تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     10-01-2014

ٹرام کی واپسی

انور سلیم‘ قومی دارالحکومت کے ان کارکنوں میں شامل تھا جنہوں نے نصف صدی بعد پہلی سٹریٹ کار شہر کے شمال مشرقی حصے میں آہستگی سے ریل کی ایک پرانی پٹڑی پر رکھی ۔اس نے واشنگٹن کے تین میئروں کے ساتھ پبلک ٹرانسپورٹ کے اس منصوبے پر کا م کیا ہے ۔سال نو کے شروع میں ڈسٹرکٹ آف کولمبیا (ڈی سی)کی ٹرام سروس بحال ہو جائے گی ''گاڑی پر سرخ اور سفید رنگ نمایاں ہیں اور وہ ہالیڈیز کا تحفہ معلوم ہوتی ہے بالکل سانٹا کلاز کی طرح‘‘ انور نے کہا۔
اس کی پرورش اور تعلیم امریکہ میں ہوئی ہے ۔اس نے ٹینیسی ولیمز کے کھیل پر مبنی 1951ء کی فلمA Streetcar Named Desire تو دیکھی ہے اور اسے یہ بھی معلوم ہے کہ اس زمانے میں نیو آرلینز میں ٹرامیں دوڑا کرتی تھیں مگر اسے اپنے آبائی شہر کراچی کی محمد علی ٹرام وے یاد نہیں جو گھنٹیاں بجاتے بندر روڈ پرچلا کرتی تھی اور لوگوں کو شہر کے ایک گوشے سے دوسرے تک پہنچاتی تھی ۔ وہ اتنی سست رفتار تھی کہ مسافر اپنی مرضی سے اس پر سوار ہوتے اور اترتے تھے ۔ ٹرام ڈیزل سے چلتی تھی جو ان دنوں دوسرے ایندھن سے سستا تھا ۔ ان دنوں موٹر گاڑیاں پٹرول سے چلا کرتی تھیں جن کی بھاری اکثریت بتدریج قدرتی گیس پر چلی گئی جو پٹرول سے سستی ہے ۔
ٹیکنالوجی بدلتی ہے تو چیزیں بیکار ہو جاتی ہیں ۔واشنگٹن ڈی سی میں بھی ٹرام وے کی جگہ بس سروس نے لے لی تھی ۔جب میں شہر میں وارد ہوا تو ویٹ نام کی لڑائی کے خلاف زور دار مظاہرے جاری تھے مگر ان بسوں میں کسی ایک کو بھی آگ نہیں لگائی گئی تھی کیونکہ مظاہرین انہی بسوں میں بیٹھ کر پنسلوانیا اور کیپیٹل ہل کا رخ کرتے تھے اور انہیں معلوم تھا کہ اگر انہوں نے کسی بس کو نقصان پہنچایا تو ان کو سزا ملے گی ۔وہ''گنجے فرشتے‘‘ نہیں تھے جو مظاہروں کے دوران سر گنگا رام کے مجسمے کے گلے میں جوتوں کا ہار ڈالتے ہیں اور پولیس کے لاٹھی چارج سے زخمی ہو کر سر گنگا رام اسپتال جا پہنچتے ہیں ۔ میٹرو نے‘ جو میٹرو پولیٹن ٹرانزٹ سروس کا مخفف ہے‘ سن اسّی کے عشرے میں ایک سب وے ( مقامی ریل) شروع کی جس کی توسیع اب تک جاری ہے اور چند سال پہلے اس نے '' بائیسکل ایکسچینج‘‘ متعارف کر ایا جس سے کئی شہری اور سیاح استفادہ کر رہے ہیں میٹرو نے ورجینیا ریلوے ایکسپریس VRE اور میری لینڈ کی گاڑیوں کو بھی مقامی اور بین الریاستی ریلوے سے منسلک کر دیا ہے ۔ رجسٹریشن اور نمبر پلیٹ کے بغیر کسی سرکاری یا پرائیویٹ گاڑی کے سڑک پر آنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ لاہور میں اومنی بس سروس اور ماڈل ٹاؤن بس سروس کے کھنڈرات پر ایک جدید بس سروس کا آغاز بھی اسی طرح قابل قدر ہے ۔ اب لاہور اور کراچی میں رنگ روڈ کی تکمیل بھی کی جائے گی جو ملک کے سب سے بڑے شہروں کے لوگوں کے لئے ایک جاں فزا مژدہ ہو گی ۔موٹر وے کی توسیع بھی جو امریکی سڑکوں کی ہم پلہ ہے زیر غور ہے ۔
واشنگٹن کے کئی حصے اب تک مقامی ریل سے محروم ہیں ۔اس سلسلے میں جارج ٹاؤن کی مثال دی جا سکتی ہے جو شہر کے خوشحال علاقوں میں سے ایک ہے‘ملک کا ثقافتی صدر مقام ہے ‘ ہنری کسنجر اور کئی دوسری شخصیتوں کا مسکن رہا ہے اندرا گاندھی اور یوسف رضا گیلانی اس کے فور سیزن ہوٹل میں ٹھہرتے رہے ہیں ۔جارج ٹاؤن میں مقامی ریل کی پٹڑی اب تک دیکھی جا سکتی ہے مگر ریل نہیں نئی ٹرام سروس غریب بستیوں کو امیر محلوں سے مربوط کرے گی اور بتدریج 37 میل طویل ہو جائے گی ۔سر دست بلدیہ (سٹی گورنمنٹ) اپنے سرمائے سے کام چلا رہی ہے اور اس نے 300 ملین ڈالر اس منصوبے کے لئے مختص کئے ہیں ۔ وفاقی فنڈ مل گئے تو وہ ان کو بھی استعمال کر سکے گی مگر اس کے لئے آلودگی کے وفاقی امتحان پاس کرنے ہوں گے ۔
رات ہونے پر بجلی کی روشنی میں جب چیکو سلاویکیہ کی بنی ہوئی 66 فٹ لمبی کار کو ایک فلیٹ بیڈ بڑے ٹرک سے پٹڑی پر سرکایا گیا تو کچھ شہریوں نے اسے گھو ر کر دیکھا ۔یہ تو پرانی‘ فرسودہ اور از کار رفتہ ٹیکنالوجی کو واپس لا رہے ہیں مگر انور سلیم اور دوسرے عہدیدار کہتے ہیں کہ شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی اور ٹرانسپورٹ سسٹم کی بھیڑ بھاڑ میں یہی ممکن ہے ۔نئی سڑکیں نہیں بنائی جا سکتیں پرانی پٹڑیوں پر انحصار کرنا پڑے گا ۔بلا شبہ‘ ٹرام بھی ریل سروس کی طرح بجلی سے چلے گی ۔بسیں پہلے ہی قدرتی گیس سے چل رہی ہیں اور امریکیوں کو احساس ہے کہ انہیں ماحول کی آلودگی کو کم کرنا ہے ۔
ایچ سٹریٹ سے متصل ایف سٹریٹ ہے جسے واشنگٹن کی انار کلی کہا جا سکتا ہے ۔اس بازار میں عام اشیا کی چھوٹی بڑی دکانیں لاہور کی یاد دلاتی ہیں ۔ ریسٹورنٹ‘جاسوسی عجائب گھر‘ بین الاقوامی گروسری چین اور ایک سپر سٹور مستزاد ہیں۔ یہ دارالحکومت ہے اور اس کے سرکاری دفتروں میں کام کرنے والے 75 فیصد لوگ‘ میری لینڈ اور ورجینیا کے مضافات میں رہتے ہیں ۔ وہ دفتر بند ہونے پر شہر سے نکل جاتے ہیں اور افریقی امریکی جو شہری حقوق کی تلاش میں واشنگٹن آئے تھے راج کرتے ہیں ۔پچھلے پچاس سال سے شہر کا میئر بھی سیاہ فام چلا آ رہا ہے ۔شہر کی حدود معین ہیں ۔ اس کی توسیع ممکن نہیں تجدید البتہ ہو رہی ہے اور اس کام میں شہر کا شمال مغربی حصہ پیش پیش ہے ۔جوں جوں یہ عمل ہوتا ہے مڈل کلاس کے گورے واپس آ رہے ہیں ۔
واشنگٹن ترقی پذیر ہے۔ نصف صدی پہلے ٹریفک برائے نام تھی ۔ پارکنگ مفت تھی اور موٹر والا جہاں چاہے گاڑی کھڑی کر سکتا تھا ۔اب میٹر کا ایک سپر نظام ہے ۔شہر کے دفتری اور کاروباری علاقوں میں سڑک پر پارکنگ فیس بھاری ہے جو پیشگی کریڈٹ کارڈ کے ذریعے میٹر میں ادا کی جاتی ہے ۔ گلیوں میں مسقف پارکنگ لاٹ موجود ہیں جو 25 ڈالر سے زیادہ فی گھنٹہ چارج کرتے ہیں ۔ملک کے مختلف حصوں سے سیاحوں کی آمد بھی بڑھ گئی ہے جو قومی یاد گاروں اور سمتھ سونین کے عجائب گھروں کا مشاہدہ مفت کرتے ہیں۔ تعطیلات میں وائٹ ہاؤس اور کانگرس کے باہر بچوں کی لمبی لمبی قطاریں نظر آتی ہیں ۔
ٹرام سروس کی بحالی‘ بڑھتی ہوئی آلودگی اور کرئہ ارض کے بتدریج گرم ہونے کے پیش نظر ترقی معکوس نہیں ۔ وہ سیاحوں کے لئے واقعی نعمت ثابت ہو گی۔ وہ سیاحوں کو شہر کی سیر کرانے والی گاڑیوں میں ایک دلچسپ اضافہ ہو گی ۔بلدیہ ‘ کرائے کے نظام اور ادائیگی کے طریق کار کو پلاسٹک کے Smartcard سے نتھی کرنے کے بارے میں سوچ بچار کر رہی ہے ۔ ابھی تو انہیں ٹرام کی حفاظتی آزمائش در پیش ہے جو سال کے شروع تک مکمل ہو نے کو ہے ۔
امریکہ میں ایک ہی شہر میں ٹرام سروس کام کررہی ہے جو مغربی ساحل کا شہر سان فرانسسکو ہے چونکہ کرئہ ارض کے بتدریج گرم ہونے اور ساحلی شہروں کے جن میں کراچی اور ممبئی بھی شامل کئے جا سکتے ہیں ڈوبنے پر تشویش عام ہو رہی ہے اس لئے کیبل کار کا تصور دقیا نوسی نہیں رہا ۔ مقامی ٹرانسپورٹ کے اس نظام کو کسی ایندھن کی ضرورت نہیں ۔یہ نظام سست رفتار ضرور ہے مگر آلودگی کے اس دور میں جب سانس لینا دو بھر ہو رہا ہے اور پینے کا پانی کمیاب ہونے کو ہے نقل و حمل کے اس وسیلے کو قدیم نہیں کہا جا سکتا ۔کار کو ایک تار کھینچتا ہے جو بڑے بڑے رولرز پر لپٹتا اور کھلتا چلا جاتا ہے ۔ایک ایسے وقت جب انسان نے علم کیمیا سے منہ موڑ کر مبا دیات کا رخ کرنا شروع کیا ہے وہ شکار چھوڑ کر سبزی ترکاری کی عادت بحال کر رہا ہے‘ قدرتی زرعی پیدوار (آرگینک) پر زیادہ انحصار کرنے لگا ہے ٹرام سروس کی واپسی دور از کار نہیں ۔دوسرے شہروں اور باقی دنیا کو بھی اس کا تتبع کرنا ہو گا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved