میں نے گزشتہ کالم میں مشرقی پاکستان کے اندر ہونے والی خونریزی میں بھارت کے کردار کا ذکر نہیں کیا۔ میرے خیال میں اگر پاکستان کے حکمران طبقے‘ اقتدار کی خاطر خونریزی کا کھیل شروع نہ کرتے‘ تو بھارت‘ پاکستان کو کبھی دولخت کرنے کے قابل نہ ہوتا۔ قیام پاکستان کے وقت ‘وسیع پیمانے پر جو خونریزی کی گئی‘ وہ درحقیقت ان طاقتوں کا کام تھا‘ جو قیام پاکستان کی بدترین مخالف تھیں۔ مخالفت کرنے والی طاقتوں نے تقسیم کی صورت میں‘ مسلمانوں کے قتل عام کے منصوبے بنا رکھے تھے اور جو علاقے مغربی پاکستان میں آئے‘ یہاں بھی کچھ مفاد پرستوں نے غیرمسلموں پر حملے شروع کر دیئے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے‘ ہندو اور سکھ شرنارتھیوں کی جو پہلی ٹرین واہگہ کے پار گئی‘ وہ راولپنڈی سے چلی تھی۔ میں نے 1947ء کے اوائل میں‘ ان بے سروسامان شرنارتھیوں کو دیکھا‘ جو فرید کوٹ کے گوردواروں اور مندروں میں پڑے تھے۔ دوسرے بچوں کی طرح مجھے بھی تجسس تھا کہ یہ نئی مخلوق کون ہے اور کہاں سے آئی ہے؟ پتہ چلا کہ یہ لوگ شرنارتھی ہیں۔ میرے مشاہدے کی بات ہے کہ دونوں ملکوں میں انتہاپسند ہندوئوں اور مسلمانوں نے‘ انفرادی طور پر ایک دوسرے پر حملے شروع کر دیئے تھے اور اجتماعی قتل عام کی لہر‘ تقسیم کا اعلان ہونے کے بعد اٹھی تھی۔ مشرقی پاکستان میں ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔ وہاں کے ہندو اور مسلمان پرامن طریقے سے اپنے اپنے ملک میں بستے رہے۔ زیادہ خونریزی پنجاب میں اور شمالی بھارت کے چند علاقوں میں ہوئی۔
بلوچستان اور اس وقت کے صوبہ سرحد میں معمولی سے واقعات ہوئے اور سندھ سے بھی ہندوئوں اورسکھوں نے قیام پاکستان کے سال دو سال کے بعد نقل مکانی شروع کی۔ میں نے 1959ء تک دیکھا ہے کہ کراچی کے اندر ہندو‘ بڑی تعداد میں اپنا اپنا کاروبار کر رہے تھے۔ بعض حالات میں سیٹھ لچھو‘ سیٹھ لطیف بن گیا۔ یہ پس منظر اس لئے پیش کیا کہ 1950ء تک دونوں طرف وحشیانہ خونریزی اور لوٹ مار پر انسانی ضمیر بیدار ہو گیا تھا اور لوگ پچھتانے لگے تھے۔ اگر اس دور کے ادب کا مطالعہ کیا جائے تو ایک بات نمایاں ہو کر سامنے آتی ہے کہ بھارتی اہل قلم کے ہاں پچھتاوے کی مقدار زیادہ تھی اور ہمارے ہاں کم۔ غالباً یہ ظلم و بربریت کے تناسب کے مطابق تھا۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ 1954ء میں پاکستانی ہائی کمشنر راجہ غضنفر علی خاں نے‘ دہلی میں بلھے شاہ کی تصویری نمائش کا اہتمام کیا‘ جہاں پنجابی مشاعرہ بھی منعقد ہوا۔ جنوری 1955ء میں کرکٹ میچ کے لیے عارضی ویزے دیئے گئے۔ ہندو اور سکھ ہزاروں کی تعداد میں کرکٹ کے بجائے لاہور دیکھنے آئے۔ تب پاکستان کو بنے ہوئے قریباً 9 سال ہو چکے تھے۔ جن چھوٹے بچوں نے سکھ نہیں دیکھے تھے‘ وہ انہیں انارکلی میں رک رک کر اور پلٹ پلٹ کر حیرت سے دیکھتے۔ سکھ نوجوانوں کا ایک گروہ‘ چھٹی کے وقت سکول کے قریب سے گزرا ‘ تو دیکھنے والے بچوں کا رش لگ گیا۔ ان میں سے ایک چبوترے پر کھڑا ہو گیا اور اپنا منہ بچوں کی طرف کر کے بولا ''اوئے منڈیو! ویخدے جائو تے لنگھدے جائو۔‘‘ (اوئے لڑکو! دیکھتے جائو اور گزرتے جائو)۔ اسی سال اگلے ہی مہینے باغ جناح لاہور میں پنجابی مشاعرہ منعقد ہوا۔ اس میں درشن سنگھ آوارہ‘ جسونت رائے‘ ہیراسنگھ اوتار‘ استاد دامن‘ عبدالمجید بھٹی اور احمد راہی نے شرکت کی۔ اس مشاعرے میں درشن سنگھ آوارہ نے ایک فی البدیہہ شعر کہا ؎
میرے ساقی نے بڑے ای چر پچھوںکنڈی کھولی اے اج میخانیاں دی
بھری محفل وچ آ گئے رند ایداں شمع گرد جیویں ڈار پروانیاں دی
لال قلعہ دہلی کا ایک یادگارمشاعرہ برسوں تک لوگوں کو یاد رہا‘ جس میں استاد دامن نے پنڈت نہرو کی طرف دیکھتے ہوئے اپنی نظم سنائی:
بھانویں مونہوں نہ کہیے‘ پر وچو وچی
کھوئے تسی وی او‘ کھوئے اسی وی آں
کجھ امید اے‘ زندگی مل جائے گی
موئے تسی وی او‘ موئے اسی وی آں
جیوندی جان ای موت دے منہ اندر
ڈھوئے تسی وی او‘ ڈھوئے اسی وی آں
جاگن والیاں رج کے لٹیا اے
سوئے تسی وی او‘ سوئے اسی وی آں
لالی اکھیاں دی پئی دسدی اے
روئے تسیں وی او، روئے اسی وی آں
اس نظم کا یہ مصرعہ
لالی اکھیاں دی پئی دسدی اے
روئے تسیں وی او، روئے اسی وی آں
کئی بار سنا گیا اور حاضرین کی بھاری اکثریت روتی ہوئی دیکھی گئی۔ پچھتاوے کے اس دور میں امرتاپریتم نے اپنی یادگار نظم لکھی‘ جس کے چند اشعار اس طرح ہیں ۔ ؎
اج آکھاں وارث شاہ نوں کِتوں قبراں وچوں بول
تے اج کتاب عشق دا کوئی اگلا ورقا پھول
اک روئی سی دھی پنجاب دی توں لکھ لکھ مارے وین
اج لکھاں دھیاں روندیاں تینوں وارث شاہ نوں کہن
اٹھ درد منداں دیا دردیا، اٹھ تک اپنا پنجاب
اج بیلے لاشاں وچھیاں تے لہو دِتا بھری چناب
اج کسے نے پنجاں پانیاں وچ دتا زہر رلا
تے اوہناں پانیاں دھرتی نوں دتا پانی لا
جتھے وجدی پھوک سی پیار دی اوہ ونجھلی گئی گواچ
اتے رانجھے دے سب ویر اج بھل گئے نے اس دی جاچ
دھرتی تے لہو وسیا تے قبراں پیاں چون
اج پریت دیاں شہزادیاں وچ مزاراں رون
اج سبھے کیدو بن گئے ایتھے حسن عشق دے چور
اج کتھوں لیایئے لبھ کے اسیں وارث شاہ اک ہور
اج آکھاں وارث شاہ نوں کتوں قبراں وچوں بول
تے اج کتاب عشق دا کوئی اگلا ورقہ پھول (نظم مکمل نہیں)
اسی دور میں سعادت حسن منٹو نے ''ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ ، ''کالی شلوار‘‘ اور ان گنت دوسرے افسانے اور افسانچے لکھے‘ جن میں پچھتاوے کا یہی درد سمویا ہوا تھا۔ فیض‘ احمد ندیم قاسمی اور بے شمار دوسرے لکھنے والوں نے اس دور کے پچھتاوے کو اپنی تخلیقات میں رچایا اور ادب کے آئینے میں پچھتاوے کی یہ لہر ختم ہوتی ہوئی نظر آتی ہے اور پیار کا جذبہ بیدار ہو کر آنکھیں کھولتا اور مسکراتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ 1965ء تک یہ جذبہ اپنے پورے شباب پر آچکا تھا۔ مگر جن قوتوں کو دونوں ملکوں کے عوام کی اس چاہت اور امن پسندی میں اپنی موت نظر آنے لگی، انہوں نے عوام پر 65ء کی جنگ مسلط کر دی۔ یہ پس منظر اس لئے بیان کرنا پڑا کہ آزادی کے بعد پاکستان اور بھارت کی دشمنی ایک ہیجانی اور جنونی دور کا نتیجہ تھی۔ مگر جیسے ہی حالات معمول پر آئے‘ تو ایک دوسرے کا خون بہانے والے پچھتاوے کا غسل لے کر پاک صاف ہو چکے تھے۔ نفرت کا نیا آتش فشاں جو 1965ء کی جنگ میں پھٹا‘ اس کا لاوا ٹھنڈا پڑنے کی بجائے مزید بڑھتا گیا اور خونریزی کی جس لہر نے تقسیم کے دور میں سر اٹھایا اور جس پر انسانی جذبے غالب آ کر معمول کی زندگی کی طرف بڑھ رہے تھے‘ ان پر نفرت کے شعلے غالب آنے لگے اور اب امن کی روشنی دور دور تک دکھائی نہیں دے رہی۔ وطن عزیز میں اپنوں کا خون بہا کر تسکین پانے کا جنون پیدا ہو گیا۔بھارتیوں کو دستیاب انسانی شکار افراط سے دستیاب ہیں۔ مسلمان ان کا آسان شکار ہیں۔ نچلی ذات والوں کی تعداد بھی کم نہیں اور انقلابیوں اور انقلاب دشمنوں کے درمیان باہمی خونریزی کے مواقع بھی موجود ہیں اور مقبوضہ کشمیر انہیں منافع میں ملا ہوا ہے۔
جس دور سے ہم گزر رہے ہیں‘ اس میں دور تک انسانی خون کے کئی دریا دکھائی دے رہے ہیں۔ بھارت دشمنی میں جو خون کا دریا ‘ ہماری تقدیر کے نقشے پر جگہ بنا چکا ہے‘ خشک ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔ البتہ پانی کے دریا خشک ہونے کا خطرہ ضرور موجود ہے۔ پاکستان کی جنگِ اقتدار میں لیاقت علی خان کے بعد خون بہانے کی روایت ضیاالحق نے تازہ کی۔ ابھی ہم اس روایت سے باہر نکلنے کا راستہ ڈھونڈ رہے ہیں کہ ایک نئے قتل نے ہمارے گھر میں جھانکنا شروع کر دیا ہے۔ پاکستان میں ایوان اقتدار کے اندر ابھی تک صرف دو قتل ہوئے ہیں۔ لیاقت علی خان اور ذوالفقار علی بھٹو۔اگر تیسرا قتل کر دیا گیا‘ تو خونریزی کے کھیل میں ایک اور کھلاڑی اتر سکتا ہے۔ جب تک دونوں ملکوں میں تحریک آزادی کی قیادت زندہ رہی‘ ہم خونریزی کے بڑے بڑے صدموں پر قابو پانے کی طاقت رکھتے تھے۔ اب تو یوں لگتا ہے کہ طاقت بھی نہیں رہی اور شاید خواہش بھی دم توڑ رہی ہے۔ خون کی چاٹ میں ہم محبتوں کے ذائقے بھولتے جا رہے ہیں۔ آج چاروں طرف پرویزمشرف کے خون کی پیاس ‘ شکار کے انتظار میں‘ گھات لگائے اور بھیانک جبڑے کھولے دم سادھے بیٹھی ہے۔