26 دسمبر کو بھارتی عدالتوں نے انتہا پسند بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے وزارت عظمیٰ کے لیے نامزد کیے جانے والے نریندر مودی کو2002 ء میں بھارتی ریا ست گجرات میں مسلمانوں کے قتلِ عام کے الزام سے بری کرنے کا''حکم‘‘ سنا دیا ہے ۔اس قتلِ عام میں ہندو جنونیوں نے بھارتی پارلیمنٹ کے رکن احسان جعفری کو زخمی کرنے کے بعد درجنوں مسلمانوں سمیت زندہ جلا دیا تھا۔ ان کی 74 سالہ بیوہ ذکیہ جعفری نے احمد آباد کی عدالت میں درخواست دائر کی ہوئی تھی کہ گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی ان فسادات میں ہزاروں مسلمانوں کے قتلِ عام میں براہ راست ملوث ہیں لیکن میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ بی جے گنترا نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ انہیں مودی کے ملوث ہونے کے ثبوت نہیں ملے۔ اس سے پہلے گجرات کے قتلِ عام سے متعلق ایک اور بھی فیصلہ ہوا تھا جب منگل 2 مارچ2011ء کی صبح سبر متی جیل میں احمد آباد کی سپیشل کورٹ کے جج پی آر پٹیل نے 9 سال قبل 22 فروری2002ء کو گودھرا میں سبر متی ایکسپریس کی بوگی نمبرS-6 کو آگ لگا کر اس میں سوار وشوا ہندو پریشد کے 59کارکنوں کی ہلاکت کے مشہور ترین مقدمہ کا فیصلہ سناتے ہوئے گیارہ مسلمانوں کو سزائے موت اور بیس کو عمر قید کا حکم سنا دیا لیکن گودھرا میں بوگی نمبرS-6کو جلانے کے مبینہ واقعہ کے چند گھنٹوں بعد گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی اور اس وقت کی واجپائی حکومت کے وزیر داخلہ ایل کے ایڈوانی کی زیر کمان بھارتی پولیس اور ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں تین ہزار سے زائد مسلمان بچوں ،عورتوں اور بو ڑھوں کے خون سے ہولی کھیلنے والے اور بیسٹ بیکری میںپناہ لینے والے68 مسلمانوں کو زندہ جلانے والے آزاد دندناتے پھرتے ہیں ۔شاید ان کے لیے بھارت میں کوئی قانون نہیں ،کوئی عدالت نہیں ہے ۔
احمد آباد کے سپیشل جج پی آر پٹیل اور اب بی جے گنترا نے سبرمتی ایکسپریس کی بوگی نمبرS-6 اور تین ہزار سے زائد مسلمان بچوں ،مردوں اورعورتوںکے قتلِ عام کا اپنا فیصلہ تو سنا دیا لیکن اس مقدمہ کے حقائق کچھ اور ہیں جو ان سنائے گئے فیصلوںکی مکمل نفی کرتے ہیں:
-1بھارت کی وزارت ریلوے کی طرف سے فراہم کیے گئے ریکارڈ کے مطابق سبر متی ایکسپریس کی بوگی S-6 میں 59 مسافروں کی ریزر ویشن تھی۔ ان میں سے تین مسافروں نے اپنی بکنگ منسوخ کرادی اور چار مسافر بر وقت ٹرین میں سوار نہ ہو سکے۔ اس طرح72مسافروں کی گنجائش والے اس کمپارٹمنٹ میں سوار مسافروں کی تعداد52رہ جا تی ہے۔ ریزرویشن کرانے والے ان 52 میں سے32مسافر ریلوے اور پولیس رپورٹ کے مطابق زندہ سلامت اپنی منزل پر پہنچ چکے ہیں۔ اب باقی بیس مسافر رہ جاتے ہیں۔وزارت ریلوے کی طرف سے مہیا کیے گئے ریزرویشن ریکارڈ کے مطابق ان میں سے چار ہلاک اور نو زخمی ہوئے ۔بیس میں سے باقی لاپتہ افراد کو بھی ہلاک ہونے والوں میں شامل کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کل تیرہ افراد ہلاک ہوئے۔ دوسری طرف گجرات پولیس کے مطابق اس بوگی میں وشوا ہندو پریشد کے انسٹھ افراد ہلاک ہوئے ۔ عدالت میں کہا گیا کہ وشوا ہندو پریشد کے یہ کارسیوک ایودھیا ( بابری مسجد)سے سوار ہوئے لیکن ایودھیا ریلوے سٹیشن کی ٹکٹ اکائونٹس شیٹ میں ان ستر سے زائد '' کارسیوک‘‘ کی خریدی گئی ٹکٹوں کا کوئی ذکر ہی نہیں ۔کیا یہ حیران کن نہیں کہ ریلوے سے ٹکٹ لے کر سوار ہونے والے مسا فر تو بچ گئے لیکن جن کی ٹکٹ کا کوئی ریکارڈ ریلوے کے پاس نہیں وہ اس بوگی میں گجرات پولیس کے مطابق جل کر ہلاک ہو گئے۔
اس بوگی میں سوار بھارت کے ایک سابق فوجی جوان 54 سالہ گوندسن رتنائش پانڈے نے عدالتی کمیشن کو بیان دیتے ہوئے کہا ''وہ لکھنئو سے احمد آباد کے لیے سبر متی ایکسپریس کی متعلقہ بوگیS-6 میں سوار ہوا۔ ریزرویشن میں مجھے برتھ نمبر9الاٹ ہوئی ۔ ایودھیا سے بجرنگ دل کے لوگ سیفرن باندھے ٹرین میں سوار ہوئے ،جس سے74نشستوں والی اس بوگی میں یک دم 250کے قریب لوگ بھر گئے ،جو ہر اسٹیشن پر سٹالوں سے اشیا چھینتے اور مسافروں سے بد تمیزی بھی کر تے تھے ۔ان میں سے کئی کے ہاتھوں میں لوگان تھے جس سے گودھرا میں بوگی کے مسافروں کے سامان کو آگ بھی لگ گئی ۔ سابق بھارتی فوجی کے اس بیان کی تصدیق سبرمتی ایکسپریس ٹرین کے گارڈ ستیانارائن ورما کے اس بیان سے ہوتی ہے کہ گاڑی کو 7:55 پر زنجیر کھینچ کر روکا گیا تھا جس کی رپورٹ ہماری کتاب میں درج ہے ۔ٹرین میںسوار زندہ بچ جانے والوں کے بیانات سے ثابت ہوتا ہے کہ ایودھیا سے سوار ہونے والے بجرنگ دل اور وشواپریشد کے ان کارکنوں میں سے بہت سے لوگ شراب اور دیگر نشہ آور اشیا بھی استعمال کر رہے تھے۔
-2 سبر متی جیل میں قائم کی گئی عدالت کے جج پی آر پٹیل اور سپیشل پبلک پراسیکیوٹر پنچل نے گودھرا ٹرین کے اس مشہور اور اہم ترین مقدمہ کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ'' استغاثہ نے چونکہ یہ ثابت کر دیا ہے کہ گودھرا اتفاقیہ حادثہ نہیں بلکہ با قاعدہ سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت بوگی کو جلایا گیا ہے اور یہ منصوبہ عدالت کی نظر میں ثا بت ہو چکا ہے ،اس لیے اس میں ملوث گیارہ ملزمان کو سزائے
موت اور بیس کو عمر قید کی سزا دی جا تی ہے ‘‘۔اب سپیشل جج پٹیل،استغاثہ کے گواہان اور بھارتی ریلوے کے ریکارڈ اور دوسرے حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ آیا گودھرا کا یہ واقعہ با قاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا تھا؟۔استغاثہ کے9چشم دید گواہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے مستند کارکن ہیں۔ ان میں سے ایک گواہ ''اجے باریہ‘‘ جو گودھرا اسٹیشن پر وینڈر ہے ، کی گواہی کو سب سے مستند مانتے ہوئے یہ فیصلہ سنا یا گیا ۔اس نے گواہی دیتے ہوئے کہا کہ ملزم شوکت لالو اسے ملااور کہا کہ ہمارے ساتھ چلو ۔وہ مجھے ملزم رزاق کے گیسٹ ہائوس میں لے گیا جو گودھرا ریلوے اسٹیشن کے پاس واقع ہے ۔وہاں ٹرین جلانے کا منصوبہ بنایا گیا اور مجھے کہا گیا کہ پٹرول کے ڈبے بوگی S-6 تک لے جانے میں ہماری مدد کرو۔استغاثہ کی اس گواہی کا یہ نقطہ انتہائی اہم ہے ،جس کے مطابق ہندو ریلوے وینڈر کو اس مقدمہ میں ملوث کیے گئے ملزمان ،جن میں گودھرا میونسپل کمیٹی کے عہدیدار بلال حاجی، فاروق محمد بھانہ،سلیم شیخ، عبد الرحمن، رائو امین حسین اور حبیب کریم شیخ شامل ہیں،نے ایک ہندو وینڈر کو جو ان سب کو اچھی طرح جانتا پہچانتا تھا اس سازش میں شامل کیا تھا کہ '' ایو دھیا سے آنے والے کارسیوکوںکی بوگی کو آگ لگا نے کے لیے پٹرول کے ڈبے لے کر ہمارے ساتھ چلو؟۔ہے ناں سوچنے کی بات ؟ (جاری)
(جاری )
-3 پٹرول پمپ پر کام کرنے والے دو سیلز مینوں رنجیت سنگھ اور پرتاپ سنگھ نے گودھرا وقوعہ کے بعد بیان دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے کسی کو کھلا پٹرول نہیں دیا لیکن چھ ماہ بعد انہوں نے اپنے سابقہ بیانات تبدیل کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے کھلا پٹرول دیا تھا۔تہلکہ ٹی وی کے کیمروں میں ان کے بیانات محفوظ ہیں جن میں انہوں نے تسلیم کیا تھا کہ ہمیں بی جے پی اور پولیس والوں نے پچاس ہزار روپیہ دیئے ہیں۔اسی طرح دو گواہان مرلی مرچند نی اور کاکل پاٹھک جنہوں نے عدالت میں بطور چشم دید گواہان بیانات دیے کہ انہوں نے مسلمانوں کو بوگی کو آگ لگاتے ہوئے خود دیکھا۔ان کے بیانات بھی تہلکہ ڈاٹ کام پر دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں نے دیکھے جن میں دونوں نے اعتراف کیا کہ جب یہ واقعہ ہوا وہ اپنے گھروں میں سوئے ہوئے تھے ملزمان کے وکیلِ صفائی عدالت میں ہر سماعت پر چیختے رہے کہ ان سب گواہان کے موبائل فونز کا ریکارڈ چیک کیا جائے جس سے ثابت ہو جائے گا کہ یہ ''چشم دید‘‘ گواہان وقوعہ کے وقت موقع واردات سے کتنے میل دور تھے لیکن عدالت کے کانوں تک وکیل صفائی کی یہ چیخ پکار پہنچنا تھی نہ پہنچی ۔
-4گجرات پولیس نے چالان میں لکھا ہے کہ پولیس نے پندرہ ملزمان کو ،جو گودھرا سٹیشن سے کچھ دور سبر متی ایکسپریس کی بوگی S-6کو آگ لگا رہے تھے ،گرفتار کرنے کے بعد گودھرااسٹیشن کے قریب واقع کیبن اے میں بند کر نے کے بعد باہرمسلح گارڈ تعینات کر دی ۔۔۔ جنتا پارٹی کی طرف سے پیش کیے گئے تمام 9 چشم دید گواہوںنے بھی اس کی تصدیق کی لیکن سپیشل جج پٹیل نے مقدمہ کی سماعت کرتے ہوئے کہا اور اس کی یہ آبزرویشن عدالتی ریکارڈ کا حصہ بن چکی ہے کہ'' پولیس اور گواہان کا یہ کہنا غلط ہے کیونکہ اس کی ذاتی اطلاع کے مطا بق ان سب ملزمان کو 27اور 28فروری 2002ء کی رات پولیس نے مختلف جگہوں پر چھاپے مار کر گرفتار کیا ہے۔۔۔ایسے گواہان جن کے بارے جج پٹیل خود تسلیم کر رہے ہیں کہ ان کی گواہیاں غلط ہیں ،پھر ان گواہان پر انحصار کرتے ہوئے دی گئی سزا کیا قانونی کہی جا سکتی ہے؟۔
-5گودھرا ٹرین کے واقعہ کے بعد عوامی اور بین الاقوامی رد عمل کے بعد اس کی '' غیرجانبدارانہ ‘‘تفتیش کے لیے بھارتی سپریم کورٹ کے حکم پر گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی نے ایک '' سپیشل انویسٹیگیشن ٹیم‘‘ تشکیل دی اور تامل ناڈو سے تعلق رکھنے والے سی بی آئی کے سابق ڈائریکٹر آر کے رگھوان کو اس سپیشل ٹیم کا چیئر مین اور گجرات پولیس سے تعلق رکھنے والے تین ارکان جن میں انسپکٹر جنرل پولیس اشیش بھاٹیہ، گیتا جوہری اور شیوا نند جھا شامل تھے ،کوکمیٹی کا رکن بنایا گیا ۔نریندر مودی کی پولیس کے ان تین ارکان کی مدد کے لیے گجرات پولیس کے اہل کاروں کو تعینات کیا گیا جن میں حیران کن طور پر گجرات پولیس کے سپرنٹنڈنٹ پولیس ''نوئیل پارمر‘‘ کو شامل کیا گیا جو اس سے پہلے گجرات پولیس کی طرف سے گودھرا سانحہ کی تحقیق کرنے والا چیف انویسٹیگیشن آفیسر تھا ۔جب نوئیل پارمر کو یہ ذمہ داری سونپی گئی تو اس وقت وہ اپنی مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد چوتھی بار ایکسٹینشن پر تھا جب غیر جاندار حلقوں نے شور مچایا تو پارمر کی جگہ اس کے نائب رامیش پٹیل کو نامزد کیا گیا۔مسلم اور غیر جانبدار رائے عامہ کے ساتھ یہ کس قدر سنگین مذاق تھا کہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر بنائی گئی کمیٹی میں پورے بھارت سے کوئی افسر لینے کی بجائے تینوں افسران گجرات پولیس سے لیے گئے۔اس کمیٹی کے چیئرمین رگھوان مہینے میں صرف تین دن کے لیے گجرات آتے تھے اور ان کی تیار کی گئی رپورٹ کا تمام تر انحصار جنتا پارٹی کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کی گجرات پولیس کے درج بالا تین افسران پر تھا،لیکن 11فروری2009ء کو سپیشل انویسٹیگیشن ٹیم کے چیئر مین رگھوان نے سپریم کو رٹ میں اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے لکھا کہ ہم نے انتہائی باریک بینی سے ایک ایک پہلو کی مکمل تحقیق کی ہے اور ہم گجرات پولیس کی طرف سے کی گئی تفتیش سے مکمل اتفاق کرتے ہیں ۔ اس کے بر عکس مرکزی حکومت اور ریلوے کے وزیر کی طرف سے قائم کیے گئے جسٹس نا نا وتی کمیشن نے اس کے با لکل بر عکس رپورٹ دی جسے عدالت نے قابل سما عت ہی نہیں سمجھا ۔
-6گجرات پولیس کی طرف سے پیش کیے گئے استغاثہ کے دو نکات جن کو بنیاد بنا کر یہ فیصلہ کیا گیا وہ جج پٹیل کے بقول سازش اور منصوبہ بندی کو ثابت کرتے ہیں ۔اول: استغاثہ کے گواہ کی شہا دت کو مانتے ہوئے کہا گیا کہ 26-2-2002کی رات گودھرا اسٹیشن کے قریب واقع امن گیسٹ ہائوس میں دو خفیہ میٹنگزکا انعقاد ہوا جن میں فیصلہ کیا گیاکہ سبرمتی ایکسپریس جو گودھرا سے گزر رہی ہے ،کی بوگیS-6 کوکل صبح جلانے کے لیے پٹرول حاصل کیا جائے ۔گجرات پولیس کے استغاثہ کے مطابق گودھرا اسٹیشن پر کام کرنے والے پانچ و ینڈر بھی پہلی خفیہ میٹنگ میں شریک تھے ،اور دوسری میٹنگ جو پٹرول حاصل کرنے کے بعد ہوئی ،میں بلال حاجی، فاروق بھانہ ااور دو وینڈر شریک تھے اور یہ 140 لیٹر پٹرول نزدیکی کالا بھائی پٹرول پمپ سے خریدا گیا۔دوم: استغاثہ کے مطابق مسلم لیڈروں نے ایک ہندو وینڈر کو بھی مجبور کیا کہ وہ بوگی کو آگ لگائے اور وقوعہ کے پانچ ماہ بعد 9-7-2003 کو گجرات پولیس نے اجے کن باریہ نامی اس ہندو کو پیش کیا جس نے تفتیشی ٹیم کو بیان دیتے ہوئے کہا ''27 فروری کی صبح سبرمتی ایکسپریس کے گودھرا پہنچنے کے فوری بعدگودھرا اسٹیشن کے9 مسلمان ہاکر ،جنہیں وہ عرصہ سے جانتا تھا ، مجھے زبردستی اپنے ساتھ رزاق کے گھر لے گئے اور وہاں سے انہوں نے تیل کے کنستر لیے اور انہیں رکشوں میں رکھا اور مجھے بھی مجبور کیا کہ ایک رکشہ میں تیل کے ڈبے کو لوڈ کروں۔ کیا یہ حیران کن بات نہیں لگتی کہ بنیاد پرست مذہبی جنونی مسلمان ایک ہندو کو زبردستی اپنے ساتھ اس گھر لے کر جاتے ہیں جہاں تیل کے کنستر رکھے ہیں اور وہاں سے اس کے سامنے رکشوں میں ڈال کر بوگی کو جلانے کے لیے لے کر جاتے ہیں بلکہ اس ہندو سے پٹرول کے ڈبے رکشہ میں لوڈ کرواتے ہیں تاکہ ایودھیا کے کارسیوکوں کی بوگی کو جلایا جائے؟
-7گودھرا شہر 12وارڈز میں تقسیم ہے اورہر وارڈ میں تین میونسپل انتخابی نشستیں ہیں۔دسمبر 1999ء میں ہونے میونسپل کونسلر کے الیکشن میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے گیارہ ،آزاد مسلمانوں نے سولہ ،کانگریس نے پانچ اور بی جے پی کی حمایت سے کامیاب ہونے والوں نے چار نشستیں جیتیں۔اس مقدمہ میں اہم ترین گواہ مرلی مول چند ان انتخابات سے پہلے گودھرا میونسپل کمیٹی کا صدر تھا لیکن دسمبر1999ء میں ہونے والے انتخابات میں اسے شکست کا سامنا کرناپڑا ۔اب گودھرا میونسپل کمیٹی کی صدارت کے لیے 19ووٹ حاصل کرنے تھے ۔جنتا پارٹی کی حکومت کی وجہ سے جنتا پارٹی کے راجو درجی کانگریس کے پانچ اور تین مسلم ووٹوں سے کمیٹی کے صدر بن گئے ۔میونسپل کونسلر دیپک سونی ،جو اس مقدمہ میں جنتا پارٹی کے9استغاثہ گواہوں میں شامل ہے ، کو تعلیمی بورڈ کا صدر بنا دیا گیا لیکن ایک سال بعد ہی سولہ مسلم ،پانچ کانگریس اور تین ہندو کونسلرز پر مشتمل چوبیس ممبران نے جنتا پارٹی کے خلاف عدمِ اعتماد پیش کر دی ۔اس طرح محمد حسین کلوٹا میونسپل کمیٹی کا صدر منتخب ہو گیا۔ جس دن عدم اعتماد کامیاب ہوئی اس دن مسلمان کونسلر بلال حاجی اورراجو درجی کے درمیان ہاتھا پائی بھی ہو گئی جس کا گودھرا پولیس اسٹیشن میں مقدمہ درج ہو گیا۔۔۔اور27-2-2002کو جب سبرمتی ایکسپریس کا گودھرا والا واقعہ ہوا تو شکست خوردہ راجو درجی، دیپک سونی اور مرلی مول چند اور جنتا پارٹی کے چھ دوسرے ارکان گجرات پولیس کی طرف سے چشم دید گواہ بن گئے جن میں سے دو اس وقت گودھرا میں موجود ہی نہیں تھے ۔ان کے موبائل ریکارڈ ان کی غیر موجو دگی کی گواہی دے رہے ہیں اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے ا ن چشم دید گواہوں کی گواہیوں پر بھارت کی سپیشل عدالت نے گیارہ مسلمانوں کو سزائے موت اور بیس کو عمر قید کی سزا سنا دی ۔