ٹیلی ویژن ڈرامے اور فیچر فلم میں بنیادی فرق کہانی کی ٹریٹمنٹ کا ہوتا ہے۔ ڈرامے میں چیزیں حقیقی زندگی کے فریم کے اندر دکھائی جاتی ہیں جبکہ فیچر فلم میں زندگی کا ہر پہلو‘ محبت سے لے کر موت تک ہر چیز‘ Larger than life دکھائی جاتی ہے۔ رشتے ناتے‘ زندگی کی کمٹمنٹس‘ قربانیاں‘ اصل زندگی کے فریم سے باہر دکھائے جاتے ہیں جیسے آپ محدّب عدسے سے چیزوں کو دیکھیں تو وہ اپنے حجم سے بڑی نظر آتی ہیں۔ چودھری اسلم شہید‘ کراچی پولیس کا ایک ایسا ہی کردار تھا۔ اپنی بہادری‘ دلیری اور جرأت مندی کے باعث کسی فلم کا ایسا ہیرو تھا‘ جو شیطانی قوتوں سے نبرد آزما رہتا ہے‘ بدترین مجرموں کی سنگین اور خطرناک پناہ گاہوں سے انہیں ڈھونڈ نکالتا ہے اور اپنی بے پناہ بہادری کی بنا پر ظالموں کے لیے دہشت کی علامت بن جاتا ہے۔ ہر لمحہ اپنی زندگی کو دائو پر لگائے ہوئے وہ دہشت گردوں کو موت کے گھاٹ اتارتا ہے‘ مگر اپنی زندگی کو لاحق خطرات کی پروا نہیں کرتا ہے۔ اُس کی زندگی کا ایک رُخ یہ ہے تو دوسری طرف ہیں اُس سے عشق کرنے والی اُس کی بیوی اور محبت کرنے والے پیارے بچے مگر فلم کا ہیرو اپنے فرض کی راہ میں رشتوں کو نہیں آنے دیتا...ایسا تو صرف فلموں میں ہی ممکن ہوتا ہے۔ حقیقی زندگی میں تو انسان بہت سارے حساب کتاب کے ساتھ چلتا ہے‘ اپنے فائدے اور نقصان کو دیکھ کر زندگی کے فیصلے کرنے کی کوشش کرتا ہے اور سب سے بڑھ کر زندگی سے کسے پیار نہیں ہوتا‘ کون ہے جو جانتے بوجھتے موت کے راستے پر سفر کرے۔ مگر چودھری اسلم ایسا ہی سر پھرا تھا۔ دیوانگی کی حد تک بہادری اور دلیری اس کی ذات کا خاصہ تھی‘ وہ سچائی اور اصول کی خاطر آخری دم تک لڑا۔ کراچی‘ جو بدقسمتی سے برسوں سے دہشت گردوں‘ مافیاز اور مجرموں کے نرغے میں ہے‘ میں امن و امان بحال کرنے اور جرائم پیشہ گروہوں کو کچلنے کے لیے جو پولیس فورس کام کر رہی ہے‘ چودھری اسلم اُس کے ہراول دستے کا دلیر سپہ سالار تھا۔ آج اُس کی شہادت کے بعد کراچی پولیس پر ایک حزن طاری ہے۔ اُس کی شہادت کی خبر سن کر پولیس کے جوان دھاڑیں مار مار کر روتے رہے۔ چودھری اسلم حقیقتاً ایک افسانوی کردار لگتا ہے کہ ایک پولیس آفیسر اپنی بہادری اور دلیرانہ کردار کی بنا پر غیرملکی میڈیا کی خبروں میں سراہا جائے۔ وہ نہ قومی لیڈر تھا‘ نہ کوئی نامور سماجی رہنما‘ نہ کوئی شہرت یافتہ فنکار یا شاعر‘ مگر ایک پولیس آفیسر ہونے کے ناتے وہ اپنی زندگی اس طرح جیا کہ اُس کی شہادت کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ صدر‘ وزیر اعظم‘ سمیت ہر قومی رہنما نے اس نقصان کو محسوس کیا اور اس پر اپنے غم کا اظہار کیا۔ اُس کی بہادری اور دلیری کے واقعات نے عام دِلوں کو گرما دیا۔ ہر پل دہشت گردوں اور مجرموں کے تعاقب میں رہنے والا چودھری اسلم نہ جانے کتنی بار موت کی دھمکیاں سن چکا تھا۔ یہی نہیں اُس پر کئی بار قاتلانہ حملہ ہوا۔ ایک بار وہ خودکش حملے سے بال بال بچا۔ ایک بار ظالموں نے چودھری اسلم کے ڈیفنس میں واقع گھر کو بارود سے اڑا ڈالا۔ یہ کچھ عرصہ پہلے کا واقعہ ہے۔ ٹی وی کوریج کے لیے کیمرے وہاں پہنچے تو سب نے دیکھا کہ ماحول پر دہشت اور خوف کے سائے تھے لیکن ایک شخص پُرسکون چہرے کے ساتھ بے نیازی سے سگریٹ کے کش لے رہا تھا۔ وہ چودھری اسلم تھا‘ جو اپنے نئے گھر کے ملبے پر کھڑا ایک بار پھر اس پختہ عزم کا اظہار کر رہا تھا کہ وہ اپنے مِشن سے باز نہیں آئے گا۔ چودھری اسلم کی زندگی کے معمولات ایسے ہی تھے جیسے وہ بارودی سرنگ پر چل رہا ہو۔ ہر پل موت کا دھڑکا۔ ہر پل زندگی کو خطرہ۔ اپنے بیوی بچوں کی زندگی کو لاحق خطرات کم کرنے کے لیے اسے اکثر اپنی رہائش گاہیں بدلنا پڑتیں۔ اپنی دھرتی کے لیے شاندار خدمات ادا کرنے کی قیمت اُس کے خاندان نے بھی چکائی۔ چودھری اسلم کے والد حیات ہیں۔ بہادر بیٹے کے والد نے اپنے بیٹے کی شہادت پر فخر محسوس کیا۔ اسلم چودھری کی بیوہ کی ایک بات نے چونکا دیا۔ اپنے شوہر کی وفات کے غم میں ڈوبی ہوئی نورین اسلم نے کہا کہ اُسے اپنے بہادر شوہر سے عشق تھا‘ اسی لیے تو اُس کے ساتھ ایسی زندگی گزاری‘ جو ہر لمحہ خطرات میں گھری ہوئی تھی۔
افسوس اس بات کا ہے کہ دہشت گردی کی اس بے چہرہ جنگ میں کیسے کیسے بہادر لوگ جاں سے گزر رہے ہیں مگر اس شیطانی عفریت کو قابو میں لانے کے لیے ہمارے ہاں آج بھی پُرانے اور فرسودہ طریقوں سے کام چلایا جا رہا ہے۔ دوسری جانب دہشت گرد‘ ہر دفعہ نئی تکنیک سے وار کرتے ہیں۔ وہ جدید اسلحے سے لیس ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں‘ جیسا کہ کچھ عرصہ پہلے لاہور کے علاقے گرین ٹائون سے ایک آپریشن کے دوران دہشت گردوں کا ایک گروہ پکڑا گیا تو تحقیق سے پتہ چلا کہ کرائے پر حاصل کیے گئے مکان میں انہوں نے جدید ترین ٹیلی فون ایکسچینج قائم کر رکھی تھی‘ جس میں استعمال ہونے والے نمبروں کو ٹریس کرنا پولیس کے لیے مشکل ہی نہیں ناممکن بھی تھا۔ چودھری اسلم پر ہونے والا قاتلانہ حملہ اب بھی ایک چیلنج بنا ہوا ہے کہ کیونکہ ابتدائی رپورٹ کے مطابق کبھی یہ خودکش حملہ لگتا ہے اور کبھی ریموٹ کنٹرول ڈیوائس سے کیا گیا دھماکہ۔ چودھری اسلم شہید تو ایک سر پھرا بہادر تھا‘ جو اپنی دلیری کی بنیاد پر دہشت گردوں سے لڑتا رہا‘ انہیں شکست دیتا رہا۔ لیکن آخر کب ہماری پولیس اُسی فرسودہ انداز سے دہشت گردوں کی منظّم کارروائیوں کے خلاف لڑتی رہے گی۔ بہادر لوگ اپنی جان دیتے رہیں گے۔ ہنگو میں اعتزاز حسین اپنی جان پر کھیل کر اپنے کلاس فیلوز کو بچا گیا‘ مگر خود اُس کے خوب صورت وجود کے پرخچے اڑ گئے۔ صرف بیانات‘ مذمتوں‘ تمغوں اور اعلانات سے اس کا کفارہ ادا نہیں ہو سکتا۔ حکومت وقت اس مقصد کو ترجیحی فہرست میں رکھے۔ ضروری ہے کہ پولیس فورس کی جدید خطوط پر تربیت ہو۔ اُن ملکوں سے رہنمائی لی جائے جنہوں نے ایسے ناسور پر قابو پایا ہے۔
کراچی دہشت گردی‘ سیاسی جماعتوں کے مسلح گروہوں اور قسم قسم کے مجرمانہ مافیاز کی کارروائیوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ دہشت گردوں نے چودھری اسلم کو اپنے راستے سے ہٹا کر ایک بڑا ٹارگٹ حاصل کیا ہے۔ دھرتی کے اس بہادر سپوت کی شہادت کے بعد کراچی والوں میں خوف و ہراس بڑھ چکا ہے۔ عین ممکن ہے کہ دہشت گرد شہر میں اپنی کارروائیاں بڑھا دیں۔ بہرحال چودھری اسلم اپنے جرات مندانہ کردار کی بدولت وطنِ عزیز کی پولیس فورس کے لیے ایک مثال بن گیا۔
وہ حقیقی زندگی کی فیچر فلم کا سُپر ہیرو تھا‘ جسے اپنی دھرتی اور اپنے فرض سے عشق تھا اور یہ بازی تو عشق ہی سے کھیلی جا سکتی تھی۔ گر جیت گئے تو کیا کہنا‘ہارے بھی بازی مات نہیں۔