تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     11-01-2014

اسے فکس کریں!

دوبئی میں پاکستان اور سری لنکا کے درمیان کھیلے جانے والے دوسرے ٹیسٹ میچ کی پہلی اننگز میں پاکستان کے 165 رنز پر پوری ٹیم کے آئوٹ ہو کر پویلین لوٹ جانے سے گزشتہ عشروںکی بہت سی تکلیف دہ یادیں تازہ ہو گئیں۔ پاکستانی ٹیم کے حامی بہت پُرجوش ہیں اور انہیں ہمیشہ یہ توقع ہوتی ہے کہ اُن کی ٹیم ضرور جیتے گی؛ تاہم تجربہ اس امید کی نفی کرتا ہے۔ ہمارے لڑکے حریف ٹیموں کو ہرا کر میدان مار لیتے ہیں تو یہ پُرجوش فتح ہمیں سحرزدہ کر دیتی ہے؛ تاہم ایڈ ہاکنز کی کتاب ''Bookie, Gambler, Fixer, Spy‘‘ پڑھنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ میںکبھی کوئی کرکٹ میچ نہیں دیکھ سکوںگا کیونکہ مجھے ہر آن شبہ ہو گا کہ میدان میں ہم جو بھی کارروائی دیکھ رہے ہیں وہ 'طے شدہ‘ ہے۔ یہ کتاب کرکٹ اور دوسرے کھیلوں کی زیرِ زمین دنیا میں ہونے والی تاریک سرگرمیوں پر روشنی ڈالتی ہے۔ 
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے بارے میں شکوک و شبہات جنم لیتے رہتے ہیں اور ہم ان کی تردید کرتے رہتے ہیں لیکن 2010ء میں لندن ٹیسٹ میں ''نیوز آف دی ورلڈ‘‘ کے کیمروں نے تین پاکستانی کھلاڑیوں کے سپاٹ فکسنگ میں ملوث ہونے کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔ یہ ہماری کرکٹ پر لگنے والا بدنما داغ تھا۔ اس سے ہماری ساکھ بہت مجروح ہوئی۔ کیا آپ کو ورلڈ کپ 2011 ء کا بھارت کے خلاف موہالی میں کھیلا جانے والا سیمی فائنل یاد ہے؟ ہاکنز نے اس میچ پر کچھ بات کی ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اس نے میچ کے دوران ٹوئٹر پر ایک بھارتی بکی پارتھیو (Parthiv) کا پیغام وصول کیا: ''انڈیا پہلے بلے بازی کرتے ہوئے 260 سے زائد رنز بنائے گا اور پہلے پندرہ اوورز میں تین وکٹیںگریں گی۔ اس سکور کا تعاقب کرتے ہوئے پاکستان تیزی سے بلے بازی کرے گا اور بہت جلد سو رنز سکور بورڈ پر لگ جائیں گے، لیکن پھر دو وکٹیں جلد گر جائیںگی، 150 کے سکور پر پانچ کھلاڑی آئوٹ ہو جائیںگے جبکہ ٹیم بیس رنز سے میچ ہار جائے گی‘‘۔ جب میچ ہوا تو انڈیا نے، جیسے ہاکنز نے کہا تھا‘ 260 رنز بنائے۔ اس میں ٹنڈولکر نے85 رنز سکور کئے جبکہ ان کے چار آسان کیچ گرائے گئے۔ گرائے جانے والے کل پانچ کیچوں میں سے کچھ کیچ کامران اکمل نے گرائے تھے۔ ہاکنز کہتا ہے کہ جب میں میچ دیکھ رہا تھا تو مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا کہ پاکستان ''لکھے ہوئے سکرپٹ‘‘ کے مطابق کھیل رہا ہے اور کوئی ''غلطی‘‘ کیے بغیر کم و بیش اتنے ہی رنز سے ہار گیا۔ عمر اکمل نے آئوٹ ہونے کا نیا طریقہ دریافت کیا، اس کی وکٹ 145 کے سکور پر گری۔ یونس خان نے بتیس گیندیں کھیل کر تیرہ رنز بنائے اور جب وہ اور مصباح کریز پر تھے تو اُنہوں نے 74 گیندوں پر تیس رنز سکور کیے۔ مصباح نے بیالیس گیندیں کھیل کر سترہ رنز بنائے۔ بھارتی کرکٹ مبصر روی شاستری کہہ رہے تھے کہ پاکستان کی'حکمت عملی‘ سمجھ سے باہر ہے۔ قصہ مختصر، انڈیا 29 رنز سے جیت گیا۔ 
ہاکنز ایک اور میچ کی تفصیل بیان کرتا ہے جس کی عجیب تفصیل ذہن کو چکرا دیتی ہے۔ یہ انگلینڈ اور سری لنکا کے درمیان کارڈیف میں کھیلا گیا۔ سری لنکا نے 400 رنز بنائے جبکہ میزبان ٹیم انگلینڈ کا سکور 491-5 تھا جب بارش کی وجہ سے کھیل میں تعطل پیدا ہو گیا۔ کھیل کے آخری دن سہ پہر تک کھیل رکا رہا؛ چنانچہ سو فیصد امکان تھا کہ کھیل ہار جیت کے فیصلے کے بغیر ختم ہو جائے گا۔ ڈرا اور جیت کا نرخ 1-99 تھا۔ اس پر ہزاروں لوگوں نے شرط لگائی ہوئی تھی۔ اس کے بعد میدان میں حیرت انگیز واقعات ہونا شروع ہو گئے اور سری لنکا کی پوری ٹیم 82 رنز پر آئوٹ ہو گئی اور انگلینڈ ایک اننگز اور چودہ رنز سے جیت گیا۔ انگلینڈ کے کپتان انڈریوسٹراس نے اسے کھیلا جانے والا ''انتہائی حیرت انگیز میچ‘‘ قرار دیا۔ 
ہاکنز لکھتا ہے کہ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ اُس کا کہنا ہے کہ میچ فکسنگ کے شواہد اٹھارہویں صدی میں بھی ملتے ہیں جب کرکٹ صرف اشراف کا کھیل تھا۔ یہ لوگ بھاری رقم کمانے کے لیے میچ ہار جاتے تھے۔ مصنف کے مطابق بہت سے نامی گرامی کھلاڑی سپاٹ اور میچ فکسنگ میں ملوث رہے ہیں۔ انڈیا کے بہت سے بک میکرز کا انٹرویو کرنے کے بعد ہاکنز لکھتا ہے کہ وہ سب خود کو 'کاروباری‘ افراد قرار دیتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی غلط یا غیر قانونی حرکت میں ملوث نہیں؛ تاہم اُن کو جواری لکھا جاتا ہے اور بھارت میں جوا کھیلنا غیر قانونی ہے۔ بہت سے ممالک میں ممکن ہے کہ بک میکرز کو قانون کے دائرے میں لایا جا سکے لیکن اس کے لیے اُنہیں اپنی بک سے حکام کو آگاہ کرنا ہو گا۔ بھارت اور پاکستان میں اس سرگرمی کو‘ جس میں بلین ڈالرزکا کھیل ہوتا ہے، قانونی تحفظ حاصل ہونے کا کوئی امکان نہیں، اس لیے بک میکنگ میں انڈرورلڈ کے افراد کے لیے زیادہ کشش ہے۔ یہ کتاب پڑھنے کے بعد میں نے عہد کیا ہے کہ میںکبھی کسی میچ پر شرط نہیں لگائوں گا کیونکہ یہاںکچھ بھی اصلی نہیں ہے۔ میں تجویز کرتا ہوں کہ ہر کرکٹ مبصر اور کرکٹ کا شوق رکھنے والا اس کتاب کو پڑھے اور سمجھے کہ میدان میںکیا ہوتا رہا ہے اور ہم کیوں ہر بال کے ساتھ اپنا خون جلاتے رہے ہیں؟
آخر میں، میں عظیم بلے باز حنیف محمدکے لیے‘ جنہوں نے پاکستان کرکٹ کو قدموں پر کھڑا کیا، دعاگو ہوں کیونکہ وہ شدید بیمار ہیں اور ان کے خاندان کے پاس ان کے علاج کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ میں اس کالم کے توسط سے پاکستان کرکٹ بورڈ سے استدعا کرتا ہوں کہ ان کے علاج کے لیے مالی مدد دی جائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved