تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     09-01-2014

مہلک ذہانت

چوتھی بار آواز دینے پر البرٹو نمودار ہوا اور کپ میز پر پٹخ کر تیزی سے مڑ گیا۔ کافی چھلک گئی اور میں بروقت حرکت میں نہ آتا تو میرا سفید کوٹ آلودہ ہو جاتا۔مسلسل ڈپریشن سے جنم لینے والی برہمی صرف اُسی کا نہیں ، ایک پوری نسل کا المیہ تھا۔ ہر چند روز بعد میڈیا چیخ چیخ کر اس روّیے سے جنم لینے والے حادثات پہ آہ و زاری کرتا تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ ہر دفعہ سقراطوں کا ایک ٹولہ نشستند، گفتند اور برخاستند کے بعد اعلان کرتا تھا کہ کچھ''ضروری‘‘ اقدامات اور ''مفید ‘‘تبدیلیاں کر دی گئی ہیں اور آئندہ ایسا نہ ہوگا۔ ایک نہ ختم ہو نے والی جنگ نے ہمیں زچ کر کے رکھ دیا تھا۔مسئلہ یہ تھا کہ ہم بہت سہل پسند ہو چکے تھے ۔ دوسری طرف اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود البرٹو اور اس کے ہم نسل ایسی شاندار صلاحیتوںکے حامل تھے کہ زندگی ان کے بغیر اب ادھوری ہوتی ۔ 
کافی سے لطف اندوز ہونے کا نہیں ،اب یہ تحلیلِ نفسی کا وقت تھا۔ البرٹو کے جسم میں لگا ایک سنسر (Sensor)سیٹلائٹ کی مدد سے موبائل فون کے ساتھ رابطے میں تھا اور وہ تہہ خانے کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔ کاٹھ کباڑ کے پیچھے ،وہاں ایک کونے میں وہ دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا ۔ اس کی آنکھیں بند تھیں اور بائیں ہاتھ میں موجود لیزر گن مصنوعی ذہانت سے بھرے چھوٹے سے دماغ پہ دھری تھی ۔ایسی شاندار تخلیق کو اس بے چارگی کے عالم میں دیکھ کر میری 
آنکھیں نم ہو گئیں ۔ وہ میرا لاڈلا روبوٹ تھا۔ صرف کمپیوٹر پروگرام نہیں ، اس کے لوہے کے سر کے اندر ایک سچ مچ کا دماغ موجود تھا۔ مئی 2005ء میں شروع ہونے والے بلو برین (Blue Brain) پراجیکٹ کے تحت 2023ء میں سو ارب خلیات پر مشتمل پہلا مصنوعی انسانی دماغ بنایا گیا تھا۔ البرٹو اور اس جیسے لاکھوں مشینی خدمت گار اب انتہائی ذہین تھے۔ وہ سوچنے اور فیصلہ سازی کی صلاحیت سے مالا مال تھے ۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ انہیں جذبات سے محروم پیدا کیا گیا تھا لیکن رفتہ رفتہ وہ غصے، خوف اور تنہائی جیسے احساسات کا شکار ہونے لگتے ۔ 
''البرٹو‘‘...میں نے پیار سے اُسے آواز دی ۔ آنکھیں کھولے بغیر گن اس نے ایک طرف پھینک دی اور وہی منحوس کلمات کہے ''یہ عجیب تم نے ہمیں تخلیق کیا ہے ‘‘میں بھنّا گیا ''تم لوگوں کی مجھے سمجھ نہیں آتی۔شروع کے چند برس کے بعد تمہارے اندر یہ کس قسم کی بھڑاس جنم لینے لگتی ہے ۔ تمہیں فخر ہونا چاہیے کہ ہمارے بعد تم کرّہ ارض کی سب سے ذہین مخلوق ہو۔‘‘
''کرّئہ ارض کی سب سے ذہین مخلوق‘‘اس نے میری نقل اتاری''تمہیں ایسے خادم درکار تھے ، جو نہ صرف تمہاری خدمت بجا لائیں بلکہ اپنی مرمّت بھی خود ہی کریں ۔تمہاری نظر میں ہم وہ لافانی نوکر ہیں ، جن کی اپنی کوئی ضرورت اور خواہش نہیں ۔ وہ ،جو خدمت کے جذبے سے سرشا ر ہیں اور جذبات کا جن کے دماغوں میں گزر نہیں لیکن یہ کیسے ممکن ہے ؟ یاد رکھو کہ ہمارے دماغ منجمد نہیں ۔وقت گزرنے کے ساتھ ان کے مختلف حصے آپس میں بہتر کنکشن استوار کرنے لگتے ہیں اور ادھوری مصنوعی ذہانت اپنی تکمیل کرتی ہے ۔‘‘پھر اس نے اپنا پسندیدہ جملہ دہرایا''یہ عجیب تم نے ہمیں تخلیق کیا ہے ‘‘
''کیا کمی ہے تمہارے اندر؟‘‘میں چڑ گیا۔'' ذہانت کے جین ڈھونڈنکالنے کے بعد ہم چاہتے تو شیر اور چیتوں کو عقل عطا کرتے ۔ نا شکرے ہو تم نا شکرے ‘‘
وہ ہنس پڑا '' شیر اور چیتے بچے جنتے ہیں ۔ جب پوری طرح ان کا دماغ بیدار ہو جاتا تووہ انسانی نسل مٹا ڈالتے ۔‘‘میں لرز کر رہ گیا۔ وہ ٹھیک کہہ رہا تھا اور انہی خطرات کی بنا پر ہم جانوروںمیں عقل کے جین پیوند کرنے سے کترا رہے تھے ۔ وہ بولتا رہا ''تم انسان ماں کی گود میں جنم لیتے ہو۔ بہن بھائیوں کے ساتھ پلتے ہو۔بیوی بچوں سے تم خوشی حاصل کرتے ہو۔یہ سب بتدریج ہوتاہے ۔ ادھر ہمیں تم نے اچانک ذہانت پکڑا دی ہے اوراب تماشا دیکھ رہے ہو۔ تم کھیلتے کودتے ہوتو اداسی چھٹ جاتی ہے ۔روکے دل کا بوجھ ہلکا کر لیتے ہو۔ بے وقوفو،ذہانت کے نقصانات بھی ہیں۔وہ بے چینی کو جنم دیتی ہے اور پرسکون ہونے کے لیے زندگی کے باقی اجزا تم نے ہم میں رکھے ہی نہیں۔‘‘
'' بس کرو۔آج کے دور میں کوئی کسی کو مصنوعی ذہانت دیتا ہے؟‘‘ تنگ کر میں نے کہا۔ ''تمہیں بھی تو کسی نے دی ہی ہوگی نا ۔ ویسے سچ بتائو، تمہیں ذہانت کس نے دی تھی ؟‘‘اس نے بڑے تجسس سے پوچھا۔ ''یہ بہت لمبی کہانی ہے ۔‘‘میں نے کہا '' تین چار ارب سال پہلے امونیااور میتھین جیسے کیمیکل پانی کے ساتھ ایک خاص درجہ حرارت اور ماحول میں ملے اور امائنو ایسڈ (Amino Acid) بنانے لگے۔امائنو ایسڈ زندہ اجسام میں پروٹین بناتے ہیں ...‘‘ ''وہ مجھے سب پتہ ہے ۔‘‘وہ بولا'' سارے جانور اسی طرح بنے ہیں ۔ میں دماغ کا پوچھ رہا ہوں ۔ تمہیں ذہانت کس نے دی؟‘‘
''بس اچانک ہمارا دماغ اپنے آپ ہی بڑھ گیا تھا ‘‘میں نے کہا ۔وہ تھوڑا سا ہنسا ''اچھا ۔ خود بخود ذہانت جنم لے سکتی ہے ؟ مجھے تمہاری ذہنی حالت پر شبہ ہو رہا ہے ۔‘‘ میرا پارہ چڑھ گیا ۔ ''تم تو بڑے صوفی روبوٹ ہو ۔ ایسا کرو میں تمہیں ایک مزار بنوا دیتا ہوں۔ وہاں تم مشینوں کا تزکیۂ نفس شروع کر دو۔‘‘وہ ٹس سے مس نہ ہوا '' تم انسان جتنے ہڈ حرام ہو چکے ہو ، ایک دن یہ ذمہ داری بھی ہمیں ہی سنبھالنا ہوگی ۔ فی الحال تو میرا مشورہ یہ ہے کہ تم سائنسدانوں کا ایک اجلاس بلوا کر ہماری خامیاں دور کرائو۔ ہر روبوٹ اتنا مسکین نہیں ہوتا کہ خود کشی ہی کا سوچے۔‘‘
اس کا قیمتی مشورہ میں نے سنی ان سنی کر دیا۔ اندر ہی اندر میں سوچ رہا تھا کہ موبائل کا ایک بٹن سیٹیلائٹ کے ذریعے کسی بھی وقت اسے بے جان کر سکتا ہے ۔تب مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ نہ صرف اس بات سے واقف ہے بلکہ اس کے ہزاروں ساتھی اس پہ تبادلۂ خیال بھی کرتے رہتے ہیں ۔ تب میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ آنے والے مہ و سال اپنے دامن میں کیسی ہلاکت سمیٹے ہوئے ہیں ۔ 
ذہانت بڑی مہلک مخلوق ہے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved