آج کل اخبارات میں دو فتووں کا بہت چرچا ہے۔ ایک سعودی عالم کا فتویٰ ہے جس میں فرمایا گیا کہ ڈرائیونگ کے دوران موبائل فون کا استعمال حرام ہے اور دوسرا ایران کے مذہبی راہنما کا فتویٰ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ انٹرنیٹ پر غیر محرم مردوزن سے چیٹنگ حرام ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے ہمارے ہی اخبار ''دنیا‘‘ میں اسی ایرانی مذہبی راہنما کے فتویٰ کے ساتھ جو خبر لگی ہے وہ بھی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے کہ فیس بک پر دوستی کا انجام ملتان کی دو طالبات کے اغواء کی صورت میں سامنے آیا۔ فیس بک والے فتویٰ پر تو بات ہوتی رہے گی لیکن سعودی عالم کے فتویٰ نے کم ازکم میری روح کو سرشار کر دیا۔ اس لیے کہ اسلام جو دین ہی سلامتی کا ہے اور آپ جُوں جُوں اس کی تہہ میں اترتے چلے جائیں اور اسلامی فلسفے کے مطابق جس قدر اسلام میں داخل ہوتے چلے جائیں یہاں تک کہ پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو جائیں تو آپ اسی نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اسلام صرف سلامتی ہے۔ سلامتی ہے۔ سلامتی ہے۔ خیر ہی خیر ہے۔ امن ہی امن ہے۔ معاشرہ ہو کہ فرد‘ قوم ہو کہ مملکت‘ اسلام ہر سو ظاہری و باطنی امن کے پھول کھلا دینا چاہتا ہے۔ روحانی و جسمانی تطہیر کے باعث ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کی خواہش رکھتا ہے جس میں کسی کی زبان اور ہاتھ سے کسی دوسرے کو کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچے۔ جس میں ایک دوسرے کو مسکرا کر دیکھنا بھی ثواب کا باعث ہو تو جس دین میں راستے سے کانٹا اور پتھر صرف اس غرض سے ہٹا دینا ثواب میں شامل ہو کہ اس سے کسی دوسرے انسان کو تکلیف نہ پہنچے‘ اس دین کی خاطر سو بار قربان ہونے کو جی چاہتا ہے۔ اسی لیے سعودی عالم کے اس فتویٰ نے‘ کہ ڈرائیونگ کے دوران موبائل فون کا استعمال حرام ہے‘ کم ازکم میری روح کو سرشار کر دیا۔ گو کہ اس فتویٰ پر کچھ علماء کی مختلف رائے بھی سامنے آئی ہے مگر بیشتر علماء نے اس بات سے اتفاق کیا کہ اگر حرام نہیں بھی تو کم از کم گناہ ضرور ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ محراب و منبر نے پچھلے کچھ عرصے سے معاشرے اور زمانے میں ہونے والی جدید تبدیلیوں کے ان پہلوئوں کو نظر انداز کیا ہوا ہے اور ان حوالوں سے مذہب کی روشنی میں جو راہنمائی مسلمانوں کو فراہم کی گئی اس سے کہیں زیادہ اس پر کام کرنے کی ضرورت تھی اور ہے کیونکہ مومن ہمیشہ اپنے عصر سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔ اس فتوے کے حوالے سے بھی نہ صرف عوام الناس کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ یہ کیوں گناہ ہے بلکہ یہ بھی بتانے کی ضرورت ہے کہ یہ کس نوعیت کا گناہ ہے کبیرہ ہے یا صغیرہ؟ صغیرہ ہے تو صغیرہ کیوں ہے؟ کبیرہ ہے تو گناہِ کبیرہ کیوں ہے؟ ایک سوال یہاں چھوڑے جا رہا ہوں کہ جب ریسرچ یہ ثابت کر چکی ہے کہ ٹریفک حادثات کی ایک بڑی وجہ آج کے دور میں ڈرائیونگ کے دوران موبائل کا استعمال ہے‘ تو اس طے شدہ امر کے جاننے کے باوجود بھی کہ کوئی شخص ڈرائیونگ کے دوران فون پر کسی دوست سے ٹھٹھا کرتے ہوئے یا اپنی اہلیہ سے دل لگی کرتے ہوئے یا اپنے بچوں سے گپ شپ کرتے ہوئے یا آفس کے بارے میں کوئی ہدایت دیتے ہوئے کسی شخص کو ہٹ کر دیتا ہے اور وہ شخص ساری عمر کے لیے معذور ہو جاتا ہے یا اس کی جان چلی جاتی ہے‘ ایک گھرانہ ایک پورا خاندان اجڑ جاتا ہے یا ایک انسان ساری زندگی کے لیے بستر سے لگ جاتا ہے‘ چلنے پھرنے کے لائق نہیں رہتا تو کیا یہ گناہ صغیرہ ہو گا یا کبیرہ؟ اور کیا یہ جاننے کے باوجود بھی کہ ڈرائیونگ کے دوران موبائل فون کے استعمال کے باعث ایکسیڈنٹ کا خطرہ کہیں زیادہ بڑھ جاتا ہے‘ اگر ڈرائیونگ کے دوران موبائل سنتے ہوئے ایکسیڈنٹ سے کسی کی جان چلی جائے تو یہ حادثہ ہو گا یا قتل؟
محراب و منبر کو لوگوں کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ ہسپتال کے آگے ہارن بجانے سے لے کر گھر میں کم سن ملازم رکھنے تک، وہ ڈور جس سے بچوں کی گردنیں کٹ کر باپوں کی گودوں میں گر جاتی ہوں اور ہوائی فائرنگ سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں اسلام کی تعلیمات ہمیںکیا سکھاتی ہیں۔
محترم مفتیانِ دین کی راہنمائی کے ساتھ ساتھ ایک فتویٰ قارئین جب چاہیں میرے آقاؐ سرکارِ دو عالمﷺ کی ایک حدیث کی روشنی میں اپنے دل سے بھی لے سکتے ہیں اور اسلام کی روشنی میں ہر دل کا فتویٰ وہی ہو گا کہ مسلمان وہی ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا محفوظ رہے۔ چلتے چلے ہمیشہ قائم رہنے والی کتابِ ہدایت پھر یاد آئی کہ جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا پوری انسانیت کی جان بچائی‘ جس نے ایک انسان کوقتل کیا گویا پوری انسانیت کو قتل کیا۔ تو اس آیت کریمہ کی روشنی میں کم ازکم میرے نزدیک موبائل فون سنتے ہوئے ڈرائیونگ کے دوران کسی کو مار دینا حادثہ نہیں ہے قتل ہی ہے۔ باقی افضل وہی ہے جو مفتیانِ دین فرمائیں۔