اقتدارکے کھیل میں انسانی خون داخل ہو جائے ‘ تو اسے خشک یا فراموش کر دینا مشکل ہو جاتا ہے۔کچھ پتہ نہیں رہتا کہ حالات معمول پر کب آئیں گے؟ اور امن کب نصیب ہو گا؟ بدقسمتی یہ ہے کہ موجودہ پاکستان میں‘ نہ تو جمہوریت کا وجود تھا اور نہ سیاست کا۔ جتنے علاقے آج پاکستان پر مشتمل ہیں‘ وہ ہندوستان کے پچھڑے ہوئے علاقوں میں شمار ہوتے تھے۔ صرف پنجاب کے چند اضلاع کو چھوڑ کر باقی کہیں بھی نہ تو حکومتی امور میں عوام کا عمل دخل تھا اور نہ جمہوری روایات قائم ہو سکی تھیں۔ صنعتی اعتبار سے بھی یہ انتہائی پسماندہ علاقہ تھا۔ قیام پاکستان کے وقت‘ موجودہ پاکستان میں جتنی فیکٹریاں تھیں‘ ان کی گنتی انگلیاں پوری ہونے سے پہلے ختم ہو جاتی تھی۔ جو نام نہاد اسمبلیاں قائم کی جاتی تھیں‘ ان میں عموماً انگریزوں کے پسندیدہ لوگ آیا کرتے تھے‘ جن کی اکثریت وڈیروں‘ جاگیرداروں اور قبائلی سرداروں پر مشتمل ہوتی تھی۔ ایک قبائلی‘ نیم قبائلی اور جاگیردارانہ معاشرے میں‘ اقتدار کا کھیل ضابطوں اور اصولوں کے تحت نہیں ہوتا۔ محض روایات ہوتی ہیں‘ جو کسی قبیلے یا جاگیرداروں کے گٹھ جوڑ سے پروان چڑھتی ہیں۔ ان پر عمل ہوتا رہے‘ تو اقتدار منتقل ہونے کا سلسلہ پرامن رہتا ہے اور اختلاف پیدا ہو جائے‘ تو فیصلے تلوار سے ہوتے ہیں۔ پاکستان روز اول ہی سے‘ ہزار میل کی دوری پر واقع‘ دو جغرافیائی اکائیوں پر مشتمل تھا‘ جن میں زمینی فاصلہ ہی نہیں‘ تہذیب ‘طرززندگی ‘ زبان اور بودوباش‘ ہر چیز میں ایک ہزار کے بجائے دو ہزار میل کا فاصلہ تھا۔ مختلف نوعیت کی دوریوں کو مٹا کر ایک قوم اور ایک ملک کو معرض وجود میں لاناآسان نہیں تھا۔ جغرافیے کی لکیر تو ایک دن میں لگائی جا سکتی ہے لیکن ملک و قوم کو نئی بنیادوں پر استوار کر کے ‘ استحکام دینا آسان نہیں ہوتا۔
بھارت میں جمہوری روایات کی جڑیں نموپذیر تھیں۔ پاکستان میںبیج تک موجود نہیں تھا۔ اسی بنا پر روزاول ہی سے ہمیں ہر چیز کو نئی ضروریات کے تحت تخلیق کرنا تھا۔ جغرافیائی طور پر بٹے ہوئے علاقوں کو ایک ملک میں بدلنا تھا۔ نئے اور انوکھے اصولوں پر ایک قوم تشکیل دینا تھی اور ہزارمیل دور واقع‘ دو جغرافیائی اکائیوں کو ایک انتظامی ڈھانچہ دینا تھا اور پھر ریاستی نظم و نسق چلانے کے لئے ایک نظام وضع کرنا تھا‘ جس میں تمام لسانی‘ نسلی اور تہذیبی شناختیں رکھنے والوں کو‘ ایک قوم میں ڈھالنا تھا۔ سچی بات ہے ‘ اتنے بڑے کام کرنے کے لئے‘ جس معیار کی قیادت درکار ہوتی ہے‘ وہ ہمارے پاس نہیں تھی۔ جب قیادت کی بات کی جاتی ہے‘ تو اس سے مراد ایک فرد نہیں‘ بہترین صلاحیتیں رکھنے والے چنیدہ انسانوں کی ایک بڑی جماعت کی ضرورت ہوتی ہے‘ جو منتخب اداروں کے ذریعے عام لوگوں کو قیادت فراہم کرتی ہے اور عام لوگوں کو ایک نظام کے تحت اپنی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لئے‘ ایک لائحہ عمل دستیاب ہوتا ہے۔ دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم یہ سارے کام ایک ساتھ شروع نہیں کر سکے۔ ہمارے لئے پہلی آزمائش اجتماعی قیادت کی تخلیق تھی۔ مگر اس امتحان پر پورا اترنے والے ذہین اور تجربے کار افراد نہ ہونے کے برابر تھے۔ قائد اعظمؒ اور ان کے چند ساتھیوں کے سوا‘ قیادت کی بھاری ذمہ داریاں اٹھانے والا کوئی نہیں تھا۔ مشرقی پاکستان میں کچھ کہنہ مشق اور حکومتی امور چلانے کا عملی تجربہ رکھنے والے‘ چند سیاستدان موجود تھے۔ لیکن جس بااختیار بیوروکریسی نے پاکستان کا نظم و نسق سنبھالا‘ اس کی اکثریت مغربی پاکستانیوں پر مشتمل تھی۔ طاقت کے سارے مراکز پر ان کا قبضہ تھا۔ سول انتظامیہ کے ڈی سی اور ایس پی سے لے کر‘ مسلح افواج تک‘ مشرقی پاکستانیوں کا حصہ کہیں بھی قابل ذکر نہ تھا۔ بدقسمتی یہ تھی کہ تحریک پاکستان میں مشرقی پاکستانیوں نے یکسوئی اور اتفاق رائے سے حصہ لیا جبکہ مغربی پاکستان میں مسلم لیگ کے سوا‘ مسلمانوں کی دوسری بیشتر جماعتیں اور گروہ‘ قیام پاکستان کے خلاف تھے۔ بلوچستان میں مسلم لیگ برائے نام تھی۔ یہی حال اس وقت کے صوبہ سرحد کا تھا۔ سندھ اور پنجاب میں وڈیروں اور جاگیرداروں کے باہمی گٹھ جوڑ موجود تھے۔ پنجاب میں اس گٹھ جوڑ کا نام یونینسٹ پارٹی تھا اور سندھ میں مسلم لیگ۔ ایک منظم ‘ باضابطہ اور عوام میں اپنی جڑیں اور اثرورسوخ رکھنے والی سیاسی جماعت کی حیثیت سے‘ مسلم لیگ کہیں نظر نہیں آتی تھی۔ قائد اعظمؒ کو خدا نے مہلت نہیں دی‘ ورنہ وہ مسلم لیگ کی تحلیل کا اعلان کر کے‘ پاکستانی سیاست میں فصل بونا چاہتے تھے‘ جس میں نئی ضرورتوں اور نئے تقاضوں کے تحت ‘ سیاسی پارٹیوں کی نشوونما ہوتی۔ قدرت نے قائد اعظمؒ کو مہلت نہ دی۔ لیاقت علی خان اکیلے پڑ گئے اور مغربی پاکستان کے طاقتور حکمران طبقوں نے ‘مسلم لیگ کو ایک سیاسی اور عوامی پارٹی میں بدلنے کی بجائے‘ اپنا اقتدار قائم اور مضبوط کرنے کی سازشیں شروع کر دیں۔ ان کا پہلا ہدف یہ تھا کہ سیاست کو عوام سے دور رکھتے ہوئے‘ اپنی روایات کے مطابق علاقائی اور جاگیردارانہ قوتوں پر مشتمل حکمرانی کا ڈھانچہ تشکیل دیں اور دوسرے یہ کہ مشرقی پاکستان کی اکثریت کو اس کے جائز حقوق سے محروم رکھا جائے۔ ابتدائی دور میں ہی پاکستان کی سیاست کو جاگیردارانہ سازشوں کے ذریعے انسانی خون کی لت لگا دی گئی۔ پہلا خون شہیدملت لیاقت علی خان کا تھا۔ اس قتل کی سازش کرنے والے آج تک بے نقاب نہیں ہو سکے۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ جن طبقوں نے لیاقت علی خان کے قتل کی سازش رچائی تھی‘ آج تک وہی حکمران ہیں۔ جب تک پاکستان کا اقتدار ان سازشیوں کے جانشینوں کے ہاتھ سے نہیں نکلے گا‘ لیاقت علی خان کے قاتلوں کا سراغ نہیں لگے گا۔
لیاقت علی خان کے بعد مغربی پاکستان کے ظالم حکمران طبقوں کو مشرقی پاکستانیوں کی اکثریت سے اپنے اقتدار کو محفوظ رکھنا تھا۔ اگر قائد اعظمؒ کے بتائے ہوئے اصولوں کے تحت جمہوری نظام اختیار کیا جاتا‘ تو جلد یا بدیر مشرقی پاکستانیوں کی اکثریت‘ مغربی پاکستان کے محکوم طبقوں کو ساتھ ملا کر اقتدار میں آ سکتی تھی۔ جس کا پہلا نتیجہ یہ ہوتا کہ جاگیردارانہ نظام ختم کر دیا جاتا۔ یاد رہے کہ مشرقی پاکستان میں پہلے ہی صوبائی انتخابات جیت کر آنے والے سیاسی اتحاد ‘ یعنی جگتو فرنٹ نے دوتہائی سے زیادہ اکثریت حاصل کر لی تھی۔ سب کے مشترکہ منشور میں جاگیرداری ختم کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ صوبائی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں جاگیرداری لکے خاتمے کا قانون نافذ ہونے والا تھا اور اگلے انتخابات میں پارلیمنٹ کے اندر بھی مشرقی پاکستانیوں کی اکثریت ہو جانا تھا۔ چنانچہ مشرقی پاکستان کی اسمبلی توڑ کے گورنرراج نافذ کر دیا گیا اور اس وقت تک انتخابات نہیں ہوئے‘ جب تک مشرقی پاکستانیوں کی اکثریت کو کم کر کے‘ برابری کی سطح پر نہیں لایا گیا۔ طریقہ یہ تھا کہ مشرقی پاکستانیوں کو مجبور کر کے‘ مغربی پاکستان کو ایک یونٹ کی حالت میں قبول کرایا گیا اور پارلیمنٹ میں دونوں کی حیثیت مساوی کر دی گئی۔ مشرقی پاکستانیوں کو مزید بے اثر رکھنے کے لئے ایسا آئین بنانے کی کوشش کی گئی‘ جس میں غیرجمہوری طریقوں سے‘ قومی فیصلہ سازی میں انہیں غیرموثر کرنے کے مستقل انتظامات اور تدبیریں کر لی جائیں۔ اس مقصد کے لئے اسلام کی آڑ لی گئی تاکہ جب بھی ضرورت پڑے مذہب کے نام پر مشرقی پاکستانیوں کو دبا لیا جائے۔ وہ پاکستان کو مذہبی ریاست بنانے کے حق میں نہیں تھے۔ لیکن مغربی پاکستان کے حکمران ٹولے نے قرارداد مقاصد کے نام پر چند صفحات آئین میں شامل کرا دیئے‘ جن کے بارے میں کہا گیا کہ یہ آئین کا حصہ نہیں‘ محض ایک دیباچہ ہے۔ یحییٰ خان کے دور میں نظریہ پاکستان ایجاد کیا گیا۔ اس کی بنیاد اسلام کو بنا لیا گیا اور اسلام کے نام پر مشرقی پاکستان میں خونریزی شروع کر دی گئی۔ مشرقی پاکستان سے چھٹکارا پانے کے بعد‘ مغربی پاکستان کے مضبوط حکمران طبقوں نے 1973ء کے آئین میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بنیاد رکھ دی اور پھر بھٹو کو پھانسی لگا کرجنرل ضیاالحق کی قیادت میں وہ ساری سیاسی اور مذہبی قوتیںمتحد ہو گئیں‘ جو تحریک پاکستان کے خلاف تھیں۔ یونینسٹ‘ مسلم لیگ کے خلاف الیکشن لڑ کے پنجاب اسمبلی میں آئے تھے اور جب پاکستان ناگزیر ہو گیا‘ تو راتوں رات مسلم لیگ میں چلے گئے۔ باقی تین صوبوں کی مسلم لیگیں ایوان اقتدار کے اندر ہی بنیں۔ یہاں تک کے سفر میں پاکستانی عوام کو انسانی اور جمہوری حقوق سے محروم رکھنے کی خاطر‘ بے حساب انسانی خون بہایا جا چکا ہے۔ جس کی ابتداء شہید ملت لیاقت علی خان کے خون سے ہوئی اور مشرقی پاکستان میں آخری بار حقیقی پاکستانیوں نے ایک دوسرے کا خون بہایا اور حکمران طبقے محفوظ و مامون رہے۔(جاری)