تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     10-01-2014

کمزور قومی یادداشت

جنرل پرویز مشرف کے خلاف غدّاری کا مقدمہ چلائے جانے پر میڈیا پر دعوے کئے جا رہے ہیں کہ فوج اپنے سابق سپہ سالار کے خلاف مقدمہ پر خوش نہیں۔ بعض بیرونی دوست شخصیات کی غیر متوقع آمد و رفت سے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ سابق آرمی چیف کی جان بخشی کرانے کے لیے کوششیں ہو رہی ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ ایسی ہی کوششوں کے نتیجے میں 1999ء کے مارشل لا کے بعد شریف برادران کی جلاوطنی ممکن ہو پائی تھی ۔ ان سب حقائق کا حاصل یہ ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح کے پہلو میں اب ایک اور قبر کھودنا ہوگی جہاں آئینِ پاکستان کو پورے عزت و احترام کے ساتھ دفن کیا جا سکے ۔ 
ہماری قومی یادداشت کمزور بلکہ الزائمر (بڑھاپے میں حافظہ کی بیماری) کا شکار ہے اور اب تک ایسی کوئی دوا ایجاد نہیں ہو سکی جو دماغی خلیات کو صحت مند کر سکے ۔ ایسے میں مشرف حکومت کی چند کامیابیوں کے علاوہ باقی سب کچھ دھندلا گیا ہے ۔افغانستان کی جنگ میں امریکہ کی غیر مشروط حمایت، اکبر بگٹی ، بے نظیر قتل اور لال مسجد جیسے واقعات کو ایک طرف رکھ کر کچھ "چھوٹے "معاملات پہ نظر ڈالیے ۔ قاف لیگ کی 
حکومت میں اخبارات بلا ناغہ بجلی سے محروم علاقوں کو اس نعمت سے مالا مال کرنے کے فخریہ حکومتی اشتہارات سے بھرے ہوتے تھے ۔ بجلی کے صارفین بڑھ رہے تھے لیکن پیداوارمیں اضافے کی کوئی تجویز وہم وگمان کی وادیوں سے بھی باہر تھی ۔گیس کے ملکی ذخائر سکڑ رہے تھے لیکن ٹرانسپورٹ کا سیکٹر پورے جوش و خروش بلکہ جنون کے ساتھ سی این جی پر منتقل ہو رہا تھا۔ملک امریکہ کو ٹھیکے پر دے دیا گیا لیکن بدلے میں ایران سے گیس حاصل کرنے کی اجازت بھی نہ مل سکی۔ اسی دور میں قبائلی علاقہ جات پر دہشت گردوںکی گرفت مضبوط ہوئی ۔ صوبہ سرحد میں عالمِ اسلام کی فکر میں گھلنے والے وہ علماء حضرات جو کبھی جنرل کی بی ٹیم کہلاتے تھے ، آج طالبان نظریات کے حامی ہی نہیں ، اعلانیہ اور فخریہ ان کے ساتھ روابط رکھتے ہیں۔ملّا ملٹری الائنس اس قدر واضح تھا کہ صدر کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اختیار دینے والی سترھویں ترمیم میں یہ حضرات مشرف کے حق میں ووٹ ڈالتے پائے گئے ۔ اس کے بعد بھی کبھی انہیں شرمندہ نہ دیکھا گیا۔ 
حشر کے دن وہ گنہگار نہ بخشا جائے 
جس نے دیکھا تری آنکھوں کا پشیماں ہونا
یہ بات درست ہے کہ زرداری حکومت کی کارکردگی پرویز مشرف سے کہیں بدتر تھی ۔ اسی لیے وہ 11مئی کے الیکشن میں دھتکار دی گئی ۔نون لیگ بھی اگر ناکام رہی تو عمران خان موجود 
ہیں۔ وہ نہیں تو بھارت کی عام آدمی پارٹی جیسی کوئی نئی قوت۔ دوسری طرف جرنیل صاحبان جب اقتدار پر براجمان ہوتے ہیں تو وہ زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد کی تصویر ہوتے ہیں ۔خون کے دریا بہائے بغیر، کسی بے نظیر کے قتل کے بغیر ‘ انتقالِ اقتدارناممکن ہوتا ہے ۔ دوسری صورت فوجی حکمران کی اپنی موت ہوتی ہے ۔
اپنے سابق سپہ سالار کی ''تذلیل ‘‘ پر فوج کا رد عمل (اگر واقعی کوئی ہے تو ) بنیادی انسانی حق ہے ۔ کسے نہیں یاد ہو گا کہ جنرل مشرف کے آخری ایّام میں حکم جاری ہوا تھا کہ وردی زیبِ تن کیے بازاروں کا رخ نہ کیا جائے کہ خدانخواستہ جنرل صاحب کے کارناموںکے سبب جنم لینے والے عوامی غیظ و غضب کا شکار ہوں ۔ سرحدوں پہ جانیں نذر کرنے والے او ر سوات و وزیرستان میں دہشت گردوں کی پٹائی کرنے والے ہمارے سر آنکھوں پر ۔جنرل ثناء اللہ نیازی ہمارے ہیرو‘ لیکن ہوسِ اقتدار کے مارے غاصب جنرل کا ساتھ دینے والے کسی طرح بھی قابل احترام نہیں ہو سکتے۔ 
یہ سب لکھ ڈالنے کے بعد اب مجھے اپنی حماقت کا احساس ہو رہا ہے ۔ زمینی حقائق نظر انداز کرکے بہادری کے جوہر دکھانے کی خواہش دیوانے ہی کیا کرتے ہیں ۔تین ملین ٹیکس چور وں کی گردن ناپنافی الحال ممکن نہیں کہ ووٹر برادری کے برہم ہونے کا اندیشہ ہے؛ چنانچہ نہ صرف عالمی امداد چاہیے بلکہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات بھی خوش اسلوبی سے چلنے چاہئیں ۔ ایوانِ اقتدار سے جیل تک کا سفر بعض اوقات چند گھنٹوں پہ محیط ہوتاہے ۔ ایسے میں بین الاقوامی حکومتوں سے ذاتی خاندانی تعلقات ہی واحد سرمایہ ء حیات اور بقا کی ضمانت ہوتے ہیں ۔ یہی روابط کاروبار کی دن دگنی رات چوگنی ترقی کا وسیلہ ہوتے ہیں ۔ گو کہ کارکردگی کے بل پر اقتدارسے محرومی سے بچا جا سکتاہے مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ۔ پھر ایک ایسے شخص کو عدالتوں میں گھسیٹنا درست نہیں ہو گا، جو 9بیماریوں کا شکار ہے اور جس کے اب گنتی کے چند اعضا ہی تندرست ہیں ۔ایسی کمزور صحت کے ساتھ اپنی قوم کو مشکلات سے نکالنے کی تگ دو اس سے قبل صرف قائد اعظم کے حصے میں آئی تھی۔ایسے '' وفاشعاروں ‘‘ کو دھتکارنے والے شہریوں کو احسان فراموش ہی کہا جا سکتا ہے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved