سیدالانبیاء‘ سرکارِ دو عالم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت بیان کرتے یا آپؐ کی آمد کا ذکر اپنی تقریروں میں فرماتے ہوئے ہمارے اکثر مصنفین اور مقررین ایک فقرہ عموماً بولتے اور لکھتے ہیں: ''آپؐ کی آمد سے پہلے دنیا جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوبی ہوئی تھی‘‘۔ سیرت کا مطالعہ کریں اور اس دور کے معاشروں کا جائزہ لیں تو آپ کو حیرت ہو گی کہ یہ جہالت کیا تھی؟ یہ تو علم اور ٹیکنالوجی کا وہ بامِ عرو ج تھا جس نے انسان کو اس کے غرور میں مبتلا کر رکھا تھا اور وہ اپنی اسی ترقی کو زندگی کی آخری منزل سمجھے ہوئے تھا۔ سیرت کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ سوال اکثر ذہن سے ٹکراتا ہے کہ اگر دنیا اس قدر تاریک تھی‘ جہالت کا اندھیرا اتنا زیادہ تھا تو پھر ایک چھوٹے سے چراغ سے اس تاریکی کا سینہ چیرا جا سکتا تھا، لیکن اللہ نے انسانی تاریخ کے سب سے بڑے چراغِِ ہدایت کو سِراج منیر کا لقب عطا کر کے بھیجا۔ یہی وہ دعویٰ ہے جس کے بعد اگر اس دور کی تاریخ پر روشنی ڈالیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ اس وقت کی دنیا میں انسان نے علم اور ترقی کے ایسے ایسے چراغ روشن کر لیے تھے کہ انہی کی روشنی میں گم ہو کر اس کی آنکھیں چندھائی ہوئی اور نور بصیرت سے محروم ہو چکی تھیں، ہدایت کی روشنی سے دور، اپنے ہی علم کے غرور سے اندھی ہو رہی تھیں۔ جو معاشرے اس دور میں بامِ عروج پر تھے ان میں چین‘ مصر‘ روم اور ایران تہذیبی ترقی اور سائنسی دریافت کے میدانوں میں کمال حاصل کر چکے تھے۔ وہ تمام فلسفیانہ بحثیں‘ جو آج تک جاری و ساری ہیں‘ لوگ ان کا آغاز اور ان پر تفصیلی علمی کام بعثت نبوی سے بہت پہلے کر کے دنیا کو حیران کن مغالطوں میں چھوڑ چکے تھے۔ یونان اور بابل کی تہذیبوں کو دیکھیے، ایک طرف موجودہ دور کی جمہوریت سے لے کر فرائڈ کی تعیّنات اور مارکس کی اشتراکیت، سب کے ماخذ یونان سے برآمد ہوتے ہیں تو دوسری جانب ہمورابی کے قوانین اور انسانی حقوق کی بنیادیں بھی لوگ وہیں سے کھود کر نکالتے ہیں۔ فرعونوں کی سرزمین مصر میں اہرام کی تعمیر ٹیکنالوجی کی ترقی کے راز کھولتی ہے۔ دنیا آج تک حیران ہے کہ کیسے اتنے بڑے بڑے پتھروں کو اس طرح تراشا گیا تھا جیسے نرم صابن کو دھاگے کے ساتھ کاٹا جاتا ہے، نہ پھاوڑے کا نشان اور نہ ہی کدال اور چھینی کی کوئی علامت۔ آخر انہیں ہموار کرنے کے لیے کون سا کیمیائی مادہ استعمال ہوا؟ اس کے بعد ان میں در آنے والی روشنی سے جس طرح تقویم کے مسئلے حل کیے گئے، آئندہ آنے والے ہزاروں سالوں میں سورج ‘ چاند اور ستاروں کی آمدورفت کا حساب متعین کیا گیا، وہ سب حیران کن ہے۔ ایران کی حکومت مزدکیت کے ایک سیکولر تصور کی بھول بھلیوں میں جدید ترین تہذیبی خدوخال بنا رہی تھی۔ خاندان سے آزادی‘ جنسی تلذذ اور اجتماعیت‘ غرض وہ سب کچھ اس فلسفہ زندگی میں موجود تھا جو آج یورپ کے کسی بھی تہذیب یافتہ شہر میں ہم جنس پرستوں کے حقوق اور جنسی آزادی کے علمبرداروں کے کلب میں نظر آتا ہے۔ چین دُور تھا لیکن تہذیب کا گہوارہ تھا۔ موجودہ بیوروکریسی کا نظام چین کے نظام مینڈرنز کی نقل ہے۔ مقابلے کے امتحان سے لے کر اکیڈیمی کی ٹریننگ اور پھر آخری مقابلے کے امتحان کے بعد شاہ کے محل میں نوکری، یہ سب کا سب آج کی بیوروکریسی کی بنیادیں ہیں۔ یہ تو تھا انتظامی‘ سائنسی اور علمی ترقی کا عالم، دنیا کے ہر خطے میں نشانیوں کے طور پر موجود بڑی بڑی عالی شان عمارتیں اس ترقی اور علمی معراج کی گواہ ہیں۔
یہ وہ مقام تھا جب اس علم کو آخری سچائی سمجھ کر انسان اپنے آپ کو خدا کا ہم پلہ تصور کرنے لگتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس دنیا کے تمام خزانے اس کی مٹھی میں ہیں۔ وہ سمندروں کا سینہ چیر سکتا ہے‘ دریائوں کا رخ موڑ سکتا ہے ، ہوائوں کو مطیع بنا سکتا ہے اور زمین کے سینے پر بلند و بالا اور پُرشکوہ عمارتوں سے اپنے خدا ہونے کا اعلان کر سکتا ہے۔ یہاں اس کے علم کی کل بساط اسے یہ کہنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ وہی حق ہے جو میں نے دیکھا‘ چھوا‘ سنا‘ سونگھا اور محسوس کیا۔ اپنی اس محدود دنیا کو وہ حرفِ آخر سمجھتا ہے۔ یہی المیہ دنیا کی ہر تہذیب کا ہوتا ہے اور یہی المیہ موجودہ دور کی سائنسی ترقی کا ہے جسے ہم سائنسی حقیقت کہہ کر سچ ثابت کرتے ہیں؛ حالانکہ ایک صدی تک راج کرنے والی سائنسی حقیقت اگلی صدی میں جہالت اور جھوٹ بن جاتی ہے۔
یہ تھا وہ علم کی روشنی میں چندھائی ہوئی آنکھوں کا دور جس نے کائنات کے لوگوں کو ایک ایسے جہل کا شکار کر دیا تھا جس میں وہ اس تصور سے ناآشنا ہوتے جا رہے تھے کہ اس کائنات کو تخلیق کرنے والا ایک خدائے قدوس ہے۔ دنیا کے ہر خطے میں ذاتی اور معاشرتی رنگا رنگی کے لیے مذاہب تخلیق بھی کیے گئے اور پرانے مذاہب میں تبدیلیاں بھی کی گئیں۔ دنیا کے ہر خطے میں رنگین مزاج دیوی دیوتائوں کی دنیا آباد تھی جس کا تعلق زندگی کے میلوں ٹھیلوں سے تھا۔ اللہ‘ اس کا تصور اور اس کائنات پر اس کی بادشاہت تو کسی کے خواب و خیال سے بھی نکل گئی تھی۔ زمین بھی انسان کی اور اس پر بادشاہ بھی انسان‘ اس دور میں ایک ایسے خطے میں اللہ نے میرے آقاؐ کو معبوث کیا جو ان چکا چوند تہذیبوں اور علمی مباحث سے دور تھا۔ عرب کی سرزمین سے نکلنے والا یہ نور ہدایت نہ فلسفے کے مباحث تک محدود تھا اور نہ بادشاہتوں کے اسلوب حکمرانی تک‘ اس روشنی کو تو یہ ثابت کرنا تھا کہ اللہ کی تعلیمات سے خوبصورت معاشرے کیسے جنم لیتے ہیں اور دلوں سے پھوٹتی ہوئی روشنی معاشروں میں تبدیلی کیسے لاتی ہے۔ سیدالانبیاءؐ کی بعثت سے پہلے اگر کوئی شخص عرب چھوڑ کر دور دراز ملک چلا جاتا اور صرف تئیس سال بعد واپس آتا تو حیران رہ جاتا۔ اسے یقین نہ آتا کہ کیا یہ وہی عرب ہے؟ یہ تبدیلی سڑکوں‘ عمارتوں اور ذرائع آمدورفت کی تبدیلی نہیں بلکہ دلوں کی تبدیلی تھی۔ یہ ایسی تبدیلی تھی جس کی خوشبو نے ایک عالم کو معطرکر دیا۔۔۔ ایک نور ہدایت‘ سراج منیر جس کی روشنی اس قدر تابناک تھی کہ انسانوں کے جلائے ہوئے چراغ اس کے سامنے ماند پڑ گئے۔