منافعوں کے لیے ہونے والی پیداوار کے نظام کے یہی دستور ہوا کرتے ہیں۔ دیہات میں بجلی کی روکم آتی ہے اور لوڈشیڈنگ زیادہ ہوتی ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں نے کے ای ایس سی میں نہ صرف جبری برطرفیوں کے خلاف چلنے والی مزدوروں کی مزاحمتی تحریک کو بے دردی سے کچلا بلکہ اس سے ہونے والی بیروزگاری کو اجارہ داریوں کے ''پیداواری اخراجات‘‘کے لیے ناگزیر کارروائی قرار دے کر سیٹھوں کے مفادات کو تحفظ فراہم کیا۔احتجاج کرنے والے محنت کشوں کی قیادت کو دہشت گردی کے جھوٹے مقدمات میں پابند سلاسل کر کے دہشت گردوں سے مذاکرات کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے۔ ان سامراجیوں سے بجلی کی پیداواری صلاحیت میں 1000 میگاواٹ کا جواضافہ منسوب کیا جاتا ہے، اس کی حقیقت یہ ہے کہ 560میگاواٹ اضافے کے لیے سرمایہ کاری ریاست نے کی تھی اور باقی سرمایہ کاری کے ای ایس سی کے اثاثوں کو بینکوں میں گروی رکھ کر ان کے ذریعے حاصل کردہ قرضوں سے کی گئی۔ مالکان کا اس میں ایک دھیلا بھی نہیں لگاجبکہ وہ بھاری منافع حاصل کرنے کے بعداس کو آگے بیچ کر ساری دولت واپس اپنے ممالک میں لے جانے کے لیے پرتول رہے ہیں۔ پاکستان میں بینکاری اور انشورنس کا شعبہ سب سے زیادہ منافع بخش ہے۔ جب چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے ان مالیاتی اداروںکو قومی تحویل میں لیا تواس کا مقصد نہ صرف منافعوں کے نجی تجوریوں میں بھرنے کا عمل روکنا تھا بلکہ حکومت کو درکار ترقیاتی کاموں کے لیے آسان شرائط پر سرمایہ حاصل کرنا تھا، لیکن 1990-2010ء کی دہائیوں میں اس ''نیشنلائزیشن‘‘ پر بے تحاشا شور مچایا گیا اور ان شعبوں کے بڑے حصے اس عرصے میں نجی شعبے کو نیلام کردیئے گئے۔ المیہ یہ ہے کہ اس شعبے میں مسلم کمرشل بینک کی نجکاری 1989ء میں بھٹو صاحب کی دختر نے شروع کی تھی۔
ان دودہائیوں میں نہ صرف ان بینکوںکو نہایت ہی سستے داموں نجی شعبوں کو دیا گیا بلکہ سرکاری خزانے سے ان میں45 ارب روپے منتقل کیے گئے اور 50 ارب روپے کے نادہندہ قرضوں کو خود اپنے ایک ادارے کی سپردگی میں لے لیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف بینکوں کی 16 سو شاخوں کو بند کردیا گیا اور ہزاروں ملازمین برطرف بھی ہوئے ، لیکن ان بینکوں کی نجکاری سے ملکی معیشت کو نہ صر ف مندرجہ بالا نقد نقصان اٹھانے پڑے بلکہ ان بینکوں نے نجی ملکیت میں آ کر صنعت، زراعت اور خدمات کے شعبوں کو قرضے دے کر سرمایہ کاری میں اضافے کی بجائے حکومتی بانڈز کی گارنٹی کے ساتھ سرکار کو بڑے پیمانے کی شرحِ سود سے قرضے دے کر بے پناہ منافعے بٹورے۔ جہاں تک یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ سرکاری شعبے میں بینکوں پر بہت زیادہ قرضے چڑھ گئے تھے‘ بالکل غلط ہے۔ نجکاری سے پیشتر ان قرضوں کی شرح 19فیصد تھی جبکہ نجکاری کے بعد یہ25 سے30فیصد ہوچکی تھی۔ لیکن اس بینکاری کی لوٹ مار کا سب سے بڑا ذریعہ قرضوں اور بینکوں میں جمع شدہ رقوم پر دیئے جانے والے سود میں فرق ہے۔ 2004ء سے2010ء تک ان نجی بینکوں نے اپنے قرضوں کے سود میں 7فیصد سے14فیصد کا اضافہ کردیا جبکہ ان بینکوں میں پونجیاںرکھنے والوں کو 7 سے 8 فیصدمنافع دیا جاتا تھا۔اس طرح پاکستان میں یہ فرق 6 سے7 فیصد ہے جبکہ کوریا میں2فیصد اور ملائشیا میں3 فیصد ہے۔ اس سے اندازہ
ہوتا ہے کہ یہ نجی بینک کس پیمانے پر اپنے منافعوں میں اضافے حاصل کررہے ہیں ۔ حکومت بے دریغ اخراجات کرتی جارہی ہے ، قرضے پہ قرضہ چڑھتا جارہا ہے لیکن آئی ایم ایف کی طرح ان بینکوںکو قرضوں اور سود کی مد میں سرکاری ادائیگیاں جاری ہیں۔ان میںکبھی رکاوٹ نہیں آسکتی کیونکہ شاید اس ریاست کا بنیادی مقصد اسی سرمایہ دار بینکار طبقے کے مفادات کا تحفظ ہے۔
ماضی میں پاکستان میں جو نیشنلائزیشن ہوئی وہ درحقیقت بیوروکریٹائزیشن تھی۔ پرانے مالکان کی جگہ سرکاری افسران ان کمپنیوں کے مینیجر اور ڈائریکٹر بن گئے۔ مزدوروں کا مشترکہ جمہوری کنٹرول، ملکیت اور انتظام قائم نہیں ہوسکا۔دوسری جانب معیشت کی ادھوری نیشنلائزیشن سے مالیاتی سرمائے کا جبر اور اس کی آمریت ختم نہیں ہوئی جس کے باعث نیشنلائزیشن سے زخمی سرمایہ داروں کو جب موقع ملا تو انھوں نے چیئرمین بھٹو سے خونی انتقام لیا۔ اس بیوروکریٹائزیشن سے سرکاری اداروں میں بد عنوانی کو فروغ ملا اور عوام کے لیے موجود سہولت میں رکاوٹیں پیدا ہونی شروع ہوئیں۔ لیکن ان تمام تر خرابیوں کے باوجود سرکاری اداروں کی عوامی سہولیات کی فراہمی اور پیداوارکا معیار نجی اداروں کی نسبت کہیں زیادہ بہتر تھا۔ اب ہونے والی نجکاری میں تو کوئی بھی بیوپاری ان اداروں کو ان کی آدھی قیمت پر بھی نہیں خریدے گا اور خریدنے کے بعد اس میں پیسہ لگانے کی بجائے اس کے موجود ڈھانچے سے منافع کشید کرے گا جس سے خستہ حال انفراسٹرکچر مزید تباہ و برباد ہو جائے گا۔اسی طرح بڑے اداروں کے حصے بخرے کرکے اور ان کو توڑ کر فروخت کیا جائے گا۔ریلوے اور دیگر اداروں میں یہ عمل پہلے ہی شروع ہو چکا ہے۔پرائیویٹ ٹرینیں چل رہی ہیں لیکن ان سے ریلوے کا خسارہ کم ہونے کی بجائے بڑھ رہا ہے۔ ریلوے لائن کی دیکھ بھال اور اخراجات، عملے کی تنخواہیں، اسٹیشنوں کے اخراجات اور دیگر تمام خرچے سرکار کی ذمہ داری ہیں جبکہ آمدن کے ذرائع نجی مالکان کے منافعوں کی ہوس کو پورا کرنے کے لیے بیچ دیے گئے ہیں۔ملک میں موجود تعمیراتی سہولتوں کے باوجود کمیشن کھانے کے لیے بیرونی ممالک سے انجن اور دیگر اشیاء برآمد کی جا رہی ہیں۔ واپڈا کی نجکاری کے لیے بھی اس کو ایک لمبے عرصے سے مختلف حصوں میں تقسیم کیا جا رہا ہے تاکہ مختلف سرمایہ دار اپنی مرضی کے منافع والے حصے چن لیں اور تمام تر خسارے والے اور اخراجات والے حصے سرکار کے ذمے ڈال دیے جائیں۔پہلے ہی بجلی کی پیداوار کے اداروں کی نجکاری کی وجہ سے لوڈ شیڈنگ کا عذاب عوام پر مسلط ہو چکا ہے۔ اب انہی آئی پی پیز کے مالکان گردشی قرضے اور دوسرے ذرائع سے اربوں روپے حاصل کر کے مزید بڑے مگر مچھ بن چکے ہیں اور ان کی نظریں واپڈا کے دیگر منافع بخش حصوں پر ہیں۔ اسی مقصد کے تحت انہوں نے گزشتہ عام انتخابات میں مختلف سیاسی پارٹیوں پر بڑے اخراجات بھی کیے تاکہ جب وہ اقتدار میں آئیں تو نجکاری کی پالیسی کے ذریعے واپڈا اور دیگر کلیدی اداروں کو مل جل کر ہضم کر سکیں۔ ضیا آمریت سے لے کر اب تک عالمی مالیاتی اداروں کے اشاروں پر مختلف حکومتوں نے ان اداروں کی سستی نجکاری کے لیے تیاری کے اقدامات کیے۔ ان کی حالت خراب کرکے ان کو خسارہ زدہ کرکے ان کی قیمت کو مٹی کر دیا۔ ان اداروں میں ایسے من پسند افراد کو اعلیٰ عہدوں پر لگایا گیا جو سروس اور پیداوار کے معیار کو گرا کر اسے منافع کی بجائے نقصان میں لے جائیں۔ جو کابینہ پی آئی اے کی نجکاری کا فیصلہ کر رہی ہے اسی کابینہ میں ایسے وزیر بھی ہیں جو نجی ائیر لائن کمپنی کے مالک ہیں۔ ان کی وفاداری سرکاری ادارے کے ساتھ ہے یا اپنی کمپنی اور اس کے بڑھتے ہوئے منافعوں کے ساتھ‘ یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں۔ اسی طرح آئی پی پیز اور دیگر اداروں کے حصہ دار بھی کابینہ میں موجود ہیں۔اس لیے نجکاری سے نہ تو قرضے اتریں گے نہ ہی ملک کا خسارہ دور ہوگا اور نہ ہی عوام کے لیے یہ سہولیات فراہم کرسکیں گے ؛ بلکہ اس نجکاری سے بیروزگاری، مہنگائی، غربت، محرومی اور ذلت میں مزید اضافہ ہی ہو گا۔ تمام تجربات یہ ثابت کرتے ہیں کہ اس معیشت کو بحال کرنے کے لیے تمام بھاری صنعت، بڑی جاگیروں اور معیشت پر حاوی بڑی اجارہ داریوں کو قومی تحویل میں لے کر محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں دے دیا جائے جہاں ان کی پیداوار اور کام کا مقصد منافعے کے حصول کی بجائے انسانی ضروریات کی تکمیل اور سماج کی خوشحالی ہو۔ یہ صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ (ختم)