تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     10-01-2014

تھوتھا چنا باجے گھنا

حکومت اس کا بوجھ اٹھا سکتی ہے اور نہ حامی اورحلیف۔ امریکی اخبار کو چھوڑیے، قرائن کہتے ہیں کہ خواہ عدالت سے سزا ہو جائے ، ایک دن وہ چلا جائے گا ۔ ایک دوسرے کے کارناموں سے وہ خوب واقف ہیں ۔ اب مکافاتِ عمل کا در کھلاتوچوپٹ کھل جائے گا۔ہرگز ہرگز وہ اس کے متحمل نہیں ۔ 
زرداری صاحب کے وکیل نے جتلایا کہ سیاسی لیڈر جری ہوتے ہیں ، جنرل نہیں ۔ ایک آدھ نہیں، سینکڑوں مرتبہ جناب زرداری نے عدالت سے گریز کیا۔ نسیان کی بیماری کے سرٹیفکیٹ پہنچا کر ۔اب اندازہ ہوتا ہے کہ وہی نہیں، ان کے وکیل بھی اس مرض میں مبتلا ہیں۔دولت مند اور دلاوری؟ برسوں، عشروں، مقدمات وہ ملتوی کراتے چلے گئے ۔ ذرا سا موقعہ ملاہے توخود ستائی پہ اتر آئے۔ تھوتھا چنا باجے گھنا۔ سکت تھی تو مشرف سے معاہدہ کر کے نیویارک کیوں گئے ؟ سپریم کورٹ سے بارہا حکم صادر ہونے کے باوجود سوئٹزرلینڈ کو مقدمہ چلانے کا خط کیوں نہ لکھا؛حتیٰ کہ ایک عدد وزیراعظم کی قربانی دے دی ۔ 
دوسرے میاں محمد نواز شریف ہیں ۔ دس برس کے لیے سیاست سے دستبردار ہو کر وہ سعودی عرب جا براجے۔ عربوں اور امریکیوں کی مدد سے ۔ سمجھوتے کو چھپاتے رہے ؛حتیٰ کہ سعودی عرب کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ نے پاکستان پہنچ کر راز فاش کر دیا۔ 
محترمہ ،پرویز مشرف کے تحت وزیراعظم بننے پر آمادہ تھیں ۔ برطانیہ کی وزارتِ خارجہ نے امریکہ اور خلیجی حکمرانوں کی مدد سے مذاکرات کا ڈول ڈالا ۔ فروری 2007ء کے آخری ہفتے میں شیخہ فاطمہ کے محل میں جنرل سے ان کی ملاقات ہوئی اور این آر او کا راستہ ہموار ہوا۔ چند دن بعد جنرل سے چیف جسٹس کی دھماکہ خیز ملاقات سے صورتِ حال یکسر بدل گئی ۔ وعدہ توڑ کر الیکشن سے پہلے پاکستان آئیں ۔ محترمہ کے المناک قتل کی تفتیش شاید اسی لیے نہ ہو سکی کہ سامراج سے پیماں شکنی کی تھی ۔ وصیت وجود میں آئی اور زرداری صاحب جانشین ہو گئے ۔ 
میاں صاحب نے دو بار الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔پھر امریکہ اور برطانیہ کے دبائو پر آمادہ ہو گئے ۔رچرڈ بائوچر مہرہ تھے ۔ فوجی صدر قاف لیگ کی پشت پر تھے ، جس طرح کہ 1988ء اور 1990ء میں جنرل اسلم بیگ کی سپاہ اور جنرل حمید گل کی آئی ایس آئی میاں محمد نواز شریف کا سہارا۔ 2008ء میں نون لیگ دھاندلی کا ہدف تھی ۔ کوشش یہ تھی کہ شریف برادران پاکستان نہ آسکیں۔ سعودی عرب کے ناراض قبائلی سردار جوق در جوق شاہ عبد اللہ کے دربار میں پہنچے ، دبائو ڈالا ۔وگرنہ وہی سعودی عرب ا نہیں جہاز میں ڈال کر لے گیا تھا۔ سعودی انٹیلی جنس چیف نے اسلام آباد میں سمجھوتے کا کاغذ لہرایا تھا۔ اپنی نوعیت کا واحد واقعہ کہ ایک خفیہ ایجنسی کے سربراہ نے دوست ملک میں پریس سے خطاب کیا ہو۔ یہ ناچیز اور رئوف کلاسرہ ایسے اخبار نویس تھے ، جنہوںنے اس روزواویلا کیا۔ نون لیگ کے دانشور تو بھیگی بلّی تھے ۔ ملک سکتے میں تھا۔آزاد میڈیا بروئے کار آیا تو نون لیگ نے سعودی سفارت خانے کی تقریب کا بائیکاٹ کیا۔ ان کے سفیر نے ریاض کو لکھا کہ 
پاکستانی ناراض ہیں ۔اب ہمارا کوئی ہمدرد نہیں ۔ نون لیگ کے چند سو کارکن بھی ہوائی اڈے پر پہنچ نہ سکے تھے۔
اسی شام جدّ ہ میں میاں صاحب اپنے مہمان فرید پراچہ کو پیسٹریاں پیش کر رہے تھے ۔ ''بہت عمدہ ہیں‘‘۔ بجھے ہوئے چہرے پر عزم کا نشان تک نہ تھا ۔ تب شاہ عبداللہ نے میاں صاحب کو ملاقات بخشی ۔ اپنا جہاز عنایت کیا اور دو عدد بلٹ پروف گاڑیاں تحفے میں دیں۔ جنرل مشرف کو شاہ نے فون کیا کہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے۔ 
بہادری؟ بے شک سیاسی لیڈر ، عوامی زندگی میں جنرلوں سے بڑھ کر بے باک ہو تے ہیں ۔ بعض وردی پوش ذرا سی تنقید سے گھبرا اٹھتے ہیں ۔ سیاستدان عادی ہو جاتے ہیں کہ مسافر دیکھے بھالے راستوں پہ آسودہ ہوا کرتا ہے۔ زرو جواہر کا انبار دنیا کی محبت کو جنم دیتاہے ۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے اسی کو ''وھن‘‘ کا نام دیا تھا۔ اسی حوالے سے فرمایا تھاکہ مشرک مسلمانوں کی کثرت کے باوجود ان پہ غالب آئیں گے ۔ نواب زادہ نصر اللہ خان جری تھے۔ عمر بھر جائیداد بیچتے رہے ۔ 15،20سال جیل میں گزار دئیے ۔ ان سے بڑھ کر سید ابو الاعلیٰ مودودی ۔ ان کے ایک حریف نے کہا تھا : خوف ان کی کھال میں داخل نہیں ہوتا ۔ بھٹو جیل میں ڈالے گئے تو خود ترحمی کا نمونہ ہو گئے۔ خواجہ غلام فرید کا مصرع پڑھا کرتے۔ ''دکھاں دی ماری جندڑی علیل اے‘‘۔ 1971ء کے موسمِ بہار میں گرفتاری کا خطرہ مول لے کر لاہور کے گول باغ میں جلسہ ء عام سے خطاب کیا کہ انتقالِ اقتدار کے لیے یحییٰ خان پردبائو ڈالا جائے ۔طعنہ دیا کہ تم نے تین ٹوپیاں پہن رکھی ہیں۔ صدارت ، انتظامی سربراہ اور سپہ سالاری کی ۔محمود علی قصوری کے ہاں مقیم تھے ۔ شب بخار نے آلیا۔ آغا شورش کاشمیری نے موچی دروازے کے جلسۂ عام میں کہا ؎ 
اے شمع تجھ پہ رات یہ بھاری ہے جس طرح 
ہم نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح 
جنیدِ بغداد نے اپنے ہم نفس شیخ حدّاد سے پوچھا: بلند ہمتی کیا ہے ؟ فرمایا: مخلوق کا تجھ پہ جو حق ہے ، وہ پورے کا پورا ادا کر دو اور اپنے حق کا مطالبہ نہ کرو۔ اپنے شاگردوں سے انہوںنے کہا: شیخ کے اکرام میں اٹھو ۔ ایسی بات انہوںنے کہی ہے کہ زمین اس کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی ۔ بلندیوں پہ حریف کا پرچم نپولین کا منہ چڑاتا تھا۔ اس کا سپاہی لپک کر گیا تو زخموں سے چور۔ ''تم بہت زخمی ہو‘‘ فاتح نے کہا ''میں مرچکا ہوں ‘‘ اس نے جواب دیا ''بس یہ عَلم حوالے کرنے تک زندہ ہوں‘‘ 
شجاعت؟ نواحِ مکّہ میں سرکارؐ کے صحابی جناب خبیبؓ کو قریش نے اچانک پکڑ ا۔ زنجیروں سے باندھا اور زخم پہ زخم لگائے ۔ ایک بولا : کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)تمہاری جگہ ہوتے ؟ نخلِ دار پہ کھڑے جاں بلب نے کہا: مجھے تو یہ بھی پسند نہیں کہ اس کے عوض انؐ کے پائوں میں کانٹا چُبھ جائے ۔ اہلِ روم سے اوّلین جنگ کے ہنگام، کسی نے ان کی حیران کن کثرت کی بات کی تو سپہ سالار خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ کہا: چپ رہ، میرے گھوڑے کے سم خراب نہ ہوتے تو میں یہ کہتا کہ وہ اس سے دوگنا لشکر لے آئیں ۔ قائد اعظم 65برس کے تھے ، آٹھ برس سے ٹی بی کے مریض ، جب انہوںنے چاقو سے حملہ آور ہونے والے جواں سال خاکسار قاتل کی کلائی پکڑ ی اور وہ چھڑا نہ سکا۔ 
یہ حواس باختہ لیڈر جو پکڑ کر جیلوں میں ڈال دئیے جاتے یا سٹریچر پر ڈال کر دار تک لے جائے جاتے ہیں۔ راہ چلتے کوئی مارا جائے تو اس سے ہمدردی کی جا سکتی ہے مگر شجاعت؟ مشرف کو ان کے وکلا روکتے رہے ۔ وہ خود بھی ذہنی دبائو کا مقابلہ نہ کر سکے ۔ جوانی میں سخت ورزش کرنے والا بڑھاپے میں سہولت پسند ہو جاتااور صحت تیزی سے گرتی ہے ۔ کمانڈو بوڑھا ہو چکا۔ تمباکو اور بادہ نوشی، اس پہ دولت کا انبار ۔ اب وہ رستم و سہراب نہیں بن سکتا۔ 
حکومت اس کا بوجھ اٹھا سکتی ہے اور نہ حامی اورحلیف۔ امریکی اخبار کو چھوڑیے، قرائن کہتے ہیں کہ خواہ عدالت سے سزا ہو جائے ، ایک دن وہ چلا جائے گا ۔ ایک دوسرے کے کارناموں سے وہ خوب واقف ہیں ۔ اب مکافاتِ عمل کا در کھلاتوچوپٹ کھل جائے گا۔ہرگز ہرگز وہ اس کے متحمل نہیں ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved