ہمارے ہاں شرح پیدائش 23.76 فی ہزار ہے اور اس میں کمی لانے کی بات کرنا اخلاقیات کے شیش محل پر پتھر پھینکنے کے مترادف ہے۔ آخری مرتبہ ایوب خان کے دور میں آبادی کو کم کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی لیکن اس کے بعد کسی فوجی یا جمہوری حکومت کی ترجیح میں یہ اہم ترین مسئلہ نہیںرہا ہے۔ 
ایجادات سے ‘دنیا استفادہ کرتے ہوئے اپنا معیار ِ زندگی بہتر بناتی ہے لیکن ہمارے ہاں ایسا نہیں۔ چونکہ ہماری قومی زندگی کا قبلہ درست نہیں، اس لیے ہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہر نئی چیز کو اپنے لیے وبال ِ جان بنالیتے ہیں۔مثال کے طور پر اے سی ایک مفید ایجاد ہے اور پاکستان جیسے گرم ملک میں اس کی افادیت مسلم ہے لیکن جب آپ آئی ایم ایف سے امریکی ڈالر قرض لے کر کسی عرب ملک سے تیل خریدیں اور ا س تیل سے بجلی پیدا کرکے اے سی چلائیں اور کمرہ اتنا ٹھنڈا کرلیں کہ کمبل لے کر سوئیں ، یا جس ملک میں سکولوں اور کالجوں، فیکٹریوں اور ملوں کی جگہ کھانے کے ریستوران اور شادی ہال (جو ہمارے ہاں سب سے منفعت بخش کاروبار ہے) قائم ہورہے ہوں تویقین کرلیں کہ اس قوم سے قسمت کے ستارے روٹھ چکے ہیں۔ کیا یہ ہماری بدبختی نہیں کہ جن مشرقی اقدار پر ہمیں ناز ہے، وہی ہماری تباہی کا باعث بن رہی ہیں۔ اس طرح کیا پاکستان کے مسائل حل ہو سکتے ہیں ؟
یقینا معیشت کی بحالی، تعلیم کا فروغ، امن و امان قائم کرنا اور صحت کی سہولیات کی فراہمی جوئے شیر لانے کے مترادف نہیں ہیں لیکن اس کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ یہ ایک سو سترملین کی آبادی اوراس میں ہونے والا بے ہنگم اضافہ ہے۔ نواز شریف ہو ں یا زرداری، پرویز مشرف ہوں یا عمران خان، یا کوئی مذہبی جماعت، جب تک آبادی کو کنٹرول نہیںکیا جائے گا، مسائل حل نہیں ہوں گے۔ دہشت گردی کی بڑی وجہ بھی کثرت ِ آبادی ہی ہے۔ یہ بات عقل تسلیم کرتی ہے اگر کسی شخص کے دو بیٹے ہوں تو وہ ان کی اچھی تعلیم و تربیت کا بندوبست کرسکتا ہے ۔ ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا کہ کوئی اپنے اکلوتے بیٹے کو کسی انتہاپسند تنظیم کے حوالے کر دے اور وہ اُسے خود کش بمبار بنا دیں، لیکن اگر بچوںکی تعداد درجنوں میں ہو تو یقینا ان کی تعلیم ناقابل ِ برداشت بوجھ ہے۔ پھر ان میں سے کچھ کو دینی مدرسوںمیں، جہاں تعلیم، رہائش اور خوراک مفت ہوتی ہے، میں بھیج دیں گے اور وہاں اگر ان کی برین واشنگ کی جائے تو کوئی اچنبے کی بات نہیں۔ چنانچہ دہشت گردی سمیت تمام مسائل کی وجہ کثرت ِ آبادی ہے اور اس مسئلے سے نمٹنے کی ہمارے پاس کوئی منصوبہ بندی نہیںہے اور نہ ہی یہ ہماری قومی ترجیحات میں شامل ہیں۔ 
پرویز مشرف، ایسا لگتا ہے، ہمارے آخری روشن خیال ''حکمران‘‘ تھے لیکن اُنھوں نے موبائل فون اور ٹرانسپورٹ کی فراہمی اور خواتین کی آزادی کو ترقی کی علامت سمجھ لیا لیکن اصل کام، جو آبادی کو کنٹرول کرنے کا تھا، ان سے بھی نہ کیا گیا۔ آج حال یہ ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی تو کجا، پولیوکے قطرے پلانا ناممکن (کم از کم ملک کے کچھ حصوں میں) ہو چکا ہے۔ موجودہ حکومت قرضے دینے (اور لینے) کی ماہر ہے ، چنانچہ پانچ سال تک یہ لوگ یہی کچھ کریں گے، جبکہ اس دوران ملک کی آبادی میں کئی ملین کا اضافہ ہوچکا ہوگا۔ ہم ایک غلط فہمی کا شکار ہیں کہ اگر ہم کچھ بھی نہیں کریں گے، بس عقیدہ درست کرلیں ، تو تمام کام خودبخود درست ہوجائیں گے۔ میرا نہیں خیال کہ مذہب اپنے پیروکاروںسے کچھ ایسا وعدہ کرتا ہے، اس کی بجائے یہ دنیا دارالعمل ہے اور اس میں جو کچھ کریں گے ، ویسا ہی نتیجہ آپ کے سامنے ہوگا۔ جب ہم آمدنی سے زیادہ اخراجات کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تو ہماری فاقہ مستی نے رنگ لاکر ہی رہنا ہے۔
اگر پاکستان کے مستقبل کا اندازہ لگانا ہو تو اس کے لیے مشرف کیس کے نتیجے کا انتظارکرنے یا نیٹو سپلائی پر عمران خان کے نعرے ، یا اس سرد موسم میں سندھ میں ہونے والی گرماگرما دیکھنے کی ضرورت نہیں، اور نہ ہی ان سے ایک پتا تک ہلے گا، بلکہ اس کے لیے آپ جہاں بھی رہتے ہیں، اپنے ارد گرددیکھیں کہ گزشتہ دس سال کے دوران حکومت نے کتنے تعلیمی ادارے، کتنے ہسپتال، کتنے ٹریننگ سنٹر اور کتنے کتب خانے (یہ اس ملک میں مذاق لگتا ہے) قائم کیے ہیں؟ کیا آپ کے علاقے میں زراعت یا صنعت یا کاروبار کی ترقی کے لیے کچھ کیا گیا ہے؟ یا آپ کو ہر طرف ریستوران اور شادی ہال ہی نظر آرہے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو یقین کرلیں ہم غلط سمت کی طرف جارہے ہیں۔ ہماری جیب میں پھوٹی کوڑی بھی نہیںہے لیکن اگر آپ کسی شادی ہال کے باہر آنے والی بارات دیکھیں تو سینکڑوں کاروں کی فوج ظفر موج دیکھ کر ایسا لگے گا کہ جیسے یہ عظیم لشکر کوئی ملک فتح کرنے جارہا ہے۔ شادی ہا ل کے اندر ہونے والا خوراک کا زیاں اس کے علاوہ ہے۔
جب تک ہم غربت اور دکھاوے کی منافقت کی عادت ختم نہیں کرتے، اسی طرح خوار ہوتے رہیںگے۔ اپنے وزیر ِ خزانہ سے پوچھ کر دیکھیں کہ غیر ملکی قرض دہندگان سے قرضہ لیتے وقت کیسی باتیں سننی پڑتی ہیں۔ کیا دنیا کے کسی اور ملک میں کوئی اس طرح رسومات پر خرچ کرتا ہے؟ وہ کون سی معاشرت ہے جو اپنے معاشرہ کو تباہی کے دہانے پر دھکیل رہی ہے؟کیا ہمارے نصاب میں اس فضول خرچی پر کوئی مضمون پڑھایا جاتا ہے؟ کیا آپ نے مسجد کے سپیکروںسے ، جن کی آواز کم کرنا گناہ شمار ہوتا ہے، اس موضوع پر کچھ سنا ہے؟ کیا سادگی اور میانہ روی اسلامی تعلیمات میںشامل نہیں؟اگر ہیں تو پھر ٹی وی آف کریں اوررک کر کچھ دیر سوچیں کہ ہم کیا کررہے ہیں؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved