تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     09-01-2014

مطالبات اور زمینی حقائق

حیدرآبادکے بعد کراچی کے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین نے جو کچھ کہا وہ ان کے پہلے خطاب میں کہی ہوئی باتوں سے مختلف نہیں؛البتہ انہوں نے شکایت کی ہے کہ ان کے بیان کو سیاق و سباق سے الگ کر کے زیر بحث لایا جارہا ہے۔ 
حیدر آباد اور کراچی کے دونوں جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے الطاف حسین نے سندھ کے مستقبل کے بارے میں جو کچھ کہا وہ صرف اس صوبے کی سیاست میں ہی نہیں بلکہ پاکستان کی تاریخ میں ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اس سے قبل اگرچہ ایم کیو ایم کے مخالف حلقوں کی طرف سے اس پر سندھ کو تقسیم کرنے اور کراچی اور دیگر شہری علاقوں پر مشتمل علیحدہ صوبہ بنانے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے،لیکن الطاف حسین کی طرف سے سندھ کی تقسیم کا مطالبہ اتنے واشگاف الفاظ میںپہلے کبھی نہیں کیا گیا تھا۔یہی وجہ ہے کہ اس مطالبے پر سندھ ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں شدید ردِعمل کا اظہارکیا گیا ہے۔ایم کیو ایم کے قائد کا دعویٰ ہے کہ کشمیر سے لے کر کشمور تک مختلف زبانیں بولنے والے سبھی لوگ ان کے ساتھ ہیں۔انہوں نے علیحدہ صوبہ یا سندھ ٹو کے قیا م کا مطالبہ کرتے ہوئے یہ تاثر دینے کی بھی کوشش کی ہے کہ کراچی اور صوبے کے دیگر شہری علاقوں میں آباد پنجابی، بلوچی، کشمیری، پشتون اور سرائیکی بولنے والے لوگ بھی ان کے مطالبے کی حمایت کرتے ہیں ، لیکن جس طرح ملک کی تمام سیاسی جماعتوں اور خود کراچی سے الطاف کے مطالبے کو رد کیا گیا ہے،اس سے سمجھ آجانی چاہیے کہ ان کے مطالبے کو نہ صرف یہ کہ ملک کے کسی بھی حصے سے کسی پارٹی کی تائید حاصل نہیں ہے،بلکہ کراچی میں نان اردو سپیکنگ لوگ بھی ان کا ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ قیادت کو یہ بھی احساس ہونا چاہیے کہ وہ ایک ہی تان میں جو کچھ الاپ رہی ہے، وہ تضادات کا مجموعہ ہے۔ مثلاً ایک طرف وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ایم کیوایم سندھ کی تقسیم نہیں چاہتی اور دوسری طرف علیحدہ صوبے کا مطالبہ کر رہے ہیںاور اس مطالبے کو جائز ثابت کرنے کے لیے جنوبی پنجاب میں سرائیکی، کے پی کے میں ہزارہ اور بلوچستان میں پشتون صوبے کے حق میں اٹھنے والی آوازں کا حوالہ دیا جارہا ہے۔ایک طرف الطاف حسین اور ان کے ساتھی اپنے آپ کو (نیو)سندھی کہتے ہیں اور دوسری طرف مہاجر کا سوال بھی اٹھارہے ہیں؛ بلکہ ''مہاجر‘‘ مفادات اور مطالبات کو اپنی سیاست کا محور بنا رہے ہیں۔اس کے علاوہ تیسرا اہم تضاد ایم کیوایم کا یہ دعویٰ ہے کہ اس کی جڑیں پاکستان کے تمام حصوں میں موجود رہیں۔وہ اپنے آپ کو ایک علاقائی نہیں بلکہ قومی سیاسی پارٹی کے طور پر پیش کرتے ہیںاور بارہا کہہ چکے ہیں کہ وہ ملک کی 90فیصد سے زائد غریب اور متوسط طبقے کی نمائندہ جماعت ہے لیکن حیدر آباد اور کراچی کے جلسوں میں اپنے خطاب کے دوران وہ صرف سندھ کے شہری علاقوں خصوصاً حیدر آباد اور کراچی کے رہنے والے لوگوں کے احساسِ محرومی کا سوال اٹھا رہے ہیں۔تحریک انصاف کے رہنما اور کراچی سے منتخب ہونے والے ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر علوی نے بالکل درست کہا ہے کہ احساسِ محرومی کا شکار ہونے والے لوگ صرف کراچی میں ہی نہیں بلکہ تمام ملک میں آباد ہیں۔
چوتھے ، ایم کیو ایم ایک جمہوری پارٹی ہونے کا دعویٰ کرتی ہے ، لیکن ایک فوجی ڈکٹیٹر، سابق صدر مشرف کی حمایت کررہی ہے اور اسے آئین توڑنے کے پاداش میں عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کی مخالفت کر رہی ہے۔کیا یہ صریح ابن الوقتی اور بے اصولی نہیں کہ ایک طرف آپ اپنے آپ کو ایک جمہوری پارٹی کے طور پر پیش کرتے ہیں اور دوسری طرف ایک فوجی ڈکٹیٹر کا ساتھ دیتے ہیں۔پانچویں، الطاف حسین اور ان کی قیادت کے بیانات میں پاکستان پیپلز پارٹی پر الزام عائد کیا جارہا ہے کہ اس کی صوبائی حکومت اردو بولنے والے لوگوں کے حقوق کو پامال کر رہی ہے۔ یہ وہی پارٹی ہے جس کے ساتھ مل کر 
گزشتہ پانچ برس میں ایم کیو ایم نے نہ صرف صوبائی سطح پر بلکہ مرکزی سطح پر بھی اقتدار کے مزے لوٹے ہیں۔یہ وہی پارٹی ہے جس کے دورِ حکومت میں ایم کیوایم کے گورنر نے کراچی یونیورسٹی کے چانسلر کی حیثیت سے سابق وزیر داخلہ رحمان ملک کو ان کی ''خدمات‘‘ کے عوض پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری دی تھی۔سندھ کی موجودہ پیپلز پارٹی کی حکومت کو اقتدار سنبھالے ابھی صرف چھ ماہ کا عرصہ گزرا ہے، اس عرصے کے دوران وہ پارٹی جو ایم کیو ایم کی ایک لمبے عرصے تک اتحادی جماعت رہی،کیسے ایم کیو ایم کی دشمن ہوگئی؟
چھٹے،الطاف حسین اور ان کے ساتھی دعویٰ کرتے ہیں کہ سندھ کے شہری علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو ان کے جائز حقوق اور سہولتوں سے محروم رکھا جارہا ہے ؛حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ صرف سندھ ہی نہیں بلکہ ملک کے دیگر تمام حصوں کی دیہی آبادی شہری آبادی کے مقابلے میں تعلیم،صحت، روزگارِ، آمدنی، بجلی، گیس،پانی اور ذرائع آمدورفت جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔انہی وجوہ کی بنا پر لوگ دیہات سے شہروںکا رخ کرتے ہیں۔شہروں کے مقابلے میں دیہات میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ پچاس فیصد زیادہ ہوتا ہے؛ حالانکہ آبادی کی اکثریت دیہاتی علاقوں میں آباد ہے۔ پاکستان کے جو 70فیصد 
لوگ پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں، ان کی 90فیصد تعداد دیہات میں آباد ہے،اس کے باوجود صرف شہری آبادی کو درپیش مسائل کو سیاست کی بنیاد بنانا کسی طور پر بھی جائز نہیں۔
سوال یہ ہے کہ ان تمام حقائق کے باوجود ایم کیو ایم نے اس موقعہ پر سندھ کی تقسیم اور علیحدہ صوبے کا مطالبہ کیوں کیا ہے؟اس سوال کا مختلف حلقوںکی طرف سے مختلف جواب دیا جارہا ہے؛ تاہم دیگر وجوہ کے علاوہ کراچی میں جاری پولیس اور رینجرز کے مشترکہ آپریشن کو ایک بڑی وجہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ ایم کیو ایم نے اس آپریشن کا رخ موڑنے کی پوری کوشش کی اور اس کے لیے انہوں نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت سے بھی مدد حاصل کرنے کی کوشش کی مگر اس میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی اور وفاقی حکومت نے آپریشن پر نہ صرف اپنے اطمینان کا اظہار کیا ہے بلکہ اسے سندھ کی صوبائی حکومت کی کمانڈ میں جاری رکھنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ اپنی سیاسی زندگی میں ایم کیوایم پہلی دفعہ تنہائی (Isolation) کا شکار نظر آرہی ہے۔ایم کیوایم اس صورت حال کو ایک الگ پیرائے میں بیان کر کے اپنے مخالفین پر الزام عائد کر رہی ہے کہ اسے دیوار سے لگایا جارہا ہے اور چونکہ ایم کیوایم کے قائدین اس سے قبل بارہا کہہ چکے ہیں کہ اگر ''انہیں دیوار سے لگایا گیا تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے‘‘ اس لیے اب اس سیاسی تنہائی کو ختم کرنے اور اپنے آپ کو سندھ کی سیاست میں ایک دفعہ پھر ریلیونٹ (Relevant)ثابت کرنے کیلئے سندھ کی تقسیم اور علیحدہ صوبے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved