بھارت میں فسادات کا عفریت ایک بار پھر سر اٹھانے لگا ہے۔ 2002ء میں گجرات میں ہونے والے فسادات کو اگر چھوڑ دیا جائے تو 1992ء میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد یہ سلسلہ کسی حد تک تھم گیا تھا‘ مگر اب کچھ عرصے سے اس میں پھر شدت پیدا ہو گئی ہے۔ اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ پچھلے ڈیڑھ برس میں بھارت کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں ایک سو سے زائد مذہبی فسادات ہو چکے ہیں۔ گزشتہ سال ستمبر میں مظفر نگر اور شاملی اضلاع میں ہونے والے مسلم کش فسادات کی ہولناکی اور سنگینی نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
بھارت میں عام انتخابات قریب آ گئے ہیں‘ اس لیے سبھی جماعتیں ان فسادات سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش میں ہیں۔ ملک میں بڑھتی ہوئی مذہبی منافرت کے اصل سرچشمے کو ختم کرنے پر کوئی توجہ نہیں دے رہا۔ ملک کے ممتاز مورخین اور دانشوروں کا مطالبہ ہے کہ تعلیمی نصاب اور تاریخ کی کتابوں کو مذہبی اختلافات پر مبنی زہریلے مواد سے پاک کرنے کے لیے ایک نیشنل کمیشن تشکیل دیا جائے‘ جو سماجی علوم اور عمرانیات کی کتابوں کا جائزہ لے اور ان میں موجود مذہبی منافرت پر مبنی مواد کی نشاندہی کرے۔ پروفیسر رومیلا تھاپر، پروفیسر مشیرالحسن، پرفیسر زویا حسن، مغربی بنگال کے سابق گورنر گوپال کرشن گاندھی، سابق کابینہ سیکرٹری نریش چندر، کنڑ ڈرامہ نگار گریش کرناڈ، بزرگ صحافی بی جی ورگھیز اور دیگر نے ایک مشترکہ بیان میں نصابی کتب کو ہندوانہ قالب میں ڈھالنے پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس حوالے سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا کہ کرناٹک اور مہاراشٹر، مدھیہ پردیش، راجستھان اور دیگر ریاستوں کے
نصاب میں مذہبی جذبات کو برافروختہ کرنے والا مواد شامل کیا گیا ہے اور حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی ہے‘ تاریخی کتب میں علاقائی شخصیات کی ''بہادری اور شجاعت‘‘ کو کچھ اس انداز میں پیش کیا گیا ہے کہ اس سے ان کے ہمعصروں کی تحقیر محسوس ہوتی ہے۔ نصابی کتب کو کچھ اس انداز سے مرتب کیا گیا ہے کہ نئی نسل کے اذہان مسموم ہو رہے ہیں۔ مثلاً کرناٹک میں پڑھائی جانے والی ایک نصابی کتاب میں ذبیحہ گائے کے حوالے سے ایک مضحکہ خیز واقعہ شامل کیا گیا ہے‘ جس میں ایک شیر اس کا بات عہد کرتا ہے کہ وہ اب آئندہ کبھی گائے کا گوشت نہیں کھائے گا۔ مشہور مورخ ڈی این جھا نے اپنی ایک تصنیف میں ہندوئوںکی مقدس کتابوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ ویدک دھرم میں گائے کو ذبح کرنا ممنوع نہ تھا۔ سیکولر ہونے کے دعوے دار ملک میں کسی مخصوص طبقے کے جذبات کو مدنظر رکھ کر کوئی پابندی عائد کرنا سیکولرازم کے اصولوں کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔
بھارت میں مذہبی منافرت ابھارنے کا کام نہایت منظم انداز میں ہو رہا ہے۔ ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس کی ذیلی تنظیموں سے وابستہ چھ ہزار سے زائد سکول سرکاری امداد پر چلتے ہیں۔ ان میں معصوم ذہنوں کو مذہبی لحاظ سے مسموم کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں شیشو مندر ہیں‘ جہاں نوجوان نسل کی برین واشنگ کی جاتی ہے۔ ایسے اداروں کے نصاب پر حکومت کا کوئی اختیار اور نگرانی نہیں ہے۔ یہاں سے فارغ ہونے والے بچے متعصب نہیں ہوں گے‘ تو کیا ہوںگے؟ ایسے اداروں سے تعلیم یافتہ افراد ہی آگے چل کر مختلف میدانوں میں مختلف حوالوں سے مذہبی تعصب پھیلاتے ہیں۔ اس کی ایک جھلک بھارتی میڈیا میں بھی صاف دیکھی جا سکتی ہے۔ واضح ہے کہ جب تک اس معاملے پر خصوصی توجہ نہیں دی جاتی اور اصلاح احوال کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کیے جاتے‘ بھارت میں مذہبی منافرت پر مبنی سیاست کا خاتمہ ناممکن ہے۔ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بے محل نہ ہو گا کہ کانگرس نے 2003ء میں شملہ میں منعقد کیے گئے اپنے ایک اجلاس میں فیصلہ کیا تھا کہ وہ ملک سے مذہبی منافرت پر مبنی مواد ختم کرنے کے لئے کام کرے گی‘ لیکن دس سال تک اقتدار کے مزے لوٹنے کے باوجود وہ اپنے اس فیصلے پر عمل درآمد نہ کر سکی۔
اس مسئلہ کا حل تلاش کرنے کے لیے وزیر اعظم من موہن سنگھ نے حال ہی میں قومی یکجہتی کونسل کی ایک میٹنگ بلائی تھی۔ تمام وزرائے اعلیٰ اور مرکزی حکومت کے اہم ذمہ داران اس کونسل کے ممبر ہیں۔ وزیر اعظم نے اس موقع پر اپنی تقریر میں مذہبی جذبات کو ہوا دینے کے لیے سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے استعمال پر تشویش کا اظہار کیا؛ تاہم اس استعمال پر قدغن لگانے کے سلسلے میں کسی اقدام کا اعلان نہ کیا گیا۔ وزیر اعظم نے صرف اتنا کہا کہ سوشل میڈیا لوگوں کو اپنے خیالات اور احساسات پیش کرنے کی آزادی دیتا ہے لیکن لوگوں کو اس میڈیم کے توسط سے نفرت پھیلانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ انہوں نے مظفر نگر کے حالیہ فسادات کے پس منظر میں جعلی ویڈیو کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سال آسام کے فسادات میں بھی تشدد کو ہوا دینے کے لئے سوشل میڈیا کا استعمال کیا گیا تھا۔ بہرحال وزیر اعظم نے یہ اعتراف کیا کہ ملک دشمن قوتیں معمولی واقعات کو ہندو مسلم فسادات بھڑکانے کے لئے استعمال کر رہی ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ ایسے واقعات میں ملوث کسی بھی (سیاسی) جماعت کے رکن کو سزا دی جائے گی۔ حکومت ایسے تمام عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرے گی‘ چاہے وہ کتنے بھی طاقتور کیوں نہ ہوں۔ حکومت کسی بھی کمزور طبقے کو یہ محسوس نہیں ہونے دے گی کہ وہ ملک کاحصہ نہیں۔ انہوں نے ریاستی حکومتو ں پر زور دیا کہ وہ ان تمام عناصر کے خلاف کارروائی کریں جو مذہبی منافرت کو ہوا دے رہے ہیں چاہے ان کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو۔ فسادات کے سیاسی مضمرات پر بحث نہ کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سے ملک کی وحدت متاثر ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ اس نکتہ پر بحث کرنا کہ فسادات سے کس پارٹی کو فائدہ ہو گا اور کس کا نقصان‘ افسوسناک ہے۔ اس سے ملکی وحدت کو نقصان پہنچے گا۔
سوشل میڈیا کے بارے میں وزیر اعظم کے اظہار تشویش سے بیشتر وزرائے اعلیٰ اور سیاسی رہنمائوں نے اتفاق کیا۔ کئی وزرا نے اس خطرناک رجحان کے سدباب کے لیے سخت ترین سائبر قوانین بنانے کا مطالبہ کیا تاکہ مفسدین کے خلاف کارروائی کی جا سکے۔ یو پی کے وزیر اعلیٰ اکھلیش سنگھ یادو نے کہا کہ انٹرنیٹ اور موبائل پر قابل اعتراض مواد کی تشہیر روکنے کے لئے کوئی قانون ہونا چاہیے۔ اجلاس میں بی جے پی کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کی غیرحاضری قابل فہم تھی‘ جو مذہبی اختلافات کو ہوا دے کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔ اب انہوں نے اپنے دست ِراست امیت شاہ کو‘ جو کئی سنگین مجرمانہ معاملات میں ملوث ہیں، اسی کام کی غرض سے اتر پردیش صوبہ میں بھیجا ہے جو اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہوتے نظر آرہے ہیں۔
بہار کے وزیر اعلیٰ نیتش کمار نے اس تشویشناک رجحان کی طرف توجہ دلائی کہ ملک میں ایسی یاترائیں نکالی جا رہی ہیں جن کا کوئی جواز نہیں۔ انہوں نے کہا کہ مذہبی جلوسوں میں ہاتھوں میں ہتھیار لے کر چلنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ کسی مذہبی جلوس کو کسی دوسرے مذہب کے خلاف پوسٹر لگانے‘ پلے کارڈ لہرانے یا نعرے لگانے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔
یہ سبھی اقدامات اپنی جگہ مگر جب تک اس بڑھتی ہوئی مذہبی منافرت کے اصل سرچشمے کا سدباب نہیں کیا جاتا‘ تب تک شاید ہی اس مسئلہ پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اس لئے فی الفور نصابی کتب اور تاریخ کی کتابوں میں بھرے زہریلے مواد کی تطہیر کے لئے ایک نیشنل کمیشن تشکیل دیا جائے تاکہ معصوم ذہنوں کو مسموم ہونے سے بچایا جا سکے۔