احسان شناسی ایک عظیم وصف ہے اور جس شخص میں یہ وصف موجود ہو وہ بلا شبہ بڑا انسان ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ رحمن کی آیت نمبر 60میں اپنے بندوں کو سمجھایا ہے کہ احسان کا بدلہ صرف احسان ہی ہو سکتا ہے ۔ بحیثیت مسلمان یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے محسنین کی قدر کریں اور جس حدتک ممکن ہو ان کے احسان کا بدلہ چکانے کی کوشش کریں ۔ناشکرا انسان اللہ تعالیٰ کے عذاب کا مستحق ٹھہرتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے سورہ ابراہیم کی آیت نمبر 7میں ارشاد فرمایا:'' اگر تم نے ناشکری کی تو میراعذاب بہت شدیدہے ‘‘۔
ہمارے قرب و جوار میں جتنے محسنین پائے جاتے ہیں ان میں سے کسی کا مقام محسنِ انسانیتﷺ جیسا نہیں۔ گو والدین کے احسانات بہت زیادہ ہیں لیکن ان کا موازنہ محسنِ انسانیتﷺکے احسانات کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا ۔والدین نے ہمارے لباس،خوراک اور تعلیم کا بندوبست کیا تو محسنِ انسانیتﷺ نے پوری زندگی گزارنے کا نظام مرتب فرمایا۔ آپؐ نے ہمیں اندھیرے اجالے،،حلال وحرام کا فرق سمجھا دیا،شرک اور توحید کا مفہوم بتلا دیا،مقصد زندگی سے آگاہ فرمایا دیا اور ہماری کامیابی کی صحیح سمت ہمارے لیے متعین فرما دی ۔آپ کے انسانیت اور بالخصوص اپنی اُمت پر ان گنت احسانات ہیں۔ ہر وفا دار اُمتی کی خواہش اور جستجو ہونی چاہیے کہ وہ نبی کریمﷺ کے احسانات کو مدنظر رکھتے ہو ئے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی کوشش کرے۔گو کہ نبی کریمﷺ کے احسانات کا بدلہ کسی صورت میں ادا نہیں کیا جاسکتا لیکن تمام مسلمانوں کو بقدرِ ہمت و استطاعت ان کی ادائیگی کے لیے کوشاں رہنا چاہیے جو بطور امتی ہم سب کے لیے واجب الادا ہیں ۔نبی کریمﷺ کی اپنی امت پر حقوق کی فہرست بہت طویل ہے، ان میں سے چندحقوق کو اختصار کے ساتھ قارئین کی نظر کیا جا رہا ہے ۔
نبی کریمﷺ کے پہلے حق کا تعلق ہمارے عقیدے اورفکر کے ساتھ ہے۔ مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ نبی کریمﷺ جمیع کائنات میں سب سے افضل ہیں۔کوئی فرشتہ، جن اور انسان آپ کی عظمت اور مقام کا مقابلہ نہیں کرسکتا ۔گروہ انبیاء علیھم السلام میں آپ سب سے زیادہ ممتاز ہستی ہیں ۔سابقہ انبیاؑ مخصوص وقت اور محدود علاقے کے رہنما تھے جبکہ آپ جمیع انسانیت اور ہرعہد کے رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں ۔آپ سے پہلے آنے والے انبیاؑ کی جانشینی کا فریضہ ان کے بعد آنے والے نبی اور رسول انجام دیتے رہے جبکہ آپ کی ذات والا صفات پر اللہ تعالیٰ نے نبوت و رسالت کو تمام کر دیا، آپؐ کے بعد کسی شخص کونبوت اور رسالت کا مقام نہیں مل سکتا ۔نبی کریمﷺ صاحب ِمقام ِمحمود، حامل لوائے حمد ،ساقی حوضِ کوثر، شافع محشر اورامام الانبیاؑء ہیں۔ متعدد دلائل سے ثابت ہے کہ آپؐ جیسا آپ سے پہلے کوئی آیانہ آپؐ کے بعد آئے گا ۔
نبی کریمﷺ کے دوسرے حق کا تعلق ہمارے دلی جذبات کے ساتھ ہے۔ ہمیں بطور مسلمان آپ کی ذات کے ساتھ والہانہ اور بے پناہ محبت ہونی چاہیے،کسی بھی شخص کی محبت آپ کی محبت کے مقابلے میں کم تر ہونی چاہیے ۔اللہ تعالیٰ نے سورہ توبہ کی آیت نمبر 24میں ارشاد فرمایا:''اے نبی کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ،تمہارے بیٹے،تمہارے بھائی ،تمہاری بیویاں ،تمہارے خاندان،وہ مال جو تم نے کمائے ہیں، وہ تجارت جس کے ماند پڑ جانے سے تم ڈرتے ہو اور وہ گھر جو تمہیں پسند ہیں تمہیں اللہ، اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا فیصلہ لے آئے اور اللہ تعالیٰ نافرمان لوگوںکو ہدایت نہیں دیتا‘‘۔
صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کو نبی کریمﷺ کے ساتھ والہانہ محبت تھی اور وہ آپ کے اشارۂِ ابروپر اپنا تن من دھن نچھاور کرنے کے لیے تیار ہو جاتے تھے۔ آج کے مادی دور میںنبی کریمﷺ سے سچی محبت کرنے والوں کے لیے نبی کریمﷺ کی بشارت موجود ہے کہ آدمی قیامت کے دن اپنے محبوب کے ساتھ ہو گا ۔
نبی کریمﷺ کے تیسرے حق کا تعلق ہمارے جذبہ ِاطاعت، خدمات اور افعال کے ساتھ ہے۔ ہر مسلمان کو زندگی کے تمام مراحل میں نبی کریمﷺ کی غیر مشروط پیروی اور اتباع کرنی چاہیے۔ نبی کریمﷺ کے فرمان کے آجانے کے بعد مسلمان کو فوراً بلا چون و چرا آپ کے فرمان پر لبیک کہنا چاہیے ۔اللہ تعالیٰ نے سورہ نساء کی آیت نمبر 80میں ارشاد فرمایا:''جس نے رسول اللہﷺ کی اطاعت کی، پس تحقیق اس نے اللہ کی اطاعت کی‘‘۔اسی طرح سورہ آل عمران کی آیت نمبر 31میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:''کہہ دیجئے کہ اگر تم کو اللہ تعالیٰ سے محبت ہے تو میری پیروی کرو،اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگیں گے‘‘۔ مذکورہ آیات واضح کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کا واحد راستہ رسول اللہﷺ کی اتباع ہے اور آپؐ کے فرمان کے مقابلے میں ہمیں اپنے عزیزواقارب، والدین، اساتذہ، برادری اور سماج کی باتوں کو نظر انداز کر دینا چاہیے اور زندگی کے تمام مراحل میں آپ کے اسوہ حسنہ سے راہنمائی حاصل کرنی چاہیے ۔نبی کریمﷺ نے خود ارشاد فرما یا کہ ہر شخص جنت میں جائے گا سوائے اس شخص کے کہ جس نے خود جنت میں جانے سے انکارکر دیا۔آپ سے پوچھا گیا جنت میں جانے سے انکار کیا ہے؟آپ نے ارشاد فرمایا: جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں جائے گا اور جس نے نافرمانی کی گویا اس نے خود جنت میں جانے سے انکار کر دیا ۔
نبی کریمﷺ کے چوتھے حق کا تعلق ہماری دعاؤں کے ساتھ ہے۔اگر ہم عہد رسالت میں ہوتے تو آپ کے چہرے کا دیدارکرنا،آپ کے دروازے کی چوکیداری کرنا اور آپ کی سواری کی مہار تھامنا ہمارے لیے باعث اعزاز و افتخار ہوتا، لیکن اللہ نے ہمیں اس دور میں زندگی عطافرمائی کہ ہم نے والضحیٰ کے چہرے، واللیل کی زلفوں اورالم نشرح کے سینے کی زیارت نہیں کی، لیکن ہم ایک کام کر سکتے ہیں کہ آپؐ کی ذات پاک پر درود بھیجیں۔ جو آپؐ کی ذات پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی ذات پر دس مرتبہ درود بھیجتے ہیں اور جوبھیجتا ہی رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے غم دوراور گناہ معاف کر دیتے ہیں۔
نبی کریمﷺ کے پانچویں حق کا تعلق ہماری غیرت کے ساتھ ہے۔جو شخص بھی نبی کریمﷺ کی ذات اقدس کی توہین کرے اس کو کیفر کردار تک پہچانے کی کوشش کرنا ہماری ذمہ داری ہے ۔تاریخ اسلام ان غیور مسلمانوں کے کردار کی گواہ ہے جنہوں نے گستاخان ِرسول کو واصل جہنم کیا۔ محمد بن مسلمہ ؓنے کعب بن اشرف ،عمیر بن عدیؓ نے اسماء بنت مروان ،عبداللہ بن عتیکؓ نے ابو رافع یہودی اور غازی علم دین شہید نے راجپال جیسے گستاخان کا خاتمہ کرکے امت کو یہ سبق پڑھا دیا کہ گستاخِ رسول کے مسئلے پرکوئی سمجھوتا نہیں ہو سکتا۔
نبی کریمﷺ کے چھٹے حق کا تعلق ہماری شاعرانہ اور لطیف حسوں کے ساتھ ہے۔ ہر دور میں نامورشعراء اور ادیب آپ کی سیرت نگاری میں مصروف رہے ۔نعتیہ کلام اگر غلو، گاجے باجے، طبلے، سرنگی اور ساز سے پاک ہو تواس کلا م کوکہنے والااجروثواب کا مستحق ٹھہرتا ہے۔حضرت حسان بن ثابتؓ نے جب نبی کریمﷺ کی شان میں اشعار کہے تو نبی کریمﷺ نے انہیں جنت کی نوید سنائی ۔
نبی کریمﷺ کاآخری حق یہ ہے کہ آپ کے نظام کو قائم کرنے کی جدوجہد کی جائے اور فرد سے لے کر سماج ،عدلیہ سے لے کر آئین ،رسم ورواج سے لے کر تہواروں ،تہذیب سے لے کر ثقافت اور سیاست سے لے کر ریاست تک زندگی کے تمام شعبوں کو آپ کی مرضی اور شریعت کے تابع کیا جائے ۔ ان تمام حقوق کی ادائیگی کے لیے پر خلوص جدوجہد کے بعد بھی گو ہم اپنے پیغمبرﷺ کے احسانات کا بدلہ تو نہیں دے سکتے لیکن ان سے اپنی نسبت کا اظہار ضرورکرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں ۔