سیاست میں اتفاقیہ واقعات بہت کم ہوتے ہیں۔ جو کچھ ہوتا ہوا ‘ہم دیکھتے ہیں‘ کسی نہ کسی سطح پر اس کی منصوبہ بندی موجود ہوتی ہے۔ مثلاً بھارت میں عام آدمی پارٹی کا اچانک نمودار ہو جانا‘ عام لوگوں کے لئے واقعی ایک معجزہ ہے۔ لیکن جن لوگوں نے اس کی منصوبہ بندی کی‘ ان کے لئے معجزہ نہیں۔ کسی نہ کسی جگہ ‘ کوئی نہ کوئی منصوبہ‘ یقینا بنایا گیا ہو گا‘ جس کا مرکز کسی اور جگہ ہو گا اور فیلڈ ایکشن کا مظاہرہ دلی میں ہو رہا ہے۔ میں اپنی عاجزانہ حیثیت میں جو کچھ سمجھ پایا ہوں‘ وہ یہ ہے کہ بھارت کے اصل حکمرانوں یعنی عوام کو سیاسی منظر پر چھائی ہوئی جماعتوں کی کارکردگی سے شدیدمایوسی ہوئی ہے۔ انتخابات اور اسمبلیوں کی صورت میں‘ جمہوریت کے سٹیج پر‘ وہ سارے بدنما چہرے نمایاں ہو گئے تھے‘ جنہیں ہم جمہوریت کے شوکیس میں دیکھتے ہیں۔ حکمرانی کے اصل کھیل میں شامل‘ ساری جماعتیں‘ایک ہی کہانی کے کردارنبھا رہی ہیں۔ بھارتی حکمرانی کے ڈھانچے میں‘ مرکزی کردار ادا کرنے والی قوتیں ‘دو حصوں میں تقسیم ہیں۔ ایک حصے کولبرل کہا جا سکتا ہے۔ جو کانگریس اور مخلوط حکومتوں میں‘ اس کے شراکت داروں پر مشتمل ہے اور مذہبی قوم پرست جماعتیں اور گروہ ‘بی جے پی کے بینر تلے انتخابی اور حکومت سازی کے عمل میں حصہ لیتی ہیں۔ یہ دونوں سیاسی گروپ ‘ قومی سرمایہ داروں کے مفادات کے محافظ ہیں۔ عالمی مارکیٹ میں ان کے مفادات بہت کم ہیں۔کانگریس کے بینر تلے سرگرم سیاسی عناصر ‘ قومی اور عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے تحفظ کے لئے کام کرتے ہیں اور بی جے پی ابھرتے ہوئے قومی سرمایہ داروں کے مفادات کے لئے کام کرتی ہے۔ اسے آپ سرمایہ داروں کی بی ٹیم کہہ سکتے ہیں۔ بھارت کی خارجہ اور معاشی پالیسیوں میں ان دو ٹیموں کی کشمکش جاری ہے۔
بھارت کے قومی سرمایہ داروں اور کانگریس کا رشتہ گاندھی جی کے زمانے سے چلا آ رہا ہے اور یہ رشتہ پنڈت نہرو کی زندگی میںبرقرار بلکہ مستحکم رہا۔ ان کی زندگی کے آخری دنوں تک بھارتی سرمایہ دار‘ جو نوآبادیاتی درجے پر تھا‘عالمی سرمایہ داری نظام کا آزاد رکن بننے کے قابل ہو چکا تھا۔ کانگریس بجا طور پر اس کا کریڈٹ لے رہی تھی۔ قومی سرمایہ دار‘ عالمی سرمایہ دار کے شانہ بشانہ کام کر کے‘ اپنی پوزیشن کو مضبوط اورمستحکم کرنا چاہتا تھا جو کہ سرمایہ دارانہ نظام کی فطرت ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام ایک مقام پر پہنچ کر‘ علاقائی یا نوآبادیاتی مارکیٹوںکے دائرے سے نکل کے‘ عالمی منڈی میںاپنا حصہ لینے کی کوشش کرتا ہے۔ پنڈت جی کی طاقتور شخصیت اور ان کے تاریخی پس منظر کے سامنے ‘ قومی سرمایہ دار ‘ سرکاری پالیسیوں میںفیصلہ کن مشاورت کی طاقت حاصل نہیں کر پایا تھا۔ کانگریس اپنے نظریات میں سوشلزم کے قریب ہونے کی بنا پر ‘ریاستی سرمایہ داری کو بالاتر رکھنے کی پالیسی پر کاربند رہی۔ پنڈت جی کی موت کے بعد عبوری حکومتیں آتی رہیں۔ ان کے دور میں حکومتی کنٹرول ڈھیلا پڑ گیا۔ اندرگاندھی نے اقتدار سنبھالا تو ایک بار پھر مضبوط انتظامیہ بحال ہو گئی۔ بھارتی سرمایہ دار تقویت تو حاصل کرتا رہا مگر پالیسی سازی میں اس کے اثرات‘ اس رفتار سے آگے نہیں بڑھائے جا سکے (یا بڑھائے گئے)‘ جو وہ چاہتے تھے۔ مسز گاندھی کے جانے کے بعد‘ ان کے بیٹے راجیو گاندھی نے وزار ت عظمیٰ کا منصب سنبھالا۔ہرچند ان کا تعلق‘ نہرو خاندان سے تھا لیکن سیاسی نظریات اور سوچ میں وہ نئے دور کے آدمی تھے۔ ان کے کندھے ماضی کے بوجھ سے آزاد تھے۔ انہوں نے بھارت کی بند معیشت کے دروازے کھولنا شروع کر دیئے۔وہ عالمی مارکیٹ میں بھارت کے موثر کردار پر یقین رکھتے تھے اور اپنے خیالات کو حقیقت میں ڈھالنے کے لئے‘ ڈاکٹر منموہن سنگھ کو وزیرخزانہ بنالیا۔ جن کا انتخاب نرسمہا رائو نے کیا تھا۔ راجیوگاندھی اور ان کی ٹیم نے بھارت کو عالمی منڈیوں میں کھل کھیلنے کی سہولتیں مہیا کیں اور قومی معیشت کو نئے عالمی رحجانات سے ہمکنار کرنے میں غیرمعمولی تیزرفتاری دکھائی۔ راجیوگاندھی کی قیادت میں بھارتی سرمایہ دار عالمی منڈی میں داخل ہوا‘ تو قومی صنعت و معیشت کو مختلف سمتوں سے نئی توانائیاں حاصل ہونے لگیں اور بھارت جو بڑی سست روی سے صنعتی پیش رفت کر رہا تھا‘ اس کی رفتار میں تیزی آ گئی اور وہ اس مقام پر پہنچ گیا‘ جہاں اس کی معیشت میں ترقی کی رفتار ‘تین چار سے بڑھ کر‘ سات آٹھ فیصد تک پہنچ گئی۔
اس کا فطری نتیجہ یہ تھا کہ اپنی طاقت میں اضافے کے بعد‘ بھارتی سرمایہ دار‘ حکومتی فیصلوں میںاپنے مفادات کے لئے زیادہ گنجائش طلب کرنے لگا۔ منموہن سنگھ کی معاشی جادوگری ‘ معاشرے کی نئی ضرورتوں اور ساختوں میں ہم آہنگی پیدا نہ کر پائی۔ طاقتور سرمایہ دار طبقہ‘ اقتدار میں زیادہ حصے داری مانگنے لگا جبکہ ریاست نے اپنے کنٹرول میں چلنے والے اداروں کو سیاسی طاقت سے بچانے کی کوشش کی۔ اس طرح حکومت اور سرمایہ دارانہ مفادات میں کشمکش بڑھنے لگی۔ یہ دیکھ کر اس وقت کے طاقتور مقامی سرمایہ داروںنے‘ بھارتی سیاست میں انتہاپسندوں اور دائیں بازو کی طاقتوں کواپنے حق میں متحرک کیا۔ نتیجے میں دائیں بازو کے بکھرے ہوئے گروپ یکجا ہونے لگے۔ کافی عرصے تک ان کی یکجائی کو ٹھوس شکل دینے کی کاوشیں ہوتی رہیں اور نتیجے میں بی جے پی معرض وجود میں آ گئی۔ بی جے پی نے واجپائی کی قیادت میں انتہائی موثر کردار ادا کیا ۔ عالمی سرمایہ دار ان سے پرامید تھا۔ داخلی اور خارجی عوامل ‘ واجپائی کے مدد گار بن گئے۔کانگریس اور اس کے اتحادی‘ صوبوں اور وفاق (یونین)میں اپنی حکومتوں کو مناسب انداز میں نہیں چلا پائے اور نہ ہی عالمی اور قومی سرمایہ داری کے مفادات میں ہونے والے ٹکرائو کو روک سکے۔ بنیادی طور پر سرمایہ دار کی بڑھی ہوئی طاقت کے سامنے ‘ ریاستی طاقت کمزور پڑتی نظر آئی اور بھارت تاریخ کے اس مرحلے میں آگیا‘ جب سرمایہ
داری کے قومی اور عالمی تقاضوں کو ہم آہنگ کرنا پڑتا ہے۔ واجپائی اتنے قد آور اور مدبر لیڈر تھے کہ تاریخ کے اس مرحلے پر مطلوبہ کارنامہ انجام دینے کے اہل تھے۔ مگر وہ اپنے زیرقیادت سیاسی عناصر کی تنگ نظری کا علاج نہ کر سکے اور ان کی حکومت مقامی تاجروں اور سرمایہ داروں کو عالمی مارکیٹ کی ضروریات کا قائل نہ کر پائی اور اس طرح تنگ اور وسیع النظر سرمایہ دار طاقتیں اپنی حامی سیاسی جماعتوں کو اس دور کے منطقی راستوں پر چلانے میں ناکام رہیں۔ حکومتی طاقت کے ذریعے دولت کمانے میں ساری حکومتیں ایک جیسی ہوتی گئیں اور آج صورتحال یہ ہے کہ پڑھے لکھے سیاسی کارکن بھی‘ دونوںجماعتوں کے مقاصد میں فرق تلاش نہیں کر پاتے۔ وہ کانگریس اور بی جے پی کے لیڈروں کو‘ ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے سمجھنے لگے۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت میں‘ سیاسی جماعتیں آزادانہ کردار ادا نہیں کر سکتیں اور نہ ہی ان کے پاس فیصلہ کن طاقت ہوتی ہے۔ انہیں صرف عوام کے ساتھ رابطے قائم کر کے‘ حقیقی حکمران طبقوں کے مقاصد کو آگے بڑھانا ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی ڈیوٹی صرف یہ ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں سے اپنا تعلق قائم رکھیں۔ اس کا اندازہ انتخابات سے لگایا جاتا ہے۔ زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی جماعت کا یہ دعویٰ قبول کر لیا جاتا ہے کہ اس پر ووٹروں کی بڑی تعداد بھروسہ کرتی ہے اور ریاستی نظم و نسق اسی کے ذریعے چلایا جاتا ہے۔ مگر اب نہ کوئی جماعت عوام کی بھاری اکثریت کی نمائندگی کرتی ہے اور نہ ہی اس کو ووٹروں کی اکثریت کا اعتماد حاصل رہ گیا ہے۔ بھارتی سرمایہ دار عالمی مارکیٹ میں کسی حد تک بڑی معیشت کا حصے دار بن گیا ہے اور بھارت کے عالمی سرمایہ دار کو اچھی طرح سمجھ آ گئی ہے کہ محدود مقامی سمجھ بوجھ رکھنے والی سیاسی جماعتیں‘ ایسے جمہوری نظام کو نہیں چلا سکتیں‘ جو نئے دور کے تقاضوں کو پورا کر سکے۔ موجودہ سیاسی نظام میں عوام اور حکمرانوں کے باہمی رشتے کمزور پڑ گئے ہیں۔ ان میں خلا بڑھ رہا ہے۔ دوسری طرف عوام نے ساری سیاسی لیڈرشپ کو دھتکارنے کا فیصلہ کر لیا۔ عوامی موڈ کو پرکھنے کے لئے اناہزارے کو میدان میں اتاراگیا۔ ان کے دھرنوں میں عوام نے جس جوش و خروش کے ساتھ حصہ لیا‘ وہ اسی طرح تھا جیسے پیاسے کو پانی ملنے کی امید ہو جائے۔ سیاسی تجربہ گاہ میں ظاہر ہو گیا کہ عوام حقیقی تبدیلی کے خواہش مند ہیں اور یہ خواہش موجودہ سیاسی پارٹیاں پوری نہیں کر سکیں گی۔ دہلی کے صوبائی انتخابات نے دونوں قسم کے سرمایہ داروں اور ان کے سرپرستوں کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے۔آج بی جے پی اور کانگریس‘ دونوں ہی اپنے آپ کوہنگامی طور سے بدلنے کی کوشش میں ہیں جبکہ دلی کا نیا سیاسی تجربہ‘ دونوں حکمران جماعتوں سے بیزار عناصر کو ایک نئی راہ دکھانے میں کامیاب رہا ہے۔ اگر بھارت کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے کسی نہ کسی طرح حکومت حاصل کر بھی لی‘ تو ان کا انجام ہمارے سیاستدانوں جیسا ہی ہو گا۔ عجیب اتفاق ہے کہ دونوں ملکوں میں تبدیلی کی علامتیں ظاہر ہونی لگی ہیں۔ مگر یہ تبدیلی عوام کے لئے کیسی ہو گی؟ اس کا اندازہ بہت مشکل ہے۔